1940ء کی قراردادِ لاہور – مفروضہ اور حقیقت!


برِصغیر اور پاکستان کی تاریخ بھی عجیب ہے کہ 1940ء کی قرارداد ِ لاہور کو 77 برس اور برِصغیر کی تقسیم کو 70برس گذر چکے ہیں اور آج تک تقسیم کا سوال نہ صرف برقرار ہے بلکہ علمی اور سیاسی حلقوں میں ہنوز زیرِ بحث ہےلیکن اس کے بارے میں کوئی بھی ایک رائے قائم نہیں ہو سکی ہے۔ تاریخ کا المیہ یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس میں جو قرارداد پاس کی گئی، اس کے بارے میں بھی ایک رائے قائم نہیں ہو سکی ہے۔ 77 سال گذر جانے کے باوجود 1940ء کی لاہور قرارداد کی مطلوبہ وضاحت نہیں ہو سکی ہے۔ میں نے پچھلی تین دہائیوں سے برِصغیر کی جدید سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ شدت سے محسوس کیا ہے کہ آج تک تقسیمِ ہند کے اصل محرکات، پاکستان کے قیام اور صوبوں کی اس میں شمولیت سے متعلقہ سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ جن کا تاریخی، معروضی اور حقیقت پسندی سے تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں متعصب اور معروضی اافکار پر مبنی ریاست اور دائیں بازو کے گمراہ کن بیانیے نے اس ملک کی نسلوں کو فکری طور پرنہ صرف گمراہ کیا ہے٬ ایک رجعت پسند نقطہ نظر کو نصاب کے ذریعے معاشرے پر مسلط کیا ہے بلکہ ملک میں موجود قومیتی تضادات اور وفاقی تنازعات کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہاں میں کوشش کروں گا کہ1940ء والی قرارداد کے حوالے سے موجودہ مفروضات اور حقائق کا تجزیہ کروں۔

مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ جس کی صدارت سر آغا خان نے کی۔ مسلم لیگ فکری طور پر اگرچہ ایک فرقہ پرست اور مسلمان جاگیردار طبقے کی نمائندہ جماعت تھی تاہم وہ علیحدگی پسند ہرگز نہ تھی۔ اس پارٹی کا شروع سے المیہ یہ تھا کہ جلسوں، جلوسوں اور عوامی زندگی میں وہ خود فریب دو قومی نظریے کی علمبردار اور سمی اجلاسوں میں وہ عدم مرکزیت کے حامل وفاق اور مکمل صوبائی خودمختاری کی داعی تھی۔ 1909ء کے منٹو کی آئینی اصلاحات، 1916ء میں لکھنؤ پیکٹ، 1919ء کے آئینی اصلاحات، 1927ء میں سائمن کمیشن، 1921ء میں کانگریس کی نہرو رپورٹ کے ردعمل میں پیش کیے گئے چودہ نکات، 1929ء اور 1930ء کی گول میز کانفرنس، 1935ء کے ایکٹ کے مواقع پر مسلم لیگ نے انگریز سرکار اور کانگریس کے سامنے ہمیشہ آئینی و سیاسی مطالبات رکھے۔ جس کا مسلمان اکثریتی صوبوں اور علائقوں کی خودمختاری سے تو ضرور تعلق تھا لیکن اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کے باوجود، مسلم لیگ کبھی بھی مسلم اکثریتی علائقوں میں کوئی بڑی جماعت بن نہ سکی اور 1937ء میں بدترین شکست نے تو اس کو مسلمان اکثریتی علائقوں میں غیر مؤ ‏ ثر کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1940ء میں یہ قرارداد کوئی اچانک نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس سے پہلے کچھ اہم واقعات ہو چکے تھے، جنہوں نے آگے جاکر 1940ء کی لاہور قرارداد کی صورت اختیار کی۔

سب سے پہلے 29 دسمبر 1930ء کو مسلم لیگ کے وقتی صدر علامہ اقبال نے پارٹی کے الہ آباد کے اجلاس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کو ملا کر ایک مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ریاست برطانوی راج کے اندر ہو یا باہر، ہمارا اس سے کوئی سرورکار نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا یہ خاکا مسلم لیگ نے رد کردیا کیونکہ اس وقت بھی لوگوں نے اس کو گریٹر پنجاب کا تصور قرار دیا تھا۔ اگرچہ اقبال نے خطبے میں پاکستان لفظ استعمال نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس نے ہندستان سے علیحدہ کسی ملک کی بات کی تھی۔ اس کے باوجود اس کو پاکستان کے قیام کا بنیادی تصور قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ سراسر غلط بیانی ہے کہ پاکستان کا قیام اقبال کا خواب تھا۔ اقبال کے خطبے کا پاکستان کے قیام سےکوئی تعلق نہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 1940ء کی قرارداد کے پس منظر میں یہ خطبہ بھی ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

8 سے 10 اکتوبر 1930ء کو کراچی میں سندھ پراونشل مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس کا انتظام سر حاجی عبداللہ ہارون نے کیا۔ اور اس میں فضل الحق، سداء اللہ خان، سر سکندر حیات، مولانا شوکت علی، چودھری خلیق الزمان، لیاقت علی خان، اور جناح جیسے مرکزی رہنما شریک ہوئے۔ اور سندھ میں سے شہیداللہ بخش سومرو، پیر الاہی بخش، عبداللہ ہارون، سر غلام حسین ہدایت اللہ، جی ایم سید، جمال خان ہادی شامل تھے۔ جب کہ اس کانفرنس کی صدارت جناح نے کی تھی۔ اس اجلاس میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ نے دو-قومی نظریے کی بنیاد پر ہندو اور مسلمان اکثریتی علائقوں پر مشتمل دو علیحدہ (وفاقی) ممالک کا واضح مطالبہ کیا۔ اس اجلاس میں پہلی مرتبہ عبداللہ ہارون، شیخ عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید نے خودارادیت کا مطالبہ کیا۔ تاہم وہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر تاریخی قوموں کے لیے نہیں بلکہ مسلمان اور ہندو ‘‘قوموں’’ کے لیے تھا۔ مسلمان اکثریتی علائقوں اور صوبوں کے لیے 1939ء میں لیاقت علی خان نے میرٹھ کے اجلاس میں ہندستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا اور مسلم لیگ کے کراچی کی 1938ء کی قرارداد کی توثیق کی۔

1939ء میں حیدرآباد کے ڈاکٹر عبدالحسین نے ایک نیا فارمولا تجویز کیا۔ جس کے مطابق ہندستان میں چار مسلمان علائقوں پر مشتمل ایک زون بنانے پر زور دیا گیا۔ جب کہ اسی سال علی گڑھ کے دو اساتذہ پروفیسر نظرالحسن اور ایم فضل قادری نے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے تین وفاق قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یعنی ایک شمال-مغرب٬ دوسرا شمال –مشرق اور تیسرا حیدرآباد دکھن۔

اس ساری صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسلم لیگ کے پاس صوبائی خودمختاری اور جداگانہ طریقہ انتخاب کے علاوہ کوئی بھی واضح یا ایک موقف یا فارمولا نہیں تھا۔ البتہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم لیگ کچھ بنیادی سوالات طے کر چکی تھی۔1940ء کی قراردادِ لاہور کا دوسرا پس منظر یہ بھی تھا کہ 1937ء کے الیکشن میں بدترین شکست کی وجہ سے مسلم لیگ سیاسی طور پر کمزور ہو چکی تھی۔ یعنی جو جماعت مسلم حقوق کی علمبردار اور ان کی نمائندگی کی دعویدار تھی اس کو ان شمال مشرق اور شمال مغرب کے علائقوں اور صوبوں میں شکست ملی، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ کو 1940ء میں ایک مضبوط موقف سے سامنے آنا پڑا۔ تاہم جیساکہ 1930ء سے 1939ء تک مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مختلف اور متضاد فارمولے آ چکے تھے٬ اس لیے 1940ء کی قرارداد بھی بنیادی طور پر ان کا تسلسل تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں آج تک مفروضات اور پیچیدگیاں قائم ہیں۔

اس سارے پس منظر میں 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کی 77ویں سالانہ اجلاس میں مولوی عبدالقاسم فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی، جس کو شیرِ بنگال کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس قرارداد کی توثیق مسلم اقلیتی صوبے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے چودھری خلیق الزمان نے کی تھی۔ البتہ یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ بعد میں فضل الحق اور خلیق الزمان نے اپنی کتاب “Path way to Pakistan” میں اس پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

23 مارچ1940ء پر مسلم لیگ نے جو قرارداد پیش کی، اس کو قراردادِ لاہور کہا جاتا ہے۔ جس میں پاکستان کا ذکر بھی نہیں ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس کو بعد میں قرارداد ِ پاکستان قرار دیا گیا۔ جس کا کوئی بھی منطقی جواز نہیں تھا۔ کیونکہ 1940ءکی قرارداد پاکستان کے بارے مین نہیں بلکہ متحدہ ہندستان کے لیے ایک کنفیڈرل قسم کا خاکہ تھا۔ جس کو دنیا میں زونل وفاقیت بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال بیلجم ٬برطانیہ (UK) یا کینیڈ ا کی دی جا سکتی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ :

””آل انڈیا مسلم لیگ اس اجلاس کا یہ خیال ہے، اس ملک (ہندستان) میں تب تک کوئی آئینی منصوبہ کارآمد یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک وہ ذیل درج اُصولوں کی بنیاد پر نہیں بنایا جاتا۔ یعنی جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے منسلک اکایوں میں حسبِ ضرورت تبدیلی لائی جائے اور ان علائقوں میں اس طرح سے حدبندی کروائی جائے جیساکہ وہ (قدرتی طور پر) ہونی چاہییں اور وہ وہ علائقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں یعنی جنوب مغرب اور مشرق والے حصے، آزاد ریاستوں کے قیام کے لیے ملائے جائیں، جن میں شریک وحدتیں آزاد اور خودمختار ہونگی۔ (حوالہ)

کیا اس قرارداد کی زبان، موقف اور مطالبے سے کہیں پر بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ قرارداد پاکستان کے لیے تھی؟ اس لیے حقیقت حقیقت یہ ہے کہ یہ قرارداد پاکستان کے لیے نہیں بلکہ متحدہ ہندستان کے لیے کنفیڈرل یا زونل وفاقیت کا خاکہ تھا۔ جس کو بعد میں غیررسمی طور پر پاکستان کی قرارداد کا نام دیا گیا۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

جامی چانڈیو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

جامی چانڈیو

جامی چانڈیو پاکستان کے نامور ترقی پسند ادیب اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مہمان استاد کے طور پر ملک کے مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے۔ Jami8195@gmail.com chandiojami@twitter.com

jami-chandio has 8 posts and counting.See all posts by jami-chandio