صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ،’چین اپنے مفادات کا بھرپور دفاع کرنے کے لیے تیار‘


چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق چین نے امریکہ کو خبرادار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے تجارتی مفادات کا دفاع کرے گا۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی درآمدات پر محصول لگانے کے کے منصوبے کی حمایت کی تھی۔

چینی صدر کے مالیاتی امور کے مشیر لیو ہی نے یہ بات امریکی وزیر خزانہ سٹیو منچن کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کہی۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شن ہوا کے مطابق لیو ہی جو کہ چینی صدر شی جن پنگ کے اعلیٰ مالیاتی مشیر ہیں نے امریکی وزیر خزانہ سٹیو منچن سے کہا کہ ’بیجنگ اپنے قومی مفادات کا بھرپور دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

ساتھ میں انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’فریقین سمجھداری کا مظاہرہ کریں گے اور مل کر کام کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

٭

٭

تجارتی جنگ کیا ہے؟

دنیا کی دو مضبوط ترین معیشت کے درمیان ‘ٹریڈ وار’ یعنی تجارتی جنگ کی خبروں کے نتیجے میں سٹاک بازار میں گراؤٹ نظر آ رہی ہے اور معاشی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکہ نے چین کے درآمدات پر محصول لگانے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ چین نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

چین نے کہا ہے کہ وہ نتیجے کی پروا کیے بغیر کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہے لیکن تجارتی جنگ یا تحفظ پسندی کیا ہے اور یہ آپ کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟

تجارتی جنگ میں ایک ملک دوسرے ملک کی تجارت پر محصول اور کوٹے کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔

ایک ملک درآمداتی محصول پر اضافہ کرتا ہے تاکہ دوسرا اس کے جواب میں ایسا کرے۔ اس کے سبب دوسرے ممالک کی معیشت اثرانداز ہوتی ہے اور یہ سیاسی کشیدگی کا باعث بنتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ تجارتی جنگ آسان اور ‘بہتر’ ہے اور انھیں محصول میں اضافہ کرنے میں جھجھک نہیں۔

لیکن ٹیرف یا محصول کیا ہے؟

سٹیل

یہ بیرون ممالک بنائی جانے والی اشیا پر لگایا جانے والا ٹیکس ہے۔

اصولی طور پر، غیر ملکی سامان پر ٹیکس بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سامان مہنگے ہو جائیں گے اور لوگ انھیں کم خریدیں گے۔

اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی جگہ سستے ملکی متبادل خریدیں گے اور ملکی معیشت میں اضافہ ہو گا۔

ٹرمپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

امریکی صدر 60 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر محصول لگانا چاہتے ہیں اور یہ جزوی طور پر چین کی جانب سے مبینہ ‘دانشورانہ ملکیت کی چوری’ کے جواب میں ہے۔ یعنی چین پر ڈیزائن اور مصنوعات کے خیال کی چوری کا الزام لگتا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس نے 1000 سے زائد مصنوعات کی فہرست تیار کی ہے جس پر 25 فیصد محصول لگایا جا سکتا ہے۔

تاہم ان کو نافذ کرنے سے پہلے کمپنیوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جائے گا۔

ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ صدر بننے سے پہلے بھی ٹرمپ چین پر غیر منصفانہ کاروباری پالیسی اپنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

ٹرمپ اپنی انتخاباتی مہم کے دوران اس امر کو اٹھاتے رہے کہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کیا جانا چاہیے۔

کاروباری خسارہ کیا ہے؟

دونوں ممالک کے درمیان درآمد اور برآمد کے درمیان کے فرق کو تجارتی خسارہ کہا جاتا ہے۔

اور چین سے امریکہ جتنے سامان درآمد کرتا ہے اتنے وہ اسے نہیں دیتا یعنی امریکہ کو شدید تجارتی خسارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بڑی مقدار میں امریکہ کو اپنے سامان فروخت کرتا ہے لیکن وہ امریکہ سے نسبتاً کم مقدار میں سامان خریدتا ہے۔

گذشتہ سال یہ فرق 375 ارب ڈالر تھا اور ٹرمپ اس سے خوش نہیں ہیں۔

وہ اس تجارتی خسارے کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ محصول لگانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

٭

٭

خواہ صدر تجارتی خسارے کو پسند نہ کریں لیکن یہ بری چیز نہیں ہے۔

بہت سے امیر ممالک نے حالیہ برسوں کے دوران خود کو پیدا کرنے والے ممالک سے خدمات فراہم کرنے والے ممالک والی معیشت میں تبدیل کیا ہے۔

سنہ 2017 میں، امریکہ نے بینکنگ، سفر اور سیاحت کے شعبے میں 242 ارب ڈالر مالیت کی خدمات برآمد کی۔

امریکی معیشت میں سروس سیکٹر کا حصہ 90 فیصد ہے جبکہ چین جتنی مصنوعات بناتا ہے اس کی مناسبت سے خدمات فراہم نہیں کرتا۔

اس طرح ٹرمپ کے تجارتی خسارے لوگوں میں بہت مقبول نہیں اور ناقدین اسے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ملکی مصنوعات کے تحفظ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

تحفظ پسندی کیا ہے؟

مصنوعات

جب حکومت اپنے ملک کی صنعتوں کے فروغ کے لیے اسے غیر ملکی مقابلے سے بچاتی ہے اسے ‘پروٹیکشنزم’ یا تحفظ پسندی کہتے ہیں۔

مثال کے طور پر ٹرمپ کی جانب سے سٹیل اور ایلومینیم پر لگایا جانے والا محصول۔

مارچ کے آغاز میں چین کے خلاف اپنے حالیہ اقدام سے پہلے صدر ٹرمپ نے تمام سٹیل درآمدات پر 25 فیصد اور ایلومینیم پر دس فیصد محصول کا اعلان کیا تھا۔

ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکہ دھاتوں کے لیے دیگر ممالک پر بہت زیادہ منحصر ہے اور اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ اپنی ملکی صنعت سے وافر ہتھیار اور گاڑیاں نہیں بنا سکیں گے۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ زیادہ تر سٹیل کینیڈا اور اپنے بڑے حامی یورپی یونین سے درآمد کرتا ہے۔

اصولی طور پر، غیر ملکی سٹیل اور ایلومینیم پر محصول لگانے سے امریکی کمپنیاں مقامی کمپنیوں سے سٹیل خریدیں گی۔

خیال یہ ہے کہ اس سے امریکہ کی سٹیل اور ایلومینیم کی صنعت فروغ حاصل ہوگا۔

لیکن کیا یہ واقعی کام کرے گا؟

درآمد برآمد

کچھ حد تک یہ ممکن ہے کہ امریکی سٹیل کمپنیوں کو اس سے فائدہ پہنچے اور مانگ سے قیمتوں میں اضافہ ہو گا ملازمتیں بڑھیں گی اور زیادہ فائدہ ہوگا۔

لیکن کار اور ہوائی جہاز بنانے والی امریکی کمپنیوں کے لیے خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس طرح ان کا خرچ بڑھے گا۔ اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافے پر مجبور ہوں گے۔ اس سے صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس طرح امریکہ میں، کاروں، برقی آلات، ہوائی جہاز کے ٹکٹوں اور کین کی وجہ سے بیئر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

آپ اس سے کیسے متاثر ہوں گے؟

امریکہ کا یہ قدم پوری دنیا پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور بطور خاص چین کی جوابی کارروائی کی دھمکی کی صورت میں۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین سویا بین، خنزیر، کپاس سے لے کر ہوائی جہاز، کار اور سٹیل کے پائپ جیسے امریکہ کی زراعتی اور صنعتی مصنوعات پر محصول لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

نظریاتی طور پر چین ایپل جیسی امریکی کمپنیوں پر بھی ٹیکس لگا سکتی ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایپل اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کر سکتا ہے۔

اس وقت یورپی یونین، ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، میکسیکو اور جنوبی کوریا کے سٹیل پر محصول نہیں ہیں اور اگر عالمی تجارتی جنگ چھڑتی ہے تو دنیا بھر کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کریں گی۔

تو کیا آزاد تجارت بہتر ہے؟

تجارت

اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس سے یہ سوال کر رہے ہیں۔

آزاد تجارت تحفظ پرستی کے مخالف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعات پر کم سے کم ٹیکس پر لگایا جائے تاکہ لوگوں کو کم قیمت پر دنیا میں کہیں بھی بہتر مصنوعات خریدنے کا موقع ملے۔

یہ ان کمپنیوں کے لیے بہتر ہے جو اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور اس سے عالمی معیشت کو فائدہ ہوگا۔

مفت تجارت کے طفیل کار، سمارٹ فونز، اشیائے خوردنی اور پھول دنیا بھر سے آپ کے گھروں تک پہنچے ہیں۔

لیکن اسی کے ساتھ ایسی صورت میں کمپنیاں دیسی مصنوعات کم خریدتی ہیں۔اگر غیر ملکی بہتر سامان کم قیمت پر دستیاب ہوں تو پھر مقامی مصنوعات کیوں خریدیں؟

تجارتی جنگ کیسے ختم ہو گی؟

سٹیل

اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ مؤرخوں کے مطابق ٹیکس میں اضافے کا مطلب صارفین کے لیے سامان کی قیمت میں اضافہ ہے جبکہ ہر طرح کے معاشی ماہرین اس کے خلاف ہیں۔

رپبلکن پارٹی کے زیادہ تر ارکان بھی اس مسئلے پر ٹرمپ کے خلاف ہیں اور وہ آزاد تجارت کے زبردست حامی ہیں۔

چین کے خلاف ٹرمپ کی کارروائی دونوں ممالک سمیت دنیا کے صارفین کو نقصان پہنچائے گی۔

دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ کسی کے لیے بھی سود مند نظر نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp