صائمہ ملک صاحبہ، ساتھ چلنا مشکل ہے


“نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔” دوسرا مصرعہ موضوعِ تحریر نہیں ہے لہٰذا پہلے مصرعے سے ہی بات کا آغاز کرتے ہیں۔

آدم اور حوا ہمارے جد امجد ہیں۔ جنت میں ہنسی خوشی رہتے تھے۔ سوائے شجر ممنوعہ کے ہر چیز کا لطف اٹھاتے تھے۔ روایات کے مطابق شیطان کو ان کا ہنسی خوشی رہنا ایک آنکھ نہ بھایا چناچہ شیطان نے حوا کو شجر ممنوعہ چکھنے پر اکسایا۔ حوا شیطان کے بہکاوے میں آ گئی اور آدم سے تقاضا ہائے شجر ممنوعہ کر دیا۔ حوا کے اصرار پر آدم وحوا نے شجر ممنوعہ چکھ لیا جس کی پاداش میں آدم اور حوا کو جنت سے نکال دیا گیا۔ شیطان نے قیامت تک آدم کی اولادوں کو بہکانے کا چیلنج لیا ہوا ہے اور کامیابی سے اپنا چیلنج پورا کرتا چلا جا رہا ہے۔

اس داستان سے ہمیں دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ عورت ذات بہکاوے میں جلد آ جاتی ہے۔ اور دوسری یہ کہ عورت بہک جائے تو مرد کو بہکانے میں دیر نہیں لگاتی۔ آدم کا بیٹا جنت سے آدم کو نکلوانے کا قصوروار حوا کو ہی مانتا ہے ۔ وہ حوا ہی تھی جس کی وجہ سے آدم نے شجر ممنوعہ چکھا تھا اور ایک روایت کے مطابق اس کا ستر کھل گیا تھا یعنی وہ ننگا ہو گیا تھا۔ آج بھی جب حوا کی بیٹی کسی آدم کے بیٹے کو شجر ممنوعہ چکھنے پر اکساتی ہے تو بے چارہ آدم کا بیٹا اپنے جد امجد کی طرح شجر ممنوعہ چکھ لیتا ہے پھر ننگا ہو کر شرمندہ ہوا پھرتا اور سزا کے طور پر شیطانی جوتے کھاتا رہتا ہے۔

مضمون کا آغاز اس واقعے سے میں نے اس لیے کیا کہ “ہم سب” کی مشہور و معروف مصنفہ محترمہ صائمہ ملک صاحبہ، جو اپنی ایک مخصوص شناخت رکھتی ہیں اور ایک خاص پس منظر میں مرد اور مردوں کی جنسی بے اعتدالی ان کا خاص موضوع ہے، نے “ہم سب” پر شائع ہونے والے میرے ایک مضمون “صرف مرد نہیں لڑکیاں بھی شکاری ہوتی ہیں” کے جواب میں ایک مضمون “اویس صاحب آیئے، مل کر چلیں” لکھا جو 11 مارچ 2018 کو “ہم سب” پر شائع ہوا۔ پہلے پیرا گراف میں لکھے جانے والے واقعےکا ذکر انہوں نے اپنے مضمون کے اختتام میں ان الفاظ میں کیا “ہم آدم کی اولاد ہیں۔ جنت سے تو نکالے جا ہی چکے ہیں۔ اب اگر زمین نے بھی ہمیں قبول نہ کیا تو پاتال میں اتریں گے۔ ذرا نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ تب تک ہم کوئی حل ڈھونڈتے ہیں۔ چلیں، اویس صاحب مل کر چلتے ہیں۔” تو اس سے پہلے کہ ساتھ مل کر چلنے پر غور کیا جائے، میں نے مناسب سمجھا کہ جنت سے نکالے جانے کی وجوہات پر مختصراً روشنی ڈال دوں۔

بظاہر ان کا مضمون میرے مضمون پر دیئے جانے والے ردعمل پر میرے دفاع میں لکھا گیا ہے۔ مگر صائمہ ملک صاحبہ نے دعوت انگیز مضمون میں جنس کو بنیادی موضوع بنایا ہے اور جذباتی بھوک کو جنسی بھوک کے ساتھ جوڑ کر جنس کو ایک جذبہ بنا دیا ہے۔ میں مگر اس بات سے اختلاف کروں گا۔ میرے نزدیک جنس ایک جبلت تو ہو سکتی ہے مگر اس کو جذبہ سمجھنا میرے لیے ذرا مشکل ہے۔ میں نفسیات کا طالب علم کبھی نہیں رہا اس لیے میں علم نفسیات کی اصطلاحات نہیں جانتا مگر میرے نزدیک جذبے کا تعلق ذہنی اور روحانی تسکین سے جبکہ جبلت کا تعلق جسمانی تسکین سے ہے۔ مجھے صائمہ ملک صاحبہ کی اس بات سے ہرگز اختلاف نہیں کہ جذباتی خوشی اور آسودگی پر سب کا برابر کا حق ہے۔ مگر میں اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتا کہ جذبات میں کلیدی کردار جنسی خواہش کو حاصل ہے۔ اگر میں جنسی خواہش کو کلیدی جذبہ مان لوں تو پھر طوائف کو پیسے کی بجائے اسی کلیدی جذبے کے تحت اپنا جسم ارزاں کرنا چاہیئے مگر وہ صرف پیسے کے عوض اپنا جسم بیچتی ہے۔ اگر اس بات پر صاد کر ہی لیا جائے کہ جنسی خواہش کلیدی جذبہ ہے تو پھر شمع رانی کے شوہر کی جانب سے اس کے ساتھ کلیدی جذبے کے تحت قربت کی خواہش کے اظہار پر آواز کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟ بلکہ پھر میں یہ بھی کہوں گا کہ کسی مرد یا عورت کا پورن دیکھنا اور دیکھنے پر مجبور کرنا بھی ایک کلیدی جذبے کے تحت درست ہی ہوگا کیونکہ کسی کلیدی جذبے کے آگے بند بہرحال نہیں باندھا جا سکتا۔

(باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے)

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad