تری نازکی سے جانا۔۔۔


کورے کاغذ پر اردو حروف لکھتے ربع صدی گزر چکی۔ خواہی اس کو خامہ فرسائی کہو، خواہی اسے اشک افشانی گردانو۔ ہنر کوئی بھی ہو، نومشقی کی منزل سے گزرنے کے بعد اعتماد بڑھتا ہے۔ اور کچھ خوش قسمت ایسے بھی نکل آتے ہیں جنہیں اسلوب کی پختگی نصیب ہوتی ہے۔ درویش بے نشاں کے لئے لکھنے کا تجربہ یہ رہا کہ نوآموزی کے دن بہت پہلے گزر چکے لیکن جب جب قلم اٹھایا ایک ناشدنی خیال ہمیشہ ستاتا رہا کہ لکھنے کا جو موقع نصیب ہوا ہے، شاید آئندہ کل تک مور کے انڈے برابر یہ جگہ بھی جاتی رہے۔

اس ملک کی تاریخ سنگلاخ پہاڑ کی ڈھلوان پر تحریر کی گئی ہے۔ نظیر، آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجیے، پھر التفات کا عالم رہے، رہے نہ رہے… آمریت کے ادوار بھی دیکھے۔ لکھنے والا موہوم اشارے میں بات کہتا تھا۔ ایک آنکھ ہنستی تھی کہ بالآخر بات کہہ دی، اور دوسری آنکھ روتی تھی کہ جو کہا ہے، اگر کسی کو سمجھ آ گیا تو بہت خرابی ہو گی۔ ایسا بھی ہوا کہ آمریت کی رات ختم ہو گئی مگر دن کو سوا بے حال ہوئے۔ کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے، ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں… آمریت میں کم از کم یہ تو معلوم ہوتا تھا کہ کس سے خوف کھانا ہے اور کس سے بچ کے نکلنا ہے۔ جمہوریت میں یہ آگہی بھی جاتی رہی۔ تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں… دوسرا مصرعہ لکھا نہیں جا سکتا، مرحوم سلیم احمد کی کلیات میں کہیں دیکھ لیجیے گا۔ اب یہی دیکھئے کہ اعتماد کا دھاگا اس قدر کچا ہو گیا کہ مستند شاعر کا ساٹھ برس پہلے کہا گیا شعر دہرانے کی آزادی سے بھی گئے۔ نامعلوم کسے گراں گزرے؟ یوں بھی شاعروں کے بارے میں متفقہ رائے تو یہی ہے کہ واہی تباہی بکا کرتے ہیں۔ چلیے شاعر اور شعر دونوں کی جان چھوڑتے ہیں اور ایک ماہر قانون کو یاد کرتے ہیں۔

اعجاز بٹالوی نامور بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ عاشق حسین بٹالوی اور آغا بابر کا برادر خورد ہوتے ہوئے نام پیدا کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر یہ کہ اعجاز بٹالوی نے کم عمری میں حلقہ ارباب ذوق سے فیض پایا، آزاد کشمیر ریڈیو پہ چند برس گزارے تو سرکاری جھوٹ کو اعتماد سے بیان کرنا بھی سیکھ لیا۔ تاریخ کا اپنا ایک جبر ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب والے مقدمے میں اعجاز بٹالوی سے اندازے کی غلطی ہو گئی۔ عمر عزیز کے باقی تین عشرے غالب کے اس شعر کی تصویر بن کر رہ گئے جس میں عمر جاوداں کے تعاقب میں نکلنے والے حضرت خضر کے چوروں کی طرح چھپ کر جینے کا ذکر آتا ہے۔

اعجاز بٹالوی اچھے دنوں میں امریکہ گئے تو ایذرا پاؤنڈ سے ملنے جا پہنچے۔ بیسویں صدی کا یہ عظیم انگریزی شاعر سرکاری عتاب کا شکار تھا اور برسوں سے پاگل خانے میں قید تھا مگر یہ کہ ملاقات وغیرہ کی پابندی نہیں تھی۔ اعجاز بٹالوی نے اس ملاقات کا احوال لکھا تو اس میں ایک نوجوان کا ذکر بھی آیا جسے ایذرا پاؤنڈ بار بار ’انگریزی فکشن کی آخری امید‘ قرار دے رہے تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ اعجاز بٹالوی سمیت کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون گمنام شخص تھا جس سے ایذرا پاؤنڈ جیسا جوہر شناس ایسی اونچی توقعات باندھ رہا تھا۔ تھی وطن میں منتظر جس کی کوئی چشم حسیں، وہ مسافر جانے کس صحرا میں جل کے مر گیا…

دیکھئے یہ جو ’آخری امید‘قرار دینے کا لپکا ہے۔ یہ جو یکتائی کا دعویٰ ہے، یہ روگ فرد میں ہو یا قوم میں، اس کا انجام کہیں اچھا نہیں دیکھا گیا۔ ایذرا پاؤنڈ کو چھوڑئیے، خود اپنے یہاں دیکھئے۔ کیسا کیسا مسیحا صفت اس زمین پر اترا اور اس ملک کے شہری ہجوم کی صورت تاشے بجاتے جلوس شاہی کے ساتھ ہو لئے۔ ہری پور کے موضع ریحانہ سے نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والا مسیحا نمودار ہوا تو پیر علی محمد راشدی نے خط لکھ کے درخواست کی کہ حضور بادشاہت کے لیے آپ سے زیادہ موزوں کون ہو سکتا ہے ، اللہ کا نام لے کر بادشاہت کا اعلان فرما دیں۔

کچھ برس تک ہم بھٹو صاحب کے انبوہ میں بھی شادیانے بجاتے ہوئے چلے۔ بھٹو صاحب 1977ء میں بلامقابلہ منتخب ہوئے تو سرکاری اعلان میں قائد عوام کے مکمل القابات تین سطروں میں سما سکے تھے۔ پھر جنرل ضیا سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ ان کی آمد پر بھی یہ غلغلہ اٹھا کہ قوم کی آخری امید یہی چشم نرگس ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، ایک قاضی قضاۃ کو ہم نے متفقہ طور پر قوم کی آخری امید قرار دیا۔ اگرچہ وہ صاحب ذوق بلٹ پروف گاڑی پر قناعت کرنے والا نکلا۔ ہم نے ایک سپہ سالار کا شکریہ اس جوش و خروش سے ادا کیا کہ وہ ظالم بحیرہ عرب پار کر گیا۔ یہ سب تماشا یہاں ہوتا رہا اور اس دوران اگر کسی کم بخت نے مسیحائے دوراں کے ورود کا آئینی جواز مانگا تو جواب ملا، کیا آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں اور ملک کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھیں؟

ایک موقر معاصر میں بھائی جاوید چوہدری کالم لکھتے ہیں۔ وہاں گزشتہ روز یہی جملہ انہی لفظوں میں پڑھا تو عجب وحشت طاری ہوئی۔ یہ تو جانی پہچانی آواز ہے۔ پرویز مشرف بھی یہی کہا کرتے تھے کہ کیا ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہیں؟ ملک کے مفاد میں اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں؟ مذکورہ کالم میں ایک جملہ یہ بھی رہا، ’میں فری اینڈ فیئر الیکشن کروانا چاہتا ہوں اور یہ کہ اکراس دی بورڈ احتساب ہونا چاہئے‘۔ صاحب، فری اینڈ فیئر الیکشن اور سب کا احتساب… اونٹ کے گلے میں بندھی اس بلی سے ہم بہت اچھی طرح آشنا ہیں۔ اگرچہ یہ کبھی طے نہیں ہو سکا کہ دونوں نوازشات کی نزولی ترتیب کیا ہوگی۔ میر تقی میر نے ہمارے ہی بارے میں کہہ رکھا ہے۔ دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے، یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا ۔

دسمبر 1970 کے انتخابات ہوئے تو ایک صاحب نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ انتخابات فری تھے مگرفیئر نہیں تھے۔ صدیق سالک نے ڈھاکہ ہیڈ کوارٹر سے کسی کا چلتا ہوا جملہ نقل کر رکھا ہے کہ انتخابات فری تھے، یکسر فری۔ جنرل ضیا نے تو تختہ الٹنے کی کارروائی کو آپریشن فیئر پلے کا نام دیا تھا۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ انتخابات فری اینڈ فیئر ہوں گے لیکن مثبت نتائج کی ضمانت ضروری ہے۔

اگست 1988ء تک انہیں مثبت نتائج کی ضمانت نہیں مل سکی۔

فری اینڈ فیئر انتخابات کی لگن غلام اسحاق خان کے دل میں بھی مچلتی تھی۔ 1990 میں اپنے ہی زیر انتظام انتخابات کے بارے میں فرمایا، “نہلا دیا ہے، کفنا دیا ہے اور دفن کر دیا ہے”۔ مشکل مگر یہ پیش آئی کہ یہ مردہ اپریل 1993ء میں پھر زندہ ہو گیا۔ اب اس آفت جاں کا نام نواز شریف تھا۔ نام بدلتے رہتے ہیں۔ حسین شہید سہروردی کہو یا مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو کہو یا بے نظیر بھٹو، محمد خان جونیجو کہو یا نواز شریف، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک طرف نااہلی، بدعنوانی اور وطن دشمنی کی فردجرم ہے تو دوسری طرف حسد، حقارت اور ذاتی عزائم کی ترشول ہے۔

کسی کی ذات کی طرف اشارہ نہیں محض طالب علمانہ سوال ہے کہ جب فرد اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتا ہے اور اس کا متعلقہ ادارہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جو تاریخ مرتب ہو گی، وہ صرف فرد کے کھاتے میں لکھی جائے گی یا اس کی ذمہ داری ادارے پر بھی آئے گی؟ ہم ریاست کے وفادار شہری ہیں۔ اپنے ہی اداروں سے عناد پالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے مگر جب کوئی ایسی ہستی ’فری اینڈ فیئر الیکشن‘ کرانے کا عزم ظاہر کرتی ہے، جسے آئین نے یہ ذمہ داری ہی نہیں سونپی تو میر تقی میر یاد آ جاتے ہیں؛

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر یہ آزار گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments