جدید منشیات کے سویلین و عسکری استعمالات


لگ بھگ تین ہفتے پہلے بیروت کے رفیق ہریری انٹرنیشنل ایرپورٹ پر اینٹی نارکوٹکس اسکواڈ نے ایک سعودی نجی جیٹ طیارے پر چھاپہ مار کے پچیس بکسوں سے تقریباً دو ٹن ایمفیٹا مائن کیپٹوگون ٹیبلٹس کی کھیپ پکڑ لی اور انتیس سالہ شہزادہ عبدالمحسن بن ولید بن عبدالعزیز السعود اور ان کے چار ساتھیوں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی۔ لبنان میں کیپٹو گون منشیاتی فہرست میں شامل ہے اور لبنانی حکام کے مطابق ملکی تاریخ میں منشیات کی پکڑی جانے والی یہ سب سے بڑی کھیپ سعودی عرب لے جائی جا رہی تھی جس کی بین الاقوامی قیمت تین سو ملین ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ گذشتہ سال اپریل میں بیروت کی بندرگاہ سے پندرہ ملین کیپٹوگون ٹیبلٹس پکڑی گئیں۔

مگر کیپٹو گون ہے کیا بلا؟ اسے سن ساٹھ کے عشرے میں مارکیٹ کیا گیا اور ڈاکٹر اسے بے چینی اور ڈیپریشن میں کمی کے لیے تجویز کیا کرتے تھے۔ لیکن انیس سو اسی میں مغربی ممالک نے اسے دواؤں کی فہرست سے خارج کر دیا کیونکہ کیپٹوگون استعمال کرنے والے اکثر مریض عادی ہو جاتے تھے اور علاج مکمل ہونے کے بعد بھی بطور نشہ استعمال کرتے رہتے۔

کیپٹوگون کو بطور نشہ استعمال کیا جائے تو نیند نہیں آتی، بھوک مرجاتی ہے مگر استعمال کرنے والا خود کو توانا اور خوش و خرم محسوس کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ لبنان میں انیس سو پچھتر سے انیس سو نوے تک جاری پندرہ سالہ خانہ جنگی کے دوران اکثر متحارب ملیشائیں حشیش کے علاوہ کیپٹوگون کو اسٹیمنا برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتی رہیں اور لبنان کی وادیِ بقا میں کیپٹوگون تیار کرنے کی غیر قانونی صنعت پروان چڑھی۔ انیس سو نوے میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد یہ صنعت بھی سکڑتی چلی گئی۔ البتہ گذشتہ چار برس کے دوران شام کی خانہ جنگی نے کیپٹوگون کی مانگ کو پھر سے زندہ کردیا۔ شامی بھلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں لیکن کیپٹوگون داعش سمیت اکثر لڑاکوں کو محبوب ہے۔ البتہ القاعدہ سے جڑے النصرہ فرنٹ کے چھاپہ ماروں میں اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
شام کے بعد کیپٹوگون کی سب سے زیادہ کھپت ان خلیجی ممالک میں ہے جہاں شراب اور دیگر منشیات کی فراہمی خاصی مشکل اور خطرناک ہے۔ چنانچہ کیپٹوگون شام سے براستہ لبنان بڑی مقدار میں اسمگل ہوتی ہے۔ منشیات و جرائم پر نگاہ رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی سالِ گذشتہ کی رپورٹ کے مطابق کیپٹوگون کی پیداوار کی پچپن فیصد کھپت تین ممالک یعنی شام، اردن اور سعودی عرب میں استعمال ہوجاتی ہے۔

اگرچہ کیپٹوگون کی ایک گولی کی تیاری پر ایک ڈالر سے بھی کم لاگت آتی ہے مگر سعودی عرب جیسے ممالک میں سختی کے سبب اس کی قیمت بیس ڈالر فی گولی تک پہنچ جاتی ہے لہذا طاقتور اسمگلنگ سینڈیکیٹس خوب مال بناتے ہیں۔ سعودی قوانین کے تحت کیپٹوگون کو منشیات کی اس کیٹگری میں نہیں رکھا گیا جس میں ہیروئن، چرس وغیرہ شامل ہیں اور جن کی برآمدگی کی سزا موت ہے۔ کیپٹو گون کے اسمگلروں کی پکڑ دھکڑ اور کھیپ کی ضبطی ضرور کی جاتی ہے لیکن استعمال کرنے والوں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے بحالی مراکز میں بھیجا جاتا ہے۔

سماجی ماہرین کیپٹو گون کی بڑی مقدار کی سعودی عرب میں مقبولیت کی یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ وہاں باقی دنیا کے برعکس سینما اور تھیٹر سیمت ایسی تفریحی سہولتیں میسر نہیں جن کے سہارے نوجوان وقت گذاری کر سکیں۔ نوجوان نسل میں بے روزگاری کی شرح بھی تیس فیصد کے لگ بھگ کہی جاتی ہے۔ دل کی بھڑاس کھلے عام نکالی نہیں جا سکتی کیونکہ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی حدود و قیود ہیں لہذا نوجوان فرار کے لیے کیپٹوگون سمیت ایسی سکون بخش ادویات کا سہارا لیتے ہیں جو وقتی خوشی فراہم کرسکیں۔ کیپٹوگون کے بارے میں یہ بھی مشہور کیا گیا ہے کہ موٹاپا کم کرتی ہے لہذا گھروں میں بیٹھے بیٹھے فربہ ہو جانے والی خواتین میں بھی استعمال بڑھ رہا ہے۔

جہاں تک جنگجوؤں میں منشیات اور سکون بخش جڑی بوٹیوں اور ادویات کے استعمال کا معاملہ ہے تو عارضی طاقت کے حصول اور محاذِ جنگ پر خود کو پرسکون اور بے حس رکھنے کے لیے ان کا استعمال ہزاروں برس سے ہے۔

آریائی رتھ سوار دشمن پر ٹوٹ پڑنے سے پہلے خود کو سوم رس پی کر دھت کرلیتے تھے۔ چونکہ سوم رس مقدس شراب تھی لہذا پینے کے بعد قتل و غارت بھی مقدس بن جاتی۔ شمالی یورپ کے لحیم شہیم وائی کنگ جنگجو دشمن پر ٹوٹ پڑنے سے قبل مسکاریا نامی کھمبیاں چبایا کرتے تھے تاکہ عارضی طور پر اتنے ” وحشیا ” جائیں کہ حریف انھیں بڑے بڑے فولادی کلہاڑے لہراتے اپنی جانب جتھے کی صورت لپکتے دیکھ کر دم دبا کے سٹک لے۔

جنوبی افریقہ کے زولو ایک مقامی جڑی بوٹی کا پوڈر سونگھنے کے بعد اس قابل نہیں رہتے تھے کہ دشمن کے نیزے اور برچھے کا زخم محسوس کرسکیں۔ لہذا دشمن بالٓاخر ان پاگلوں سے گھبرا کے حوصلہ ہار دیتا تھا۔ وسطی امریکا کے ان کا جنگجو دورانِ جنگ چاق و چوبند اور عدو سے خبردار رہنے کے لیے کوکا کے پتے چباتے رہتے۔ منشیات کا سہارا تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے بجائے اور بڑھتا چلا گیا اور جدت آتی گئی۔

اس موضوع پر صحافی ضرار کھوڑو کے ایک تحقیقی مضمون کے مطابق انیسویں صدی میں پرشیا ( جرمنی ) کے سپاہی اپنا جنگی اسٹیمنا بڑھانے کے لیے کوکین سونگھتے تھے۔ سکون بخش جڑی بوٹیوں کے ست کی سیرپ اور ٹیبلٹس کی شکل میں صنعتی پیمانے پر تیاری بھی انیسویں صدی کے جرمنی میں شروع ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ( انیس سو انیس ) یہ ہنر جاپان تک پہنچ گیا۔ اور جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو جرمنی اور جاپان نے اپنے فوجیوں کو اعصاب پرسکون رکھنے اور اسٹیمنا بڑھانے والی ادویات ( ایمفیٹامائنز ) کی وافر فراہمی شروع کردی۔

نازی حکومت سپاہیوں کو پرویٹن نامی ٹیبلٹس فراہم کرتی تھی جوفوجی یونٹوں میں پینزر چوکلاد ( ٹینک چاکلیٹ ) کے نام سے مقبول تھی۔ جب سوویت یونین پر نازی فوج کشی کو روسی دستوں نے روک دیا تو ایک جرمن فوجی ڈاکٹر نے ڈائری میں لکھا کہ یونٹ کے سب فوجی مارے تھکن کے یکے بعد دیگرے برف پر ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ جب پروٹین دی گئی تو آدھے گھنٹے میں ایسے چاق و چوبند ہوگئے جیسے تازہ تازہ محاذ پر پہنچے ہوں۔

جاپانی خود کش پائلٹوں ( کاماکازی ) کو سرفروش مشن پر روانگی سے قبل سکون بخش ادویات کے انجکشن لگائے جاتے۔ فوجیوں، اسلحہ ساز کارخانوں کے ورکروں اور ملاحوں کو بھی سکون آور ادویات کی سپلائی مسلسل کی جاتی۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد عام جاپانیوں نے سکون بخش ادویات کے فوجی ذخائر لوٹ لیے کیونکہ ملک گیر غذائی قلت کے سبب ان ادویات کے استعمال سے بھوک مٹ جاتی تھی۔ آج بھی جاپان میں سکون بخش ادویات کا بے تحاشا استعمال سنگین مسئلہ ہے۔

سترہ اپریل دو ہزار دو کو افغانستان میں کینیڈا کے ایک فوجی دستے پر امریکی فضائیہ کے ایک ایف سولہ طیارے کے پائلٹ نے غلط فہمی میں حملہ کر کے چار کینڈین فوجی مار دیے۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ امریکی پائلٹوں کو ڈیکسٹرو ایمفیٹا مائن استعمال کروائی جاتی ہے تاکہ وہ خود کو دباؤ اور تھکن سے آزاد محسوس کرتے ہوئے طویل وقت تک کاک پٹ میں رہ سکیں۔ امریکی پائلٹ اس گولی کو اسپیڈ یا گو پلز کے نام سے جانتے ہیں۔ گوپلز کے استعمال سے جسمانی اسٹیمنا بھلے بڑھ جاتا ہے مگر قوتِ فیصلہ بھی متاثر ہوتی ہے۔ امریکی فوجیوں کو موڈافنل ٹیبلٹ بھی استعمال کروائی جاتی ہے جسے کھا کے وہ مسلسل اڑتالیس گھنٹے تک متحرک رہ سکتے ہیں۔

سری لنکا میں سابق تامل ٹائیگرز کے بعد افغانستان اور پاکستان میں متحرک خود کش بمباروں کے بارے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ برین واشنگ کے ساتھ ساتھ انھیں مشن پر جانے سے پہلے مسکن ادویات استعمال کروائی جاتی ہیں تاکہ ذہن یک سمتی رہے اور دوسرا خیال نہ آئے
نومبر 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).