سیکس، سماج اور جنسی جرائم


انسانی تہذیب کی عمارت دراصل فرد کے ضمیر کی بنیادوں پر کھڑی ہے جو انسانی جبلی خواہشات کو لگام دینے کے لیے ہر وقت سرگرداں رہتا ہے۔ تاکہ ایسی خواہشات جو معاشرے کی مروجہ اخلاقیات کے خلاف ہوں انہیں دبایا جا سکے اور کسی بھی بگاڑ سے معاشرے کو بچایا جاسکے۔ فرد کے ضمیر کی تعمیر میں معاشرے کی اخلاقیات، خاندانی تربیت اور سکولوں کی تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ فرد کی جبلی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر جائز وسائل مہیاکیے جائیں۔ اگر کسی بھی صورت میں ان خواہشات کی تکمیل نہ ہو سکے تو انسان میں نفسیاتی طور پر گھٹن پیدا ہو جاتی ہے۔ جو معاشرے کی مروجہ اخلاقیات سے بغاوت کرنے پر اکساتی ہے اور کسی بھی جائز ناجائز طریقے سے اپنی تکمیل کی خواہاں ہوتی ہے۔ سیکس کا تعلق بھی انسان کی جبلت سے ہے جب کسی بھی فرد کی جنسی ضرورت پوری نہیں ہوگی تو وہ جنسی گھٹن کا شکار ہو جائے گا اور کسی بھی طرح اس کی تکمیل کی کوشش کرے گا۔ چاہے معاشرے کی اخلاقیات کو ذبح ہی کرنا پڑے اس کے لیے سب سے اہم اس خواہش کی تکمیل ہوگا۔ یہاں پر باقی مسائل پر تو بات کی جاتی ہے لیکن اگر نہیں کی جاتی تو جنسی ضرورت کی تکمیل اور اس حوالے سے درپیش مسائل کے بارے میں۔

جب کوئی بھی معاشرہ انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوگا تو وہاں پر لازمی طور پر معاشرتی بگاڑ، اخلاقیات میں گراوٹ، جذبوں میں کھوکھلا پن، مصنوعی رشتے، انتشار، غیر یقینیت، وحشیانہ رویے، بوکھلاہٹ اور تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم پیدا ہوں گے۔ بنیادی ضروریات میں خواراک، رہائش، تعلیم، صحت، انصاف، حفاظت اور سیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غربت، بیروزگاری اور معاشی مسائل کی وجہ سے کروڑوں افراد اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے دن رات ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ہر لمحہ ایک اذیت سے کم نہیں ہے۔

اس سماج میں جنسی ضرورت کی تکمیل کے لیے ایک ہی طریقہ درست تصور کیا جاتا ہے جس کاحصول شادی کے ذریعے ممکن ہے لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے بہت سارے افراد کے لیے شادی کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے، ایسے افراد پھر جنسی گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنسی تعلیم کی عدم فراہمی، غلط معلومات اور پورنوگرافی کے باعث جنسی تصورات اور حقیقت میں جنسی عمل کے درمیا ن بڑھتے خلا کی وجہ سے شادی شدہ لوگ بھی جنسی طور پر ناخوش اور کج روی کا شکار نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں جنسی گھٹن کے گڑھے میں گر جاتے ہیں، جنسی گھٹن پر گفتگو کرنا اس معاشرے میں شجر ممنوعہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ تو جنسی گھٹن ہے جو نفسیاتی بیماریوں اور ریپ وغیرہ کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے۔

اس کے علاوہ جاوید اقبال (100 بچوں کا قاتل) کی طرح سائیکو پیتھک شخصیات بھی ہوتی ہیں جو نفسیاتی بگاڑ کا شکار ہوتی ہیں۔ سائیکو پیتھک شخصیات کے بننے میں موروثی، حیاتیاتی، نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں، ایسے لوگ اخلاقی پاگل پن کا شکار ہوتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر احساسِ شرم اور احساسِ جرم سے عاری ہوتے ہیں اور معاشرتی طور پر غیرقانونی اور غیر اخلاقی حرکات کرتے رہتے ہیں، یہ بات اہم ہے کہ سائیکو پیتھک شخصیت کے مالک افراد غیرقانونی اور غیر اخلاقی حرکات کرتے ہیں لیکن ایسی حرکتیں کرنے والے سب لوگ سائیکو پیتھ نہیں ہوتے۔

سائیکو پیتھک افراد چونکہ عام لوگوں کی طرح ہی ہوتے ہیں اور زیادہ تر چھپ کر وار کرتے ہیں اس لئے ان کو پہچاننا بھی مشکل کام ہے کیوں کہ ان میں سے کئی افراد تو معاشرے میں عزت یافتہ پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے پیشوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کا علاج کرنے سے بھی لوگ گھبراتے ہیں اور یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ انہیں قتل کردینا چاہیے یا ان کا علاج کرنا چاہیے۔ لیکن ایسی شخصیت کے وجود میں آنے کے لیے جو سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی محرکات ہیں ان کو کنٹرول کرتے ہوئے اس امر کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں سے حفاظت کے لیے بچوں کو جنسی تعلیم اور ایسے واقعات سے بچاؤکے لئے تربیت دی جانی چاہیے جو ہمارے معاشرے میں ندارد ہے۔

پسمانگی، جہالت اور غیر انسانی رویوں کے پیش نظر کچھ لوگ انتقام کی بنیاد پر بھی ایسے وحشیانہ اقدام اٹھاتے ہیں۔ خاندانی جھگڑوں اور ذاتیات پر مشتمل لڑائیوں کی وجہ سے بھی آسان ٹارگٹ کے طور پربچوں کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ بچپن میں اس طرز کا کوئی واقعہ درپیش ہوا ہو تو ان میں سے کچھ افرادمعاشرے سے انتقام کے طورپر اس طرح کے گھناؤنے اقدام بھی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط افراد بھی جنسی حوس مٹانے کے لئے اپنی طاقت کے بل بوتے پر بچوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں اور اس طرح کے ظالموں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں جس طرح قصور اسکینڈل میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی کا ہاتھ تھا۔

کسی بھی نظام کا مقصد لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور درپیش مسائل کا حل کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام جس بھونڈی شکل میں ہمارے سماج پر مسلط کیا گیا اور بحران کی کیفیت میں لوگوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کرتے ہوئے معاشرے کو ایسی بھیانک صورتحال میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں بیگانگی سے لے کر دہشتگردی اور بھوک سے لے کر وحشیانہ جرائم تک انسانوں کا مقدر بن چکے ہیں۔ یہ نظام اپنے نامیاتی بحران کی وجہ سے بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس کا مقصد انسانی ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ چند افراد کے منافعوں میں بے پناہ اضافہ کرنا ہے۔ معاشی نظام میں گراوٹ کی وجہ سے معاشرہ، سیاست، ثقافت، اخلاقیات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی گراوٹ اور پراگندگی کا شکار ہے، اس نظام میں رہتے ہوئے انصاف ممکن نہیں ہے کیونکہ عدلیہ کے موجودہ فیصلوں سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ انصاف سرمایہ دار طبقے کی لونڈی بن کے رہ گیا ہے۔

سخت سزا سے بھی ان مسائل کا مستقل حل نہیں کیا جا سکتا جب تک ان مسائل کے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ کے نہ پھینکا جائے۔ جب تک جنسی گھٹن پر بات نہیں کی جائے گی۔ اس کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔ تب تک اس طرز کے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ بنیادی انسانی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس قاتل نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جو انسانوں سے انسانیت چھیننے کے در پے ہے۔ اس طرح ہم نہ صرف اس نسل کو بلکہ آنے والی نسلوں کو غیر انسانی اور وحشیانہ رویوں سے بچا سکتے ہیں، جس کے لئے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد بے حد ضروری ہے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya