ہیوسٹن کی کمسن ماں اور کراچی کا رانگ نمبر عاشق


آج پرانے کاغذات میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کاغذ نظر آیا۔ ان پچیس برسوں میں کاغذ اپنا رنگ بدل چکا تھا۔ کراچی کا پتہ اور کراچی کا پرانا چھے ڈجٹ والا فون نمبراور ساتھ ہی اس کا اپنا ہیوسٹن کا فون نمبر لکھا تھا۔ ان دنوں پورے ہیوسٹن میں ایک ہی ایریا کوڈ تھا “سات ایک تین” جو کہ لینڈ لائن تھی۔ ابھی موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا۔ میں دیر تک کاغذ کے اس پرزے کو دیکھتی رہی۔ اس کاغذ کے پرزے سے ایک دل دکھانے والی یاد وابستہ تھی۔ میری آنکھوں میں اس کا معصوم اداس چہرہ گھوم گیا۔ اکثر وہ سوال کرتی آنکھیں میرے حافظے میں جھلملا اٹھتی تھیں۔ ہم بے شمار لوگوں سے ملتے ہیں اور بھول بھی جاتے ہیں مگر کوئی کوئی چہرہ ایسا ہوتا ہے کہ آنکھوں میں کھب کر رہ جاتا ہے۔ ہم چاہیں بھی تو اسے حافظے سے کھرچ نہیں سکتے۔ آج الماری کی صفائی کرتے ہوئے جب یہ پرزہ ہاتھ آیا تو پچیس برس پہلے کی وہ سرِ راہے ملاقات جیسے مجسم سوال بن کر میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ کتنی حسرت تھی ان آنکھوں میں اور کیسی معصومیت۔

حافظہ بھی عجیب لوح محفوظ ہے۔ جو رنگ جیسا محفوظ ہوگیا ہوگیا۔ مجھے یاد آیا کہ یہاں آئے مجھے بہت تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ میں سرکاری اسپتال کے پارکنگ لاٹ سے بچی کا کیریر اٹھائے کلینک کی طرف جارہی تھی۔ میری چھوٹی بیٹی ہیوسٹن کے اسی ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی اور یہیں اسے حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لئے مجھے آنا پڑتا تھا۔ یہاں نومولود بچے کو گود میں اٹھا کر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہسپتال سے تو بچہ مل ہی نہیں سکتا تھا جب تک آپ کیریر لے کر نہ آئیں۔ بچے سے زیادہ وزن اس کیریر کا تھا۔ میں کیریر اٹھائے تھکے قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی کہ ایک کم عمر سی لڑکی میرے بہت قریب آگئی۔ اس نے بھی میری ہی طرح ایک کیریر اٹھایا ہوا تھاجس میں گول مٹول سی بچی تھی جو انگوٹھا چوس رہی تھی۔ وہ بھی لڑکی ہی تھی۔ یہ بات اس بچے کے لباس اور گلابی رنگ کے بلینکٹ سے واضح ہورہی تھی۔

امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن پیدا ہوتے ہی جس شدت کے ساتھ لڑکے اور لڑکی کو رنگوں کی مدد سے ممتاز کیا جاتا ہے یہ بات خاصی دلچسپ بھی ہے اور غور طلب بھی۔ خیر تو میں کہہ رہی تھی کہ وہ کم عمر سی لڑکی، میں اسے لڑکی ہی کہوں گی میرے اور قریب آگئی تو میں نے اخلاقاً اپنی رفتار آہستہ کردی۔ اس نے مجھے ہلو کہا۔ تو میں نے بھی رسماً ہیلو کہا۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک اپنائیت تھی۔ تمہاری بے بی بہت خوبصورت ہے۔ اس نے پیار سے میری بچی کی طرف دیکھا۔ میں نے بھی جواباً اسی طرح کے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ تمہارا لباس بہت خوبصورت ہے۔ اس نے پھر تعریف کی۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ میں نے سندھی کڑھائی کے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی۔ شاید وہ اسے اچھی لگ رہی تھی۔

اب ہم اسپتال کے اندر داخل ہوچکے تھے۔ لیکن وہ اب بھی میرے ساتھ تھی۔ اتفاق سے اس کا اپائنمنٹ اسی اسٹیشن میں تھا جہاں میرا تھا۔ ہم ایک ساتھ فرنٹ ڈیسک پر آئے۔ اور اپنے اپنے بچوں کے نام رجسٹر کروا کر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ وہ میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مجھے بھی وہ اچھی لگ رہی تھی۔ ایک تو اتنی کم عمر لڑکی کی گود میں نومولود بچہ۔ میرے ذہن میں ایک ترقی یافتہ ملک کے بارے میں کم از کم ایسا تصور نہیں تھا۔ یہ تو ہمارے گاﺅں دیہات میں ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بچپن سے لڑکپن کی دہلیز پر ابھی قدم بھی نہیں رکھنے پاتیں کہ عورت بن جاتی ہیں۔ لڑکپن اور نوجوانی کی ساری امنگیں جیسے دم توڑ دیتی ہیں۔ لیکن وہاں توکم عمری کی شادیاں جبراً ہوتی ہیں۔ امریکہ میں بچوں کے حقوق ، عورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کی اتنی تنظیمیں کام کررہی ہیں اس کے باوجود یہ کمسن لڑکی ماں بن گئی۔

انتظار گاہ میں کافی رش تھا۔ “لگتا ہے ابھی دیر ہے ہمارا نمبر آنے میں۔ “اس نے بچی کی بوتل ہلاتے ہوئے مجھ سے کہا۔

 ہاں ایسا ہی لگتا ہے۔ شکر ہے دونوں بچے سو رہے ہیں۔ میں نے اطمنان سے کہا۔

 “اوہ میں تمہارا نام تو پوچھنا بھول گئی۔ ؟ “اس نے اچانک سوال کیا۔

میں نے اپنا نام بتایا اور جواباً اس نے بھی اپنا تعارف کرایا۔

“مجھے ماریہ کہتے ہیں۔ وہ پھر مسکرائی!

 تم پاکستان سے ہونا؟ ہاں میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ مجھے پاکستانی لباس بہت پسند ہے !۔ اس نے خوش دلی سے کہا۔

 تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بھی اس سے پوچھا۔

 میرے والدین میکسیکو سے ہیں لیکن میں یہیں پیدا ہوئی ہوں ٹیکساس میں۔ وہ پھر مسکرائی۔ چھوٹے قد گیہواں رنگت اور نمکین چہرے والی اس لڑکی کی مسکراہٹ میں عجیب کشش تھی۔

تم کراچی کی ہو؟”۔ اس نے مجھ سے پھر ایک ذاتی سا سوال کیا۔

(باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2