اداروں سے پہلے سیاسی جماعتوں کو باہمی احترام سکھایا جائے


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دو روز کے دوران مختلف مواقع پر گفتگو کرتے ہوئے چند ایسی باتیں کی ہیں جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) جمہوریت کو اپنی پارٹی کی کامیابی سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم عباسی ، نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے اصرار کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ان کو سزا ہوگئی تو وہ جیل سے بھی پارٹی کی قیادت کریں گے کیوں کہ پرویز مشرف کے دور میں وہ جلاوطنی کے باوجود پارٹی معاملات دیکھتے رہے ہیں۔ تاریخ کے جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے وزیر اعظم سے یہ درخواست کرنا ضروری ہے کہ عدالت نواز شریف کو دو مختلف مواقع پر نااہل قرار دے چکی ہے۔ پہلے انہیں 2013 کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی میں درست معلومات نہ دینے پر نااہل قرار دیا گیا، پھر انتخابی قانون میں ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے انہیں پارٹی قیادت سےعلیحدہ کیا گیا۔ اس لئے شاہد خاقان عباسی اس بحث میں الجھنے کی بجائے ملک میں جمہوری روایت کو مستحکم کرنے کے لئے کام کریں تو بہتر ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی نے ملک میں فوجی یا عدالتی مارشل لا کے امکان کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت بہر طور کام کرتی رہے گی۔ انہوں نے اداروں کے ساتھ تصادم کے امکان کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت دو ماہ میں ختم ہوجائے گی۔ اس مدت میں ایسا تصادم نہیں ہوگا۔ تاہم انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے اداروں کے درمیان ڈائیلاگ ضروری ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے اداروں کا ذکر کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ کن اداروں کی بات کر رہے ہیں لیکن ان کی بات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ان کا اشارہ فوج اور عدلیہ کی جانب ہے۔ اس تناظر میں انہیں فوج اور عدلیہ سے بات چیت کو ملکی ترقی کے ساتھ منسلک کرنے سے پہلے ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم اور احترام کا رشتہ استوار کرنے کی ضرورت پر زور دینے کی ضرورت تھی۔ کیوں کہ اسی طرح ایک مضبوط و توانا جمہوری کلچر فروغ پا سکتا ہے اور باہمی اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتیں مل کر موجودہ نظام کے استحکام کے لئے کام کرسکتی ہیں۔ اسی صورت میں فوج کو بھی اس بات کا اندازہ ہوگا کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ الجھنے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کا راستہ ہموار کرے کیوں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تسلسل، آئین کی بالا دستی اور پارلیمنٹ کے اختیار پر متفق ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اصولوں کی بنیاد پر اتفاق رائے کی صورت میں ہی عدالتوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

ملک کے سیاست دان اور جماعتیں جب تک اس اندیشے کو محسوس نہیں کرتیں کہ ان کی بقا اور ملک کا مستقبل جمہوری روایت کو مستحکم کرنے سے ہی وابستہ ہے، اس وقت تک جمہوری نظام میں نقب لگانے کے راستے تلاش کئے جاتے رہیں گے۔ اس کا ایک مظاہرہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں آچکا ہے۔ یہ صرف حکمران جماعت کی ناکامی نہیں تھی بلکہ اس عمل میں حصہ دار سب سیاسی کرداروں کی مشترکہ ناکامی تھی۔ اسی طرح ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگانے کی تجویز کسی حاضر یا سابق جج یا فوجی جنرل نے پیش نہیں کی ہے بلکہ ایک سیاست دان نے یہ موشگافی کی ہے۔ ایسے لوگوں کے ماضی سے حوالے لا کر انہیں مسترد تو کیا جاسکتا ہے لیکن جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے کھلواڑ کرنے کا راستہ اسی وقت مسدود ہو سکے گا جب سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اداروں کے آلہ کار بننے سے گریز کرنے کا حتمی فیصلہ کریں گے۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں کسی حد تک اس اصول کو تسلیم کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی۔ ورنہ نواز شریف نہ تو افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے لانگ مارچ پر نکلتے اور نہ ہی کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ اسکینڈل میں مدعی بن کر عدالت پہنچتے۔ اس رویہ کے منفی اثرات کا تجربہ کرنے کے بعد اب دوسری جماعتوں کو اسی راستے پر نہ چلنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ لیکن جب اقتدار کا حصول ہی منزل مقصود ٹھہرے تو سیاست دان خود ووٹ کی طاقت کو بے توقیر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر اداروں سے اس کا مطالبہ کرنا عبث ہے۔ وزیر اعظم اس صورت حال کا ذمہ دار صرف اپوزیشن کو قرار دے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ غلط فہمیاں دور کرنے اور مستقبل میں جمہوریت کو ‍ذاتی اقتدار کی سیڑھی سمجھنے کی بجائے ، قوم کے مسائل حل کرنے اور عوام کو بااختیار بنانے کے لئے حکومت کو پہل کرنا ہوگی اور اس بحرانی دور میں بداعتمادی اور شک و شبہ کی فضا کو کم کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔

انتخابات کے انعقاد کے لئے عبوری حکومت کے قیام کا مرحلہ اس حوالے سے اہم موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن وزیراعظم اس معاملہ پر اپوزیشن سے بات کا آغاز کرنے سے پہلے ہی یہ اشارے دے رہے ہیں کہ شاید اس بارے میں مفاہمت پیدا نہ ہو سکے اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجنا پڑے۔ اپوزیشن کی طرح حکومت پر بھی آئینی تقاضے پورے کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تاہم اس کے لئے صرف پارٹی مفادات سے بالا ہو کر سوچنے کی ضرورت ہوگی۔ یہی حکومت کی حوصلہ مندی اور سیاسی تدبر کا امتحان بھی ہوگا۔ لیکن شاہد خاقان عباسی اگر قبل از وقت مایوسی کا اظہار کریں گے اور عبوری حکومتوں پر مشاورت سے پہلے سیاسی ماحول بہتر بنانے کی بجائے اپوزیشن پر سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں ووٹ خریدنے کا الزام عائد کریں گے اور ایک منتخب چیئرمین سینیٹ کو ملک کے لئے ہتک آمیز قرار دے کر اپوزیشن کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ اس فیصلہ کو تبدیل کرنے کے لئے اقدام کرے تو اس سے معاملات سدھرنے کی بجائے مزید خراب ہوں گے۔ سیاست دانوں کی اسی چپقلش میں ادارے مضبوط اور جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کو خود یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ جب منتخب حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود فیصلے کرنے، قانون بنانے اور انہیں نافذ کروانے کے اختیار سے محروم ہو جائے تو اسے کیسے جمہوریت کی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تو منتخب وزیر اعظم فوج کے سربراہ کی طرف سے ایک آئینی ترمیم پر اعتراضات سامنے آنے کے بعد اس سے جواب طلب کرنے کی بجائے یہ وضاحتیں دینے کی کوشش ہی کرے گا کہ اس میں کچھ سقم موجود ہیں۔

کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس وقت ملک میں برائے نام جمہوریت ہے اور منتخب حکومت کے اختیار کو محدود کرنے کے لئے فوج اور سپریم کورٹ اپنے اپنے طور پر مستعد اور سرگرم ہیں۔ اداروں کے لئے ایسی جمہوریت ہی بہترین حل ہے۔ اس طرح براہ راست مداخلت کے الزام سے بھی بچا جا سکتا ہے اور معاملات بھی ان کی مرضی سے ہی طے پاتے ہیں۔ وزیراعظم ، حکمران جماعت اور اپوزیشن کو یکساں طور سے یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ 2018 کے انتخابات میں یہی جمہوری اختیار دینے کے لئے عوام کے ووٹ مانگیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali