روٹی سے آگے۔۔۔


\"usmanنظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم \”روٹی نامہ\” کا بند ہے:

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہروماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے

وہ سن کے بولا بابا، خدا تم کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

محترمہ اقدس طلحہ سندیلہ نے بھی اس بند میں مذکور کامل فقیر کے رنگ میں معاشرے کی بڑی تعداد کو درپیش \”روٹیوں\” کی کمیابی کا ذکر کیا ہے اور بہت خوب کیا ہے.. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ…. اسی بند میں مذکور تمثیل کو محترمہ کے بیان کردہ منظر پر منطبق کیا جاے تو بے شک بھوک سے بلکتے ہوۓ شخص کی چشم تصور روٹی سے آگے نہیں دیکھ پاتی مگر کیا یہ انصاف ہو گا کہ پورے کے پورے سماج کی فکر کو روٹی تک محدود کر دیا جائے؟

خیر تمثیل سے آگے چلتے ہیں اور محترمہ کی تنقید کا نشانہ بننے والے چند مسائل پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں. بتایا گیا ہے کہ نجی شعبے کی ایک جامعہ کی طالبات نے خواتین کے حیض سے متعلق معاشرتی تنگ نظری کو چیلنج کرنےکی غرض سے سینیٹری نیپکن پر کچھ پیغامات لکھ کر یونیورسٹی کی دیواروں پر چسپاں کیے۔ اس طرز اظہار کے حسن و قبح پر مختلف آرا ہو سکتی ہیں، مگر خادم کے خیال میں معاشرے میں پائے جانے والے صنفی امتیاز کو براہ راست چنوتی دے کر ان طالبات نے بہت اہم اور ہمت کا کام کیا ہے. صنفی امتیاز عورت اور مرد کے معاشرتی مقام میں ان کے جنسی اعضا کی بنیاد پر تفریق کرنے ہی کا تو نام ہے. یادش بخیر، بیس سال قبل ہماری محترم استاد فریدہ شیر صاحبہ نے ہماری جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے کو دس ایسے کاموں کی فہرست بنانے کو کہا جو بالترتیب مردوں اور عورتوں کے ہیں. جب فہرستیں بنا کر دیوار پر چسپاں کی جا چکیں، تو انہوں نے دونوں کے عنوانات آپس میں بدل دیۓ. اندازہ ہوا کہ نوے فی صد کام ایسے تھے جو محض معاشرے نے عورتوں اور مردوں کی شناخت بنا کر ان پر تھوپ رکھے ہیں. جو فرق مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں ہے، وہ دونوں کو نسل انسانی کی بقا جیسے اہم کام کے لئے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بناتا ہے. اگر مرد کی شباہت میں بلوغت کے ساتھ آنے والی تبدیلیاں اس کے لئے باعث شرم نہیں، تو خواتین کو ان پر کیوں شرمانا چاہئے؟

اسس طرح، لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا، ڈھابے پر بے خوف و خطر چائے پینا وغیرہ، بظاہر محدود طبقے کی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ہیں، مگر ان کی علامتی حیثیت سے انکار مشکل ہوگا. یہ واضح کرتی ہیں کہ ہماری خواتین بے جا پابندیوں کو ٹھوکر لگانے کی ہمت پیدا کر چکی ہیں. اگر برا نہ مانیں، تو خادم محترمہ اقدس طلحہ سندیلہ کو یاد دلانا چاہے گا کہ ان کا اپنے اصلی نام سے، اپنی اصل تصویر سے اس پر مغز مضمون کو چھپوا پانا اس درخشاں روایت کی بدولت ہی ممکن ہو پایا جس کا آغاز \”مغرب زدہ\”، \”بے حیا\” اور \”باغی\” کے طعنے سہنے والی عصمت چغتائی، قرہ العین حیدر، رشید جہاں، رقیہ خانم وغیرہ نے کیا تھا ورنہ اس سے قبل تو اگر شاذ و نادر کسی خاتون کی تحریر چھپ بھی جاتی تو بے چاری کو \”بنت اکرم\”، \”زوجہ مولوی سجاد حسین\”، \”وغیرہ کی اوٹ میں چھپنا پڑتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments