کیا پنجاب میں موٹرسائیکل سواری ایک جرم ہے ؟


\"zeeshanمیری عمر اس وقت 29 سال ہے۔ آپ پہلے پندرہ سال نکال لیں کہ شاید اس دوران حافظہ کمزور ہو گا- سولہ سال کی عمر سے اب تک مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری گاڑی (کار) کو پولیس والوں نے روکا ہو جو ناکہ لگائے امن و امان کا ذمہ لئے ہر آتی جاتی سواری پر نظر رکھے ہوتے ہیں ، سوائے ان چیک پوسٹس کے جو عرصہ پہلے دہشت گرد کارروائیوں کے آغاز پر شہر میں داخل و خارج کے راستوں پر لگائی گئیں اور جہاں ہر گزرتی گاڑی چیک ہوتی ہے۔ اسی طرح اس عرصہ کے دوران جب بھی موٹرسائیکل پر سفر کیا، ان گنت بار مجھے پولیس ناکہ پر روکا گیا – کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد اگر کوئی نقص نکل آیا تو کبھی منت ترلہ کام آیا ، یا کبھی کسی دوست کزن کی سفارش کروائی یا پھر کبھی چالان منہ بسورے وصول کرنا پڑا – جب میں ملتان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا، اور گھر جانے کی جلدی میں کسی ناکہ پر روک لیا جاتا تو منت کے ساتھ ساتھ یہ بھی التجا ہوتی تھی کہ بھائی جانے دو استاد ہوں، جلدی میں ہوں- اور جب محافظ امن و امان مجھے گھور کر دیکھتے تو دل سے دعا نکلتی، یا خدا میں انہیں استاد ہی لگوں –

گزشتہ چار سال سے جب بھی ملتان یا کسی اور شہر میں جانا ہوا، گاڑی ہی استعمال کی ہے۔ جب ہر ناکہ پر یہ خاموش اشارہ ملتا ہے کہ رکنے کی ضرورت نہیں جائیں تو وہاں روکی گئی سواریوں پر جب بھی نظر پڑی، صرف موٹرسائیکل سوار ہی نظر آئے- ہم سب جانتے ہیں کہ موٹرسائیکل کی سواری اب ہماری لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی سواری ہے، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جن دہشت گردوں سے قوم کو دن رات خطرہ رہا ہے وہ موٹرسائیکل نہیں بلکہ بہترین گاڑیاں استعمال کرتے ہیں –

مجھے آج تک اس سوال کی سمجھ نہیں آئی کہ میں جب گاڑی میں سفر کر رہا ہوتا ہوں تو پولیس کو غیر مشکوک نظر آتا ہوں اور جب میں موٹرسائیکل پر ہوتا ہوں تو کاہے کو ایسا مشکوک لگتا ہوں کہ پولیس کو نہ صرف مجھے روکنا پڑتا ہے، بلکہ کاغذات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور اگر ان میں کوئی نقص برآمد ہو جائے تو اس سے خلاصی مشکل ہو جاتی ہے؟

سوائے اس کے مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آتی کہ موٹر سائیکل سواری چونکہ عام شہریوں کی سواری ہے یوں ان عام لوگوں کو قانون اور امن و امان کے نام پر ہراساں کرنا بھی آسان ہے اور رشوت بٹورنا بھی مزید آسان ہے۔ جبکہ ایک اچھی گاڑی میں بیٹھا شخص جس کے بارے میں پولیس کو نہیں معلوم کہ یہ کسی سرکاری ادارے کا بڑا افسر ہے یا کوئی کاروباری سیٹھ ہے، جاگیردار ہے یا پھر کوئی ایسا جرائم پیشہ جو گاڑی میں بیٹھ کر طبقہ امراء کے ظاہری سٹیٹس کا فائدہ اٹھا رہا ہے، یوں ایسے لوگوں کو روکنا ایک حریص پولیس افسر کی نوکری اور ترقی دونوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اس کا یہی مطلب ہے تو کیا یہ کہنا جائز نہیں کہ اس ملک کا انتظامی بندوبست براہ راست عام آدمی سے دشمنی کر رہا ہے؟

میری اس تحریر کے ذریعے پنجاب کی ٹریفک انتظامیہ اور ان کے سیاسی منتظمین سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی جمہور کے خدمت گزار بنیں اور شہریت میں تقسیم گاڑی اور موٹرسائیکل کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے۔ عام شہریوں کا موٹرسائیکل استعمال کرنا ان کا جرم نہیں  اور مجرموں کی پہچان ان کی گاڑی نہیں –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments