یوم جمہوریہ۔ آئین اور جمہوریت سے تجدید وفا کا دن


پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کا اعلان 14 1ور 15 اگست 1947 ء کی درمیانی شب کو ہوا تو ہندوستان نے رات کے بعد کے دن کو اور پاکستان نے رات سے قبل کے روز کو یوم آزادی مانا۔ آزادی کا یہ رسمی اعلان برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت ہوا تھا جو 4 جولائی 1947 کو ایک قانون بن گیا تھا جس کے مطابق 15 اگست 1947ء سےبرٹش انڈیا کو ہندوستان اور پاکستان کے دو آزاد ملکوں میں تقسیم ہوجانا تھا۔

کسی دستوری ڈھانچے کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملک کو اس کے اپنے آئین کے بننے تک 1935 ءکے قانون کے تحت ہی چلانے کا فیصلہ ہوا۔ اس قانون کے تحت بانی پاکستان قائد اعظم کو گورنر جنرل بنایا گیا جو تاج برطانیہ کے ماتحت ایک عہدہ تھا۔ گورنر جنرل کا عہدہ 23 مارچ 1956 کو نئے آئین کے نافذالعمل ہونے تک جاری رہا اور اس کے بعد ریاست کے سربراہ کو صدر کہا گیا۔

آزادی کے نو سال بعد پاکستان کا نیا اسلامی اور جمہوری آئین بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے مملکت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس بات کو ملک اور لوگوں کے لئے قابل فخر بنانے کے لئے ہر سال 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا۔ اکتوبر 1958 ء میں اسکندر مرزا کےآئین کو معطل کرنے اور ایوب خان کے مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد اگلے سال 23 مارچ کو بطور یوم پاکستان منایا گیا جس میں ملک کے پہلے اسلامی جمہوری دستور کے بجائے 22 سے 24 مارچ 1940 ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ کنونشن کے جلسہ عام میں منظور کی گئی قرار داد کا ذکر نمایاں تھا۔ یوں 1956 ءمیں نافذ کردہ پہلے دستور کے اجراء پر منایا جانے والا یوم جمہوریہ 1959 ءمیں دستور کی معطلی کے ساتھ ہی یوم پاکستان بن گیا۔

پاکستان کے پہلے آئین کو معطلی پر قانون ساز اسمبلی کے پہلے صدرمولوی تمیزالدین کے کیس میں عدالتی فیصلہ اب تاریخ کا حصہ ہے جس میں آئین کی معطلی کو غلط مگر وقت اور حالات کے تحت ایسا کرنے کو عین ضرورت کے مطابق قرار دیا گیاجس کا اطلاق اس کے بعد ایوب خان کے نافذ کردہ مارشل لاء پر بھی ہوا۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں مولوی تمیز الدین کے کیس میں یہ فیصلہ ایک ایسا باب ہے جس کے ذکر سے ججوں کے چہروں پر شرم سے سرخی آجانے کے باوجود وقتاً فوقتاً اسی نظریہ ضرورت کے تحت آئین کی معطلی کو جائز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جب بھی ملک میں آئین معطل رہا 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کہنے اور آئین کی بالادستی کے ذکر سے سے گریز کیا جاتا رہا۔

پاکستان کے لوگ میر جعفر اور میر صادق کے کرداروں کا بطور ننگ ملت و قوم حوالہ تو دیتے ہیں مگر نئی نسل کو شاید ہی یہ حقیقت بھی معلوم ہو کہ ملک کے پہلے آئین کو توڑنے ولا اسکندر مرزا خونی رشتے میں میر جعفر کا پڑ پوتا اور پیشے کے طور پر برطانوی فوج میں کمیشن لینے والا پہلا ہندوستانی تھا ۔ سول سروس میں کام کرتے ہوئے پاکستان کا وزیر دفاع بن کر افسر شاہی کو ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی راہ دکھانے والا بھی میر جعفر کا پڑ پوتا ہی تھا۔ اسی سکندر مرزا نے ایوب خان کو مہاجرین کی دیکھ بال میں نا اہلی پر کورٹ مارشل کی سزا سے سے بچا کر کمانڈر انچیف بنوادیا تو اس نے بعد میں ملک میں مارشل لاء لگا کر اسکندر مرزا کو ہی جلاوطن کردیا۔

پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے خود کو کبھی آئین اور قانون سے مبرا نہیں سمجھا مگر اس کے باوجود پاکستان کی بے آئینی کی تاریخ اس کے آئین کی تاریخ سے زیادہ طویل اور پیچیدہ ہے۔ قائد اعظم چاہتے تو خود اپنے لئے کسی بھی عہدے کی تخلیق یا انتخاب کرتے یا اپنی مرضی و منشا کا آئین بناتے اور نافذ کرتے مگر انھوں نے ایسی کوئی مثال قائم کرنے سے گریز کیا کہ آئین عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کے بجائے کسی ایک شخص کی خواہشات کا آئینہ دار ہو۔ مگربد قسمتی سے نو سال کے طویل عرصے میں بننے والے پہلے آئین کے نفاذکو دو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کو بہ یک جنبش قلم ختم کر دیا گیا۔ طالع آزماؤں نےآئین کو معطل کرکے ایک ہی رات میں ملک کے جمہوری راستے پر جاری بلندیوں کی طرف آئینی سفر کو مارشل لاء اور بے آئینی کی کھائیوں کی طرف موڑنے کی جو رسم شروع کی تھی اسی کا بعد میں بار بار اعادہ ہوتا رہا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے۔

کبھی ارتکاز اختیارات کیساتھ صدارتی طرز حکومت اور کبھی بنیادی جمہوریتوں کے نام پر غیر جمہوری حکومت کو پروان چڑھانے کی ترقی معکوس کے سفر میں ملک دو لخت ہوا۔ باقی بچ جانے والے ملک کو ایک بار پھر آئینی و جمہوری راستے پر ڈال کر ابھی پانچ سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ دستور کو عضو معطل بناکر ایک بار پھر ملک کو بے آئین کردیا گیا۔ اس دوران ملک میں آئین اور جمہوریت کا نام لینا بھی جرم بن گیا۔ کسی دستور اور آئین کی غیر موجود گی میں ایک بار پھر گیارہ سال تک 23 مارچ کے یوم جمہوریہ کو صرف فوجی پریڈ اور ثقافتی طائفوں تک محدود کرکے یوم پاکستان کہا گیا۔

جنرل ضیاءالحق کی کی حادثاتی موت کے بعد آمریت میں کی گئی آٹھویں ترمیم سے پاک کرکے جب آئین کو نافذ کردیا تو ایک بار پھر1999 ء میں ملک میں طالع آزمائی ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں 23 مارچ کو سالانہ کی جانے والی فوجی پریڈ بھی ملک کے اندرونی حالات اور دہشت گردی کی وجہ سے منعقد نہ ہو سکی۔ کسی جنرل کے اقتدار کے دوران سال میں ایک بار منعقد کی جانے والی اہم فوجی پریڈ کا منعقد نہ کیا جانا اس بات کی غمازی تھی کہ ملک کا اصل دفاع جمہوریت کے تسلسل اور آئین کی بحالی میں ہی ممکن ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے جبر اور جنرل مشرف کی ریشہ دوانیوں کے سامنے آئین اور جمہوریت کے لئے کھڑی رہنے والی نہتی بے نظیر بھٹو کی جان کے نذرانے کے بعد ایک بار پھر وقت کے آمر کو اقتدار چھوڑدینا پڑا۔ مشرف کے دور میں بند ہونے والا یوم جمہوریہ کا سالانہ پریڈ بھی ایک بار پھر بحال ہوا ہے جو ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی کی عکاسی ہے۔

یوم جمہوریہ کسی ملک میں آئین کی بالادستی اور اس سے وفاداری کا دن ہوتا ہے جس میں ریاست کے تمام ادارے سال میں ایک بار آئین اور جمہوریت سے اپنی وفاداری کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ یہ عسکری مظاہروں اور ثقافتی طائفوں سے آگے بڑھ کر آئینی اور جمہوری اداروں کی بالادستی اور ان سے اپنی وفاداری کے اظہار کے ساتھ جمہوریت اور آئین سے اپنے عہد وفاکی تجدید کا دن بھی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan