نیشنل سٹیڈیم میں پاک بھارت میچ اور ہنگامہ


میرا خیال ہے کہ دسمبر کی اٹھارہویں تھی۔ سال تھا انیس سو نواسی۔ کراچی میں اس دن بارش ہوئی تھی۔ میں اپنے دوستوں خرم اور علی رضا کے ساتھ زندگی میں پہلی بار نیشنل اسٹیڈیم گیا تھا۔ دو دن بعد پاکستان اور بھارت کا ون ڈے میچ تھا۔ میٹرک کے لڑکے سوپر اسٹارز کو کھیلتا ہوا دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔

اب اسٹیڈیم میں داخلے کا ایک راستہ ہے۔ تب کئی تھے۔ ہم مشرق سینٹر کے سامنے بس سے اترے اور چھوٹے دروازے سے احاطے میں داخل ہوگئے۔ ٹکٹ گھر وہیں تھا۔ زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ہمیں بہت آسانی سے جنرل انکلوژر کے ٹکٹ مل گئے۔ بیس روپے فقط۔ اس کے بعد ہم اسٹیڈیم کے اندر چلے گئے۔ سیکورٹی نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ میدان گیلا تھا۔ ہمیں خدشہ ہوا کہ میچ بارش کی نذر نہ ہوجائے۔

بیس دسمبر کو ہم میچ سے ایک ڈیڑھ گھنٹا پہلے اسٹیڈیم پہنچ گئے۔ جنرل انکلوژر کے باہر بن کباب والے، چناجور گرم والے، پھلوں والے ٹھیلے سجائے کھڑے تھے۔ علی رضا گھر سے آدھ درجن کینو اور خرم ریڈیو لایا تھا۔ ہم جنگلے کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ دونوں ٹیمیں میچ سے پہلے ورزش اور پریکٹس کررہی تھیں۔ عمران خان، جاوید میاں داد اور وسیم اکرم کو دیکھ کر مجھے ناقابل بیان مسرت ہوئی۔

بھارتی ٹیم نے وارم اپ ہونے کے لیے میدان کا ایک چکر لگایا۔ وہ ہمارے قریب سے گزرے تو میں نے اس لڑکے کو غور سے دیکھا جو میرا ہم عمر تھا۔ میرے جیسا چھوٹا قد، کسرتی جسم، چہرے پر بھولپن، گھنگھریالے بال۔ وہ اس کی پہلی سیریز تھی۔ اس دن کپتان سری کانت نے اسے پلیئنگ الیون میں شامل نہیں کیا۔ سچن ٹنڈولکر اس کا نام تھا لیکن بہت سے لوگ اب اسے کرکٹ بھگوان کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

میچ شروع ہوتے ہی منوج پربھارکر نے پاکستانی اننگز تباہ کردی۔ رمیز راجا، سلیم ملک، میاں داد، تینوں کو آؤٹ کردیا۔ پانچ اوورز میں پانچ رنز دے کر تین وکٹیں لے ڈالیں۔
اگر آپ نے وہ میچ ٹی وی پر دیکھا ہے تو یہ سب دیکھا ہوگا۔ میں نے تو یہ دیکھا کہ کئی لڑکے مختلف انکلوژرز کے پولز پر بندر کی طرح چڑھ گئے۔ کچھ چھت پر پہنچ گئے۔ ان کے پاس ایم کیو ایم کے پرچم تھے۔ گویا انھوں نے اسٹیڈیم فتح کرلیا۔

اوپر یہ حال تھا، نیچے جنرل انکلوژر اسمبلی میں قائد تحریک الطاف حسین کے حق میں قرارداد منظور کی گئی۔ اس کے بعد پورا اسٹیڈیم نعرہ نعرہ نعرہ مہاجر، جیے جیے جیے مہاجر سے گونج اٹھا۔ میرا خیال ہے کہ اہل ایمان نے اس دھن پر ایک گھنٹے سے زیادہ رقص کیا۔ میں نہ رہے نہ رہے نہ رہے مہاجر سمجھ کر نعرے لگاتا رہا۔
میدان کے اندر اور باہر، کہیں بھی تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔

اس دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ انٹرنیشنل میچز کا منتظم نہیں ہوتا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس کا نام تب بی سی سی پی یعنی بورڈ فور کنٹرول دا کرکٹ ان پاکستان تھا۔ کراچی میں میچ کا انتظام کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن سنبھالتی تھی۔ سراج الاسلام بخاری صاحب کو اس دن بہت پسینہ آیا ہوگا۔

ہنگامہ آرائی کے پیش نظر میچ روک دیا گیا۔ ٹیمیں میدان سے باہر چلی گئیں۔ اگر کچھ لوگ میچ دیکھ رہے تھے تو وہ بھی دوسری دلچسپیاں ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے۔
نعرے بازی جاری تھی کہ خرم مجھے کھینچ کر ایک کونے میں لے گیا۔ وہاں کچھ لڑکوں نے دو انکلوژرز کے درمیان لوہے کا جال نیچے سے کاٹ دیا تھا۔ خرم نے مجھے دھکا دیا۔ میں نے کہا، نہیں یہ بری بات ہے۔ ہم نے بیس روپے کا ٹکٹ لیا ہے، تیس روپے والے انکلوژر میں نہیں جانا چاہیے۔ اس پر خرم نے ناقابل اشاعت قسم کی گفتگو کی۔

علی رضا کے اصرار پر مجھے ماننا پڑا۔ ہم زمین پر گھسٹتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔ اس کے بعد ایک اور باڑھ کے اوپر چڑھ کر چھلانگ لگائی۔ اب ہم وی وی آئی پی انکلوژر کے بالکل ساتھ تھے۔ پاکستانی ڈریسنگ روم نظر آرہا تھا۔ ہم نے وہاں کھڑے ہوکر مشتاق احمد اور وکٹ کیپر ذوالقرنین پر جملے کسے۔ ذوالقرنین گورا سا لڑکا تھا جس کی خط والی داڑھی تھی۔
اسی اثنا میں نعرے بازی اور ہنگامہ بڑھا۔ پولیس جنرل انکلوژر میں گھسی تو اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے آنسو گیس کے گولے چلتے دیکھے۔ میرا احساس جرم کم ہوگیا۔ خیال آیا کہ وہیں بیٹھے رہتے تو نہ رہے مہاجر کا نعرہ لگانے کے جرم میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے۔

ان دنوں کراچی والے ہنگاموں سے پریشان نہیں ہوتے، مزہ لیتے تھے۔ دن میں کرفیو لگتا تھا اور رات کو کھمبے بجتے تھے۔ کانوں کو شیلنگ کی دھائیں دھائیں رومانوی لگتی تھی۔ لیکن آنسو گیس آنکھوں کو اچھی نہیں لگتی۔ حلق میں بھی جلن پیدا کرتی ہے۔

ہنگامہ بڑھا تو پھر کون سا میچ اور کون سا دوست، مبشر بھائی اکیلے اسٹیڈیم سے نکل بھاگے اور پہلی بس پکڑ کے گھر پہنچے۔

اس کے بعد اسپورٹس رپورٹر کے طور پر دسیوں بار نیشنل اسٹیڈیم جانا ہوا۔ فرسٹ کلاس میچ بھی دیکھے اور ٹیسٹ میچ بھی۔ چھیانوے کا ورلڈکپ پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھا، جاوید میانداد کی کراچی میں آخری اننگز پر ٹربیوٹ کا مشاہدہ کیا، ستانوے میں سچن ٹنڈولکر اور سنیل گاواسکر سے گفتگو کا موقع ملا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم آئی تو مائیکل ہولڈنگ کے ساتھ کمنٹری بکس میں پانچ دن گزارے۔ لیکن جو سنسنی پہلے میچ میں محسوس کی، وہ کبھی پلٹ کر نہیں آئی۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi