یوم پاکستان اور غدار کا خواب


کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے ہر پانسو بچوں میں سے ایک کے دل میں سوراخ ہوتا ہے۔ کبھی ایک سوراخ، کبھی ایک سے زیادہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے اکثریت کے سوراخ خود بخود بھر جاتے ہیں۔ پھر کچھ بدبخت بچے میرے جیسے ہوتے ہیں جو مکمل دل کےساتھ پیدا ہوتے ہیں پر انہیں بچپن میں ہی کوئی سوال کرنا سکھا دیتا ہے۔ کوئی یہ بھی کان میں ڈال دیتا ہے کہ سوال بند گلی نہیں ہوتے، روزن زنداں ہوتے ہیں۔ پھر مجھ جیسوں کو یہ خوش فہمی ہو جاتی ہے کہ یہ روزن بناتے گئے تو ایک دن دیوار ڈھے جائے گی اور سحر دکھائی دینے لگے گی۔ روز سورج طلوع ہوتا نظر آئے گا۔ روز انجم فلک سیاہ کو روشن کر دیں گے۔ ہوتا لیکن یہ ہے کہ دن گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر نئی صبح دیوار پہلے سے اونچی ملتی ہے۔ پہلے سے زیادہ ناقابل شکست  اور پھر پتہ لگتا ہے کہ سب روزن تو دل میں بن گئے ہیں۔ میں اپنا دل دیکھتا ہوں۔ ہوتے ہوتے اس میں بہت چھید ہو گئے ہیں۔ ہم الم نصیبوں کے پاس خوشیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں تو وہ دل میں ٹھہر نہیں پاتیں۔ غم بہت بڑے ہوتے ہیں تو وہ ان سوراخوں میں ہمیشہ کے لیے اٹک جاتے ہیں۔ یہ دریدہ دل بس دکھ کی سرائے بن کر رہ جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس کے مسافر کوچ نہیں کرتے۔ مستقل مہمان بنے رہتے ہیں۔

چپ رہنے کے اسلوب سیکھے نہیں اور سچ کے بھانبڑ اب سہنے کا کسی میں یارا نہیں ہے۔ عجب بے بسی سی بے بسی ہے۔ سوال گنگ ہیں۔ جواب جان لیوا ہیں۔ کہنے کو کچھ رہا نہیں ہے اور بن کہے کوئی سمجھتا نہیں ہے۔ دوستوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ ہر لمحہ طرب میں ہی مجھ پر قنوطیت کا نزول کیوں ہوتا ہے۔ انہیں کون بتائے کہ مجھ سے زیادہ خوشی کا متلاشی ڈھونڈے سے نہیں ملے گا پر چاہ نخشب سے اگتے گولے کو چاند کیسے مان لوں۔ سراب سے پیاس کو سیراب کیسے کروں اور شاہ رگ سے ابلتے خون پر بینڈ ایڈ لگا کر مطمئن کیسے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ المیہ صرف اس ملک کا نہیں ہے جس سے مجھے نسبت ہے پر اسی نسبت کے ناطے میری طناب جاں یہیں گڑی ہے تو میں اسی دائرے کا اسیر، یہیں آواز اٹھاتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایسے بہت سے اور دائرے ہیں اور ہر دائرے میں لے میں لے نہ ملانے والا غدار کہلاتا ہے ۔ ہم پہ تہمت یوں بھی ہے ۔ ووں بھی ہے۔

چلیے، میں بہت سے سوال چھوڑ دیتا ہوں۔ میں نہیں پوچھتا کہ آج کے دن کی تاریخ ہے کیا۔ میں نہیں پوچھتا کہ قرارداد لاہور میں الگ ملک کی تو بات تھی ہی نہیں۔ میں نہیں پوچھتا کہ قرارداد اگر 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی تو اس کا یوم تاسیس 23 مارچ کیونکر ہوا۔ میں نہیں پوچھتا کہ 1941 سے 1947 تک کبھی مسلم لیگ نے 23 مارچ کا دن کیوں نہیں منایا۔ میں نہیں پوچھتا کہ 1947 سے 1956 تک مملکت پاکستان میں کسی کو یوم پاکستان منانے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ میں اس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ 1956 کے آئین کی 23 مارچ کو منظوری سے ملک کو حقیقی آزادی کیونکر نصیب ہوئی تھی۔ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ 1956 سے 1958 تک 23 مارچ کو منایا جانے والا یوم جمہوریہ اچانک 1959 سے یوم پاکستان کیسے بن گیا اور آئین سے وابستہ دن اچانک ایک بھولی بسری قرارداد سے کیسے جوڑ دیا گیا۔ میں 1958 میں لگنے والے مارشل لاء، پاکستان کے پہلے آئین کی پامالی اور مردودی، محترم فیلڈ مارشل ایوب خان کی جمہوریت پسندی اور 23 مارچ کے باہمی تعلق پر تو بالکل ہی خاموش رہتا ہوں اور یہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ 1973 کے آئین کا دن کونسا ہے۔ میں یہ سب سوال قالین کا کونا اٹھا کر نیچے دھکیل دیتا ہوں۔ وہاں ایسے بہت سے اور سوال وقت کی دھول میں اٹے بے دم پڑے ہیں۔ کچھ اور سہی۔

پر یہ تاریخی مغالطوں کا قصہ تو تھا ہی نہیں۔ یہ تو میرے درد کی داستان تھی۔ میرے دل کے ایک ایک روزن سے رسنے والے لہو کی کہانی تھی۔ میں اس کا کیا کروں کہ میرے خواب کنکریٹ کی سڑک پر دوڑتے لوہے کے بکتر بند قلعوں سے کہیں دور بہار کی ایک دوپہر میں کھلتے گل لالہ کی ایک کلی سے جڑے ہیں۔ مجھے اعتراف کر لینے دیجیے کہ میں ایک بزدل آدمی ہوں۔ مجھے ہتھیار اچھے نہیں لگتے۔ جنگی ترانے سن کر مجھے ویتنام میں نیپام بم سے جھلسی نیم برہنہ بچی یاد آتی ہے۔ جہاز میری چھت پر سے سد صوت کو روند کر گزرتے ہیں تو مجھے ناگاساکی کے ریزہ ریزہ ہوتے جسم دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ٹینکوں کی شان وشوکت میں مجھے اسٹالن گراڈ کا شہر برباد نظر آتا ہے۔ فوجی مارچ کرتے گزرتے ہیں تو مجھے لاہورسے ڈھاکہ، ڈھاکہ سے کارگل اور کارگل سے وزیرستان تک جوانوں کے تابوت میں لوٹتے لاشے نظر آنے لگتے ہیں۔

ٹھہریے ۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں جنگ ناگزیر ہے۔ میں جانتا ہوں ابھی ہتھیار بھٹی میں پگھلانے کا وقت نہیں آیا۔ میں جانتا ہوں کہ بندوق کی نال میں ابھی پھول اگانے کا موسم نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ طاقت اب بھی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جرم ضعیفی کی سزا اب بھی مرگ مفاجات ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انسان نے عقیدے سے محبت کرنا سیکھ لی یے، وطن سے محبت کرنا سیکھ لی ہے، نظریے سے محبت کرنا  بھی سیکھ لی ہے۔ نہیں سیکھی تو انسان نے انسان سے محبت کرنا نہیں سیکھی۔ تو جب تک زمین میں لکیریں کھنچی ہیں اور عقیدے اور نظریے جان سے زیادہ محترم ہیں تب تک تلوار کی دھار، گولی کی مار اور نفرت کا وار ستار سے نکلے سر، قلم سے نکلے لفظ اور محبت کے شجر سایہ دار پر غالب رہے گا۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ اس سب کے ہوتے بھی  نمائش کا جو اسلوب ہم نے اپنایا ہے۔ اس سے حاصل کیا ہے، یہ میں کسی طور سمجھ نہیں پاتا۔

میرا مسئلہ سمجھیے۔ میرے پاس کچھ تصویریں ہیں۔ یہ ایک تصویر میں چھ سات سال کا بچہ دن بھر کی مزدوری سے بے حال ننگے پیر، پھٹے کپڑوں میں  ملتان کے قریب ایک سڑک کے کنارے بچھی بجری پر سو رہا ہے۔ ایک تصویر میں راولپنڈی کی سبزی منڈی میں ایک دس سال کی پیاری سی بچی کی آنکھ میں منجمد آنسو ہے جب اس سے کسی نے بس یہ پوچھا کہ تم نے کچھ کھایا ہے۔ ایک تصویر میں ڈسٹرکٹ ہسپتال جیکب آباد کے برآمدے کے ننگے ٹھنڈے فرش پر پڑا ایک ستر سالہ بزرگ ہے جو کچھ دیر میں مر جائے گا کہ ہسپتال میں نہ بیڈ ہے نہ دوائی نہ اسے دیکھنے کو ڈاکٹر۔ ایک اور تصویر میں کراچی میں وی آئی پی ٹریفک میں پھنسے ایک رکشے میں تڑپتی عورت ہے جو کچھ دیر میں اسی رکشے میں اپنے بچے کو جنم دے گی۔ ایک تصویر میں حجرہ شاہ مقیم کی ایک گلی کا منظر ہے جدھر ابلتے ہوئے بدبودار سیوریج کے پانی سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ یہ مظفر گڑھ کی تصویر ہے ۔سیلاب کے پانی میں بہتی کچھ بچوں کی لاشیں ہیں اور جہاں پانی ٹھہر گیا ہے وہاں ان کا بوڑھا دادا اس حال میں کھڑا ہے کہ گردن تک پانی ہے اور چہرے پر صرف بے بسی رقم ہے۔ انکھوں میں دکھ جم گیا ہے اور کچھ شکوے بھی۔ گوادر کی ایک تصویر ہے۔ مستقبل کے دوبئی میں یہ کچھ عورتیں ہیں جو دس میل دور سے پانی ڈھو کر لے جا رہی ہیں۔ یہ تھر کا ایک جوہڑ ہے جہاں کالے سیاہ پانی سے جانور اور انسان ایک وقت میں پیاس بجھا رہے ہیں۔ یہ مردان میں ریپ اور قتل ہونے والی بچی کی تصویر ہے۔ یہ لاہور کی ورکشاپ میں کام کرنے والے نو سالہ بچے کی تصویر ہے۔ یہ قصور کے بھٹے پر بیڑیاں پہنے پورا خاندان ہے۔ یہ گوجرہ کی جلتی ہوئی مسیحی کالونی ہے۔ یہ فیصل آباد کے اس ڈاکٹر کی لاش ہے جو صرف احمدی ہونے کی وجہ سے مار دیا گیا۔ یہ دریائے سواں کی تصویر ہے۔ اس کا نیلگوں پانی اب لئی کے پانی سے زیادہ سیاہ ہے۔ یہ ہنزہ میں شکار ہوا آئیبیکس ہے۔ یہ پگھلتا سکڑتا راکھیوٹ گلیشئیر ہے۔ یہ ونی میں دی جانے والی بچی ہے۔ یہ پیر ودھائی کے اڈے پر جنسی درندوں کی خواہشوں کی تسکین کرتا بچہ ہے۔ یہ چارسدہ اور تورغر کے سکولوں میں نہ جا سکنے والی بچیاں ہیں۔ یہ گونر فارم پر جلتی بس کے اندر خاک ہوتے شیعہ مسافر ہیں۔ یہ کوئٹہ کی علمدار روڈ پر بچھی ہزارہ لاشیں ہیں۔ یہ ملتان کی جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹتا جنید حفیظ ہے۔ یہ منصفوں کے وقت نکال پانے کی منتظر آسیہ بی بی ہے۔ یہ اسلام آباد میں معلم سے مجرم بنا پروفیسر انوار ہے۔ یہ ایک سو سولہ روپے ہیں جو اب ایک ڈالر کے بدلے ملا کرتے ہیں اور یہ 200 کا ہندسہ ہے۔ اقوام عالم میں ہمارا مقام، آبروئے شہریت کے حوالے سے۔

ان ساری تصویروں کے ہجوم میں مجھے رنگ برنگے فلوٹ، اونچا ہوتا پرچم، ترانے گاتے گلوکار، ایوارڈ سمیٹتے فنکار، مارچ کرتے محافظ، لوہے اور فولاد کے چلتے پھرتے قلعے اور میزائیلوں کے ماڈل، کچھ بھی صحیح طرح دکھائی نہیں دیتا۔ میں گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ بند آنکھوں سے خواب دیکھے جا سکتے ہیں تو میں بھی یہی کرتا ہوں۔ ایک ایسے پاکستان کے خواب جہاں عقیدہ آپکی حیثیت کا تعین نہ کرے۔ جہاں آپکی صنف آپکی راہ میں مزاحم نہ ہو۔ جہاں سوال کرنے کا حق ملے۔ جہاں نفرت کا بیوپار نہ ہو۔ جہاں خضدار اور لاہور کے بچے کے حقوق ایک جیسے ہوں۔ جہاں انسانی جان کی حرمت ہر نظریے سے بالاتر ہو۔ جہاں تعلیم، صحت اور انصاف پر سب کا ایک سا حق ہو۔ جہاں انسان ایمانیات،عقیدے، مسلک، ذات، برادری، زبان اور حلیے سے نہیں بلکہ اپنی اہلیت سے پہچانے اور تولے جائیں۔ آج کی تاریخ میں یہ خواب دیکھنا بھی جرم ہے۔ غداری ہے پر ہم امید کی ٹوٹتی ڈور  سے  اب بھی بندھے ہیں۔ کیا پتہ ایک یوم پاکستان ایسا بھی ہو جب ہم طاقت کی نہیں، انسان دوستی اور انسان پروری کی نمائش کے قابل ہوں۔ ایک ایسا یوم پاکستان جس پر پطرس مسیح بھی اتنا ہی خوش ہو جتنا حاشر ابن ارشاد۔

***    ***

 محترم بھائی حاشر ابن ارشاد کی یہ تحریر میں نے ڈبڈباتی، دھندلائی ہوئی آںکھوں سے پڑھی اور بے اختیار جی چاہا کہ ہم سب پڑھنے والوں کو اس تحریر کے ساتھ انیسویں صدی کے آسٹرین مصور Moritz von Schwind کا شاہکار “زندانی کا خواب” بھی دکھایا جائے جو اس نے 1836ء میں بنایا تھا۔ مارتی فاں شوند موقلم سے ہنر دکھاتا تھا۔ حاشر ارشاد کے ہاتھ میں قلم ہے، دیکھئیے، دو سو برس کے زمانی فاصلے پر بیٹھے دو بڑے فن کار ایک ہی بات کس ڈھنگ سے کہتے ہیں۔

The dream of the prisoner – Moritz von Schwind

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad