!پرائیویٹ سکول کے ہر بچے کو ٹرافی ، یہ کیا مذاق ہے


 مارچ کا مہینہ آتا ہے تو لوگ سوشل میڈیا پر اپنے بچوں کی فوٹو شئر کرنے لگ جاتے ہیں۔ بچوں نے ہاتھوں میں کپ اٹھا رکھے ہوتے ہیں۔ یہ کپ اور ٹرافیاں انہوں نے اپنی کلاس میں پوزیشن لینے پر حاصل کیے ہوتے ہیں۔اس سال بھی میری فرینڈ لسٹ میں موجود میرے احباب اپنے بچوں کی فوٹو شئر کر رہے ہیں۔ یہ دوست خوش ہیں کہ ان کے بچوں نے انعام لیے ہیں۔

ان تصاویر نے اس سال مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ پہلا سوال تو میرے ذہن میں یہ آرہا ہے کہ کیا سارے بچے ہی اتنے قابل ہیں۔  جو سب ہی ٹرافی لے لیتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمارا ایجوکیشن سسٹم بہت بہترین جار ہا ہے۔ اگر یہ صرف بچوں کو خوش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تو یہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایسا ہے تو پھر یہ تعلیم کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔

 اپنے کاروبار کی خاطر بچوں کو ٹرافیاں دی جارہی ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ کمال کر رہا ہے۔ پتہ تب چلتا ہے جب بورڈ کے امتحان ہوتے ہیں۔ تب یہ ہر کلاس میں ٹرافی لینے والے بچے کم نمبروں سے پاس ہوتے ہیں کچھ فیل ہی ہو جاتے ہیں۔میری اپنی چھوٹی بیٹی کا بھی اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔  اُس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے۔ وہ سمجھتی ہے  کہ  تھوڑا سا پڑھنا ہے ، پھر ٹرافی ملے گی ، لوگ تعریف کریں گے۔ اس کے علاوہ انعام بھی دیں گے۔ اسے بار بار سمجھاتا ہوں کہ ٹرافی کے لیے مت پڑھو۔ سیکھنے کے لیے پڑھو ، لیکن ابھی چھوٹی ہے نہیں سمجھ رہی۔

بچے کو اچھے برے کی تمیز کیسے آئے گی۔ اگر سب کو ہی انعام ملے گا تو اسے کیسے پتہ لگے گا کہ جیت ہار کا کیا فرق ہے۔ کامیابی ناکامی کسے کہتے ہیں۔ مقابلہ کیا ہوتا ہے۔ سپورٹس مین سپرٹ کیا ہوتی ہے۔ محنت کسے کہتے ہیں۔ محنت کے بعد کامیابی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ بچوں کے تو ننھے منے سے دل اور دماغ ہوتے ہیں انہیں اک دم سے بہت کچھ نہیں سمجھایا جا سکتا۔

ہمارے ہاں تو اکثر والدین  اپنے بچوں کو طعنے دیتے ہیں۔ دیکھو  فلاں کے بچے نے ٹرافی لی ہے۔ تم نے کلاس میں کم نمبر لیے ہیں۔ ہمیں شائد بچوں کو ٹریٹ کرنا ہی نہیں آتا۔ ہم اپنے بچوں پر اپنی باتوں سے بھی برا اثر ڈال رہے ہیں۔ سکول والوں کی سب کو خوش رکھنے کی پالیسی نے گدھے گھوڑے سب ایک کر کے رکھ دیے ہیں۔  ان سکولوں میں بچوں کے نمبر بھی نوے فیصد سے زیادہ آتے ہیں ، وہ بھی بہت آرام سے۔

بچے جب اتنے نمبر لیتے ہیں تو ان کے والدین خوشی سے بے حال ہو جاتے ہیں۔ یہ خوشی ایسی ہی ہے جیسے ہم کسی مشہور برانڈ کی پیکنگ میں لنڈے کا مال ڈال کر خرید لائیں۔نظاہر پرائیویٹ اداروں سے پڑھنے والے بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں سے ہوشیار سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت میں اتنا فرق ہے نہیں جتنا سمجھا اور بتایا جاتا ہے۔

پرائیویٹ سکولز میں عام طور پر سلیبس جلدی ختم کرا دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ امتحان کی تیاری شروع کرا دیتے ہیں۔ بچوں کو پندرہ بیس سوالات رٹا دیے جاتے ہیں۔ انہیں میں سے پیپر بنتا ہے۔ اس طرح ایک اچھے نتیجے کا انتظام بڑے طریقے سے کیا جاتا ہے۔ نہ تو بچے کی اصل تعلیمی حالت کا پتہ والدین کو لگتا ہے نہ بچے کو خود سمجھ آتی ہے۔

پرائیویٹ سکول بورڈ کے امتحانات میں بھی اپنے سکول کا نتیجہ اچھا دکھانے کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔

گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ زیادہ تر نوکری کرتے ہیں۔ وہ تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کے رزلٹ سے اتنا سروکار نہیں رکھتے۔ سرکاری سکول میں امتحانی پرچہ ساری کتاب سے تیار کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سکول میں جو سوالات دسمبر ٹیسٹ میں آتے ہیں۔ سالانہ ٹیسٹوں میں زیادہ تر وہی دہرائے جاتے ہیں۔ پندرہ بیس سوال ہوتے ہیں جو دہرائے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں جگہ پڑھنے والے طلبا کی اوسط نمبروں میں واضح فرق آ جاتا ہے۔

گورنمنٹ سکولز کے طلبہ ساری کتاب یاد کر کے مشکل سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ اداروں کہ طلبہ دس پندرہ مخصوص سواات یاد کر کے اسی سے نوے اور بعض اوقات سو فیصد نمبر لے لیتے ہیں۔ جس سے نہ صرف والدین بلکہ رشتہ دار بھی بچے کی ذہانت سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر یہاں پر غور کیا جائے تو دس پندرہ سوالات یاد کرنے والے بچہ اسی سے نوے فیصد نمبر لے کر ہرگز پوری کتاب میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر لینے والے بچے سے زیادہ ذہین نہیں ہو سکتا۔

پرائیویٹ ادارے جو کچھ کرتے ہیں یہ تعلیم کے ساتھ ایک واردات جیسا ہے۔ والدین کو پرائیویٹ سکولوں کے اس طریقہ واردات کو ضرور سمجھنا چاہیے۔ یہ طریقہ واردات میرے نزدیک تقریباً اسی سے نوے فیصد سکولوں میں رائج ہے۔ میری اس بات کی تصدیق آپ بہت آرام سے کر سکتے ہیں۔ اپنے بچوں سے ان کے سکول میں ہونے والے امتحانات کے بارے میں سوالات پوچھیں۔ آپ جان جائیں گے کہ کیا ہو رہا ہے۔

آپ یہ زحمت کر ہی لیں۔ اٹھ کر ذرا سکول تک ہو آئیں۔ وہاں جا کر پتہ کریں کہ ٹرافی صرف آپ کے بچے کو ملی ہے یا بہت سارے بچوں کو۔ معلومات کی تصدیق ہو جائے تو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے بچوں کو کتاب دوست بنائیں۔ انہیں سکھائیں کہ وہ علم حاصل کریں اور ٹرافیوں کو بھول جائیں۔ زندگی کے اصل امتحان میں پورا اترنے کے لیے تعلیم حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).