بڑے آغا جان کی یاد میں


یہ خادم فرائض منصبی کے سلسلے میں اردن سے بیروت لوٹ رہا تھا اور پرواز کے انتظار میں سوشل میڈیا کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک روح فرسا خبر نظر آئی کہ “بڑے آغا جان” انتقال کر گئے ہیں۔ یہ خادم وطن عزیز بلوچستان کے بچوں کی اکثریت کے مقابلے میں خوش قسمت واقع ہوا ہے کہ ایسے گھر میں جنم لیا جہاں ماں اور باپ دونوں پڑھے لکھے تھے۔ اس پر مزید خوش نصیبی کہ والدہ محترمہ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ سو یاد نہیں پڑتا کہ کب سکول جانا شروع کیا۔ آنکھ کُھلی تو خود کو سکول میں ہی پایا۔ چوتھی جماعت تک یہ غیر رسمی سا سلسلہ جاری رہا تو والد صاحب کو فکر ہوئی کہ اب کسی باقاعدہ ادارے میں داخلہ ضروری ہے۔ سرکاری سکولوں کی اگرچہ وہ ناگفتہ حالت تب تک نہ تھی جو آج ہر طرف نظر آتی ہے مگر حال بہرحال پتلا ہی تھا۔ اس پر یہ مستزاد کہ قاضیوں مولویوں کی خاندانی روایت یعنی دینی تعلیم کو بھی ساتھ ساتھ چلانا تھا۔ متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے ایسے اداروں کا انتخاب محدود تھا چنانچہ قرعہ فال “تعمیر نو پبلک سکول” کے نام پڑا۔ اس سکول کا اپنا مزاج تھا۔ یہاں استاد کو “سر/ ماسٹر صاحب” وغیرہ کے بجاے “آغا جان” کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ عمومی کلیہ یہ تھا کہ”آغا جان” کا انتخاب کرتے وقت استاد کی لیاقت کے علاوہ اس کے کردار کو خصوصی طور پر مدِ نظر رکھا جاتا تھا۔ طلباء کے اخلاق سنوارنا سکول کا بنیادی مطمح نظر تھا۔ اس سارے نظام کی چکّی جس کیل کے گرد گھومتی تھی، وہ سکول کے پرنسپل محترم فضل حق میر کی ذات گرامی تھی جو “بڑے آغا جان” کے نام سے ملقّب تھے۔

یہ ادارہ ساٹھ کی دہائی میں کچھ ایسے دردمندوں نے قائم کیا تھا جو سیّد مودودی کی فکر سے متاثر تھے۔ سنا جاتا ہے کہ ابتدا بلوچی سٹریٹ کے ایک تباہ حال ٹین کی چھت اور دیواروں والے مکان سے ہوئی۔ اساتذہ گھر گھر جا کر بچوں کے والدین سے انہیں تعلیم دلانے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے۔ فیس معمولی تھی اور اکثر معاف کر دی جاتی۔ استاد محترم فتح محمد آغا جان تدریس کے علاوہ سکول کو کہیں سے ہاتھ آنے والی ایک خستہ حال وین بھی چلاتے جس میں اطراف کے بچوں کو لایا لے جایا جاتا۔ پھر شاوکشا روڈ کے ایک پُرانے کراے کے مکان میں اُٹھ آے جب تک حکومت نے آرچر روڈ پر واقع متروکہ املاک میں شامل ایک قطعہ ارض سکول کو بخش دیا۔ پھر رفتہ رفتہ چندوں اور سرکاری امداد سے عمارت کی باضابطہ شکل نکل آئی۔ محترم بڑے آغا جان غالبا اسی دور میں ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی تعلیم سے فارغ ہوے اور سکول کے پرنسپل بناے گئے۔ بڑے آغا جان نوجوان تھے اور اکثر اساتذہ ان کی نسبت معمّر اور زیادہ تجربہ کار تھے مگر میر صاحب کے حسنِ معاملت، قائدانہ صلاحیّت، انگریزی اور اردو تقریر و تحریر پر شاندار قدرت اور سب سے بڑھ کر تعلیمی و تربیتی مقاصد سے مخلصانہ وابستگی کا جواب نہ تھا۔ جب یہ خادم پانچویں جماعت میں سکول پہنچا تو کئی برس سے دسویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں امتیازی حیثیت گویا تعمیرِ نو پبلک سکول کے لیے وقف ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں مثلا تقریری مقابلوں، معلوماتِ عامّہ اور مضمون نویسی میں قومی سطح پر اعزازات اکثر اسی سکول کے طلباء کے حصے میں آتے تھے جس میں محترم بڑے آغا جان کی ذاتی دلچسپی اور رہنمائی کا بنیادی عمل دخل تھا۔

یہ خادم منتشر الخیالی، آوارہ خوانی اور طبعی کاہلی کے سبب رسمی تعلیمی میدان میں بڑے آغا جان کی توقعات پر پورا نہ اترا مگر ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے سبب کوئز کے میدان میں کچھ نمایاں رہا۔ اسی سبب بڑے آغا جان اس خادم کو عزیز جانتے تھے۔ ایک روز جبکہ خادم نویں جماعت کا متعلّم تھا، کسی شرارت کی پاداش میں کسی آغا جان نے یارانِ دیرینہ غفار کاسی اور فیض خجک کے ساتھ بطور سزا کمرہ جماعت سے باہر کھڑا کر دیا۔ شومیِ قسمت کہ بڑے آغا جان کا وہاں سے گزر ہوا۔ ہم تینوں کو باری باری اپنے دفتر میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ باقی دونوں کے ساتھ تو نجانے کیا گزری، اس خادم کی تواضع بڑے آغا جان نے اپنے پھول جیسے نازک ہاتھوں کے طمانچوں اور نالائقی کے طعنوں سے کی۔ آغا جان دھان پان، نازک اندام آدمی تھے سو جسمانی تکلیف تو کیا ہوتی مگر یہ خادم احساسِ خجالت سے رو پڑا۔ آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ آغا جان بھی ازراہ دردمندی آبدیدہ ہیں۔ پھر یہ کہہ کر جانے کی اجازت دی کہ اگر آئندہ شرارت کی تو تمہارے والد صاحب سے شکایت کرنے گھر پر آ جاوں گا۔ آغا جان کی وجاہتِ علمی کا رعب اس قدر تھا کہ اس واقعے کے بیس ایک برس بعد، جب یہ خادم خود ادھیڑ عمری کی حدود میں داخل ہوچکا تھا ایک رات گھر کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو بڑے آغا جان ایستادہ تھے۔ پہلا خیال یہی آیا کہ نجانے کیا خطا ہوئی ہے کہ بڑے آغا جان گھر پر والد صاحب سے شکایت کرنے پہنچ گئے ہیں۔ جب یہ پتا چلا کہ وہ والد صاحب سے کسی تکنیکی مسئلے پر مشورہ کرنے آے ہیں تو جان میں جان آئی۔

بلوچستان کے ہزاروں لوگ اور ان کے لاکھوں اہلِ خانہ بڑے آغا جان کے تعلیمی و تربیتی احسانات کے مقروض ہیں۔ چاہے نامی کاروباری ہوں، اعلی سرکاری ملازمین ہوں، ڈاکٹر، انجینیئر، فوجی افسران یا اس خادم کی طرح “در کوچہ ہا رسوا” کی عملی تفسیر، سب کی شخصیات پر بڑے آغا جان کے زیرِ سایہ گزارے وقت کی کوئی نہ کوئی جھلک ضرور مرتسم ہے۔ اگرچہ ادارہ تعمیر نو کا میلان ایک مخصوص طرز کے اسلامی دائرہ فکر کی جانب تھا مگر اس سلسلے میں کسی قسم کی سختی کے بجاے ترغیب و تشویق سے کام لیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہاں کے فارغ التحصیل لوگ آگے چل کر ہر قسم کے سیاسی و سماجی رجحانات کے حامل ہوے۔ اس رنگا رنگی و اختلاف کے باوجود سوشل میڈیا کا جائزہ بتاتا ہے کہ مذہبی سیاست، اشتراکیت، لبرل ازم، قوم پرستی، جمہوریت، وغیرہ کے خانوں میں براجمان ہونے کے باوصف، بڑے آغا جان کو جاننے والے اور ان سے منسلک رہنے والے تمام لوگ ان کے احترام اور ان کے انتقال کے غم میں یکسو ہیں۔ بقول حافظ شیرازی۔۔ خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی۔۔ بجز بناے محبت کہ خالی از خلل است


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).