”نکتہ چیں ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے“ – مکمل کالم


ایک ہاتھ میں کافی کا مگ ہو، دوسرے میں سگار ہو، سامنے دریا کا کنارہ ہو، شب کا اندھیرا ہو، رعنائیوں کا پہرا ہو، خامشی کا بسیرا ہو اور ایسے میں اچانک کوئی غالب کی غزل گنگنا دے ’نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘ تو وہ لمحے یادگار بن جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ غزل درست طریقے سے گائی جائے۔ بر صغیر پاک و ہند کے ہر بڑے گلوکار اور گائیکہ کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ غالب کا کلام گائے لیکن غالب کی غزلوں کے بعض اشعار اور ان کے پوشیدہ معنی اس قدر لطیف اور باریک ہیں کہ انہیں سمجھ کر گانا کوئی آسان کام نہیں، یہی وجہ ہے کہ عام طور سے غالب کی آسان غزلوں کو فلمی گانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، گلوکار بھی عموماً سادہ غزلیں ہی محفلوں میں سناتے ہیں اور اگر ان میں کوئی پیچیدہ شعر آ جائے تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر ان آسان غزلوں میں بھی بڑے بڑے گلوکار ایسی فاش غلطیاں کر جاتے ہیں کہ جس سے شعر بے معنی ہو جاتا ہے اور کسی کو پتا ہی نہیں چلتا۔ مثلاً سہگل صاحب اگر غالب کی غزل گائیں گے تو کس کی جرات ہے کہ اس میں غلطی نکالے۔ ہم نے کے ایل سہگل، ثریا، اختری بائی اور محمد رفیع وغیرہ کی گائیکی کے ساتھ ایسا ’تقدس‘ جوڑ دیا ہے کہ کوئی ان کی گائیکی میں نقص نکالنے کی جرات ہی نہیں کر پاتا۔ مجھ ایسا موسیقی سے نا بلد انسان اگر سہگل صاحب کی گائی ہوئی ’نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘ میں کوئی غلطی نکالے گا تو ناسٹیلجیا کا شکار کچھ بزرگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائیں گے کہ تم کیا جانو سہگل صاحب کی گائیکی کو ، ان جیسا گلوکار تو ایک صدی بعد پیدا ہوتا ہے، خبردار اگر ان کی گائیکی کے بارے میں کچھ کہا۔ لہذا فی الحال میں خود کو صرف ’نکتہ چیں‘ والی غزل تک محدود رکھوں گا۔

سہگل صاحب غالباً وہ پہلے گلوکار تھے جنہوں نے 1933 میں فلم ’یہودی کی لڑکی‘ میں یہ غزل ریکارڈ کروائی، اس میں سہگل نے بطور اداکار اور گلوکار کام کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک تقریباً تمام گلوکاروں نے اسی انداز میں یہ غزل گائی اور کم و بیش سب نے اس کا پہلا مصرع ہمیشہ غلط پڑھا۔ سہگل صاحب نے جب اسے گایا تو یوں لگا جیسے کہہ رہے ہوں کہ غم دل جو ہے وہ نکتہ چیں ہے جبکہ اصل میں مصرع کچھ یوں ہے : ’نکتہ چیں ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘ ۔ یعنی میرا محبوب نکتہ چیں ہے، وہ ہر بات پر تنقید کرتا ہے، کسی بات سے مطمئن نہیں ہوتا لہذا میں اس کو غم دل اس کو سنانا چاہتا ہوں مگر اس کی نکتہ چینی کی وجہ سے بات ہی نہیں بن پاتی۔ اس مصرع میں ’نکتہ چیں ہے‘ کے بعد ذرا سا توقف ہے اور اس کے بعد ’غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘ ہے جبکہ سہگل سمیت گلوکاری کے دیوتاؤں نے اسے یوں گایا کہ ’نکتہ چیں ہے غم دل، اس کو سنائے نہ بنے‘ جس سے مطلب ہی فوت ہو گیا۔ فلم ’مرزا غالب‘ میں ثریا نے بھی یہ غزل ایسے ہی غلط انداز میں گائی، بیگم اختر نے بھی یہی کام کیا اور تو اور میرے پسندیدہ محمد رفیع نے بھی نکتہ چیں کے ساتھ غم دل ملا کر گایا، لیکن اس غلطی کو اگر نظر انداز کر دیں تو رفیع صاحب نے یہ غزل سب سے عمدہ انداز میں گائی۔

اسی طرح برطانیہ کے ایک ٹی وی چینل کے لیے سیریز ریکارڈ کی گئی جس میں دپتی نول میزبان تھیں، اس میں یہ غزل تین یا چار مرتبہ مختلف انداز میں ریکارڈ کی گئی، ایک مرتبہ موسیقار روی نے خود بھی گائی، سعید جعفری سے مشاعرے میں اداکاری کروا کے پڑھوائی گئی اور الکا یاگنک نے بھی گائی۔ تینوں نے غلط گائی۔ الکا نے تو خیر غزل کا بیڑہ غرق ہی کر دیا، جس میں اس کا کوئی قصور نہیں، غزل کی موسیقی ہی ایسی ترتیب دی گئی تھی جو کہ غزل کے مزاج سے ہی میل نہیں کھاتی تھی۔

یہی غزل اپنے ہاں عابدہ پروین نے بھی گائی اور اپنی طرف سے یوں گائی جیسے ایک ایک لفظ سمجھ کر گا رہی ہوں مگر وہی ’نکتہ چیں‘ والی غلطی انہوں نے بھی کی۔ صرف دو گلوکارائیں ایسی ہیں جنہوں نے یہ غزل درست گائی اور اس کا حق ادا کر دیا۔ ایک نسیم بیگم اور دوسرے بھارت کی ڈاکٹر رادھیکا چوپڑہ۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس نے زیادہ عمدگی سے گائی، دونوں یو ٹیوب پر مل جائیں گی، میری رائے میں رادھیکا چوپڑہ نے اس غزل کو گا کر کمال کر دیا ہے، مرزا غالب اگر زندہ ہوتے تو انہی سے سننے کی فرمایش کرتے۔ رادھیکا کو پوری طرح علم تھا کہ تمام گلوکاروں نے اس غزل میں کہاں غلطی کی ہے لہذا انہوں نے گاتے وقت خاص طور سے اس بات کا اہتمام کیا کہ نکتہ چیں کے ساتھ غم دل کو ملا کر نہ گایا جائے۔ رادھیکا موسیقی کی استاد ہیں اور انہوں نے ہندوستانی موسیقی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔

میں ’نکتہ چیں‘ نہیں ہوں کہ عظیم گلوکاروں پر تنقید کروں، میرا مقصد خدا نخواستہ ان کی تضحیک نہیں، مجھے تو موسیقی کی ابجد بھی معلوم نہیں، میرا مدعا صرف یہ ہے کہ بعض اوقات ہم ان گلوکاروں کی عظمت بیان کرتے ہوئے مبالغہ آرائی میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں ادب عالیہ کا بھی پروفیسر سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ان گلوکاروں کو جس طرح بتایا گایا اسی طرح انہوں نے غزل گائی، ان کی گائیکی میں کوئی اور خرابی نہیں تھی۔

ادھت نرائن بھارت کے بہترین گلوکاروں میں سے ایک ہیں، ایک مرتبہ میں نے ان کا انٹرویو سنا جس میں وہ بہت مشکل سے اٹک اٹک کر جملے بول رہے تھے، لیکن اسی انٹرویو میں جب انہیں گانے کے لیے کہا گیا تو یک دم ان کی جون ہی بدل گئی اور ایسے لہک لہک کر انہوں نے گانا گایا کہ سماں باندھ دیا۔ وجہ وہی کہ فن گائیکی میں انہیں کمال حاصل ہے لیکن کسی اور شعبے کا انہیں زیادہ علم نہیں، اور یہ بالکل بھی معیوب بات نہیں جس پر تنقید کی جائے۔

ناہید اختر نے غالب کی مشہور غزل ’جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں‘ گائی ہے اور کیا عمدگی سے گائی ہے لیکن اگر آپ آج ناہید اختر کو بٹھا کر پوچھیں کہ ’ترے سرو قامت سے یک قد آدم، قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں‘ والے شعر کا کیا مطلب ہے تو شاید وہ نہ بتا سکیں۔ اسی غزل کو غلام علی نے بھی گایا ہے اور غزل برباد کر کے رکھ دی ہے، کسی محفل میں موصوف یہ غزل گانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پہلے شعر سے ہی آگے نہیں نکل پا رہے، اس پر طرہ یہ ہے کہ حاضرین کو ’خیاباں خیاباں‘ کا مطلب ’کہیں کہیں‘ بتا رہے ہیں۔

قصور گلوکاروں کا نہیں بلکہ ان لوگوں ہے جو ان تمام عظیم فنکاروں کو گلوکاری کے درجے سے اٹھا کر شعر و ادب کے استاد کے درجے پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ غلطی ہم اکثر کرتے ہیں۔ کسی ایک میدان اگر کوئی شخص عروج حاصل کر لے اور ہمارا ہیرو بن جائے تو ہم اسے تمام شعبوں کا ماہر سمجھ کر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہو گا۔ بعد میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ اسے تو نکتہ چیں کے بعد توقف کرنے کا بھی علم نہیں تھا۔

ایک ہاتھ میں کافی کا مگ ہو، دوسرے میں سگار ہو، دریا کا کنارہ ہو، شب کا اندھیرا ہو، رعنائیوں کا پہرا ہو، خامشی کا بسیرا ہو اور ایسے میں اچانک کوئی غالب کی غزل گنگنا دے ’نکتہ چیں ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘ تو وہ لمحے یادگار بن جاتے ہیں!

 

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments