اگر خادم حسین رضوی ملک میں مارشل لا لگادیں تو؟


”میری خادم حسین رضوی سے استدعا ہے، کہ وہ ملک مارشل لا نافذ کردیں“۔ انھوں نے جب یہ کہا، تو میری زبان سے بے ساختہ پھسلا۔
”پین دی۔۔۔“۔

کل میٹرو بس میں راول پنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے، میرے ساتھ کی نشست پر بیٹھے صاحب نے ”رضوی مارشل لا“ کی تجویز دی، تو میرا حیران ہونا فطری تھا۔

”مارشل لا؟ اور خادم حسین رضوی؟ کیسے“؟
”مجھے نہیں پتا کیسے، لیکن وہی اس ملک پر حکمرانی کے حقیقی حق دار ہیں۔ جیسے انھوں نے ختم نبوت کے مسئلے پر جرات کا مظاہرہ کیا، ڈٹ کر بات منوائی، ویسی ہی جرات کا مظاہرہ کرتے اقتدار پر قبضہ کرلینا چاہیے“۔

میں نے خوف زدہ نظروں سے دیکھتے پوچھا، ”پر کیوں“؟
”کیوں؟ اس لیے کہ اُن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، اور اس لیے کہ اور کون ہے جو قوم کا درد سینے میں لیے ہوئے ہے۔ ایک وہی ہیں جو مسائل سے نکال باہر سکتے ہیں“۔

”لیکن آئین میں اس کی کی گنجایش نہیں“۔ میں منمنایا، تو اُن صاحب اتنے زور سے قہقہہ لگایا کہ بس میں موجود تقریبا سبھی مسافر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ میں نے کھسیاہٹ مٹانے کے لیے دُہرایا، کہ ممکن ہے اُنھیں سننے میں غلطی لگی ہو۔ ”آئین میں گنجایش نہیں ہے، کہ کسی قسم کا مارشل لا لگایا جاسکے۔ معزز چیف جسٹس صاحب نے بھی وضاحت کردی ہے، کہ جوڈیشل مارشل (جو کہ ناگزیر تھا) کی آئین میں گنجایش نہیں“۔

قہقہہ تھا کہ رُکنے کا نام نہ لے رہا تھا، وہ صاحب ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوئے جاتے تھے۔ ہنسی کا سونامی قدرے تھما تو کہا، ”چیف صاحب سے پوچھ کر بتائیے گا، پہلے یہاں جو مارشل لا آئے، اُن کی آئین میں کون سی گنجایش تھی؟ یہ بھی پوچھ کر بتائیے گا، مارشل لا کو کسی قانون کسی آئین کی محتاجی ہوتی ہے؟ دُنیا کے کون سے آئین میں مارشل لا کی گنجایش نکالی جاتی ہے؟ یہ تو عدالتی فیصلے تھے، جن میں مارشل لا کو جواز فراہم کیا گیا۔ ویسے بھی عدالت کو حق حاصل ہے وہ قانون سازی کرے، قانون معطل کردے؛ جیسا کہ ماضی قریب میں کیا بھی۔ تو صاحب یہ شیخ رشید کے مطالبے والا جوڈیشل مارشل لا نوشتہ دیوار ہے۔ جب آئے گا، تو دیکھیے گا، آئین میں کیسے سموتا ہے“۔

”نہ بھائی، ایسا مت کہیں؛ توہین عدالت ہوجائے گی“۔ میں سماجت ہی کرسکتا تھا، کی۔ انھوں نے حقیر جان کر مجھے دیکھا۔

”توہین عدالت یہ کہنے سے ہوجائے گی، کہ آئین میں گنجایش نکل آئے گی؟ یا توہین عدالت یہ ہوئی کہ شیخ رشید صاحب عدالت کو غیر آئینی اقدام پر اُکسارہے ہیں؟ اور آپ یہ بھول گئے شیخ رشید صاحب نے کئی بار کی طرح، اس بار بھی دُہرایا ہے، ’کون سا سیاست دان ہے جو فوج کی پیداورا نہیں ہے‘، اور انھوں نے واشگاف الفاظ میں جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کا پتا بھی دیا ہے، کہ وہاں سیاست دانوں کی نرسری ہے“۔

”شیخ رشید صاحب غلط بیانی کرتے ہیں، فوج کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرتی، وہ جمہوریت کا احترام کرتی آئی ہے، اور آج بھی جمہوریت کو بچانے کا اعادہ کرتی ہے۔ بل کہ سچ کہوں‌ تو اس ملک میں جمہوریت بچی کھچی ہے، تو وہ فوج ہی کی وجہ سے؛ ان سیاست دانوں کا بس چلتا تو کب مارشل لا لگا چکے ہوتے“۔

میری یہ بات سن کر اُن صاحب نے ہنسنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا، کہ میں نے سنجیدگی کا مشورہ دیا۔
”علمی مباحث کے لیے غیر سنجیدہ رویہ مناسب نہیں“۔

”ایک بات تو بتائیے“! انھوں نے طنزیہ لہجے میں استفسار کیا، ”شیخ رشید کے اس بیان پر کہ یہ سب سیاست دان جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں، ادارے کے ترجمان نے تردید کیوں نہیں کی؟ کیا یہ اداروں کی توہین نہیں ہے؟ کوئی الزام لگاتا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے، اور فوج کے ترجمان خاموش رہ کر اس کی تائید نہیں کررہے؟ چیف جسٹس صاحب، بے چارے شاہد مسعود کو بلا کر اول فول بکنے پر سزا دیتے ہیں، تو شیخ رشید صاحب کے اس بیان پر سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیتے“؟

”مسئلہ ہوسکتا ہے“۔ میں نے اعتراف کیا، تو وہ چونکے۔
”کیسا مسئلہ“۔
”شیخ رشید صاحب عدالت کو اصغر خان کیس کا حوالہ دے کر خاموش کردیں گے۔ عدالت کا یہ فیصلہ بھی تو سرد خانے میں پڑا ہے“۔

”اماں دیکھو! ادھر ایک وزیر اعظم کو اس لیے نا اہل قرار دیا گیا، کہ اس نے عدالت کے حکم پر خط نہیں لکھا، اور اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد یہ چوتھا وزیر اعظم ہے، کتنے وزیر دفاع گزر گئے، لیکن عدالت نے کسی کو بلا کر نہیں پوچھا، کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا، کیوں نہیں ہوا۔ یہ کیسا گورگھ دھندا ہے“؟

”یہ تو ان کی صواب دید ہے، وہ پوچھیں نہ پوچھیں“۔ میں نے جواز پیش کیا، تو وہ بلبلائے۔
”خادم حسین رضوی کی کوئی صواب دید نہیں“؟
”جی“؟

”دیکھیے صاحب! شیخ رشید چاہتے ہیں جوڈیشل مارشل لا آئے۔ میں چاہتا ہوں خادم حسین رضوی مارشل لا آئے۔ اس ملک میں جمہوریت ہے، جس کے جو جی میں آئے کہے؛ آپ کو اعتراض کیا ہے“؟

”یہی کہ یہ جمہوریت نہ رہی، تو ایک رہی سہی پارلیمنٹ ہے جس پر تنقید کرکے ہم اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں، پھر کس پر تنقید کریں گے“؟ میں نے قدرے سہم کر جواب دیا۔

”خادم حسین رضوی اس ملک کی آخری اُمید ہیں“۔ اچانک وہ صاحب جذبات میں آ کر نعرے لگانے لگے۔
”رضوی مارشل لا آوے ای آوے“۔

میٹرو بس کی تمام سواریوں کی توجہ ہماری طرف تھی۔ صاحب مذکور نے مسافروں سے پوچھا۔
”کیا آپ لوگ دین کی سربلندی چاہتے ہیں“؟

الحمد للہ! تمام مسافروں نے جوش ایمانی سے گواہی دی۔ صاحب اور بہادر ہوچکے تھے۔
”تو کہیے“!
یہ کہتے، انھوں نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔
”رضوی مارشل لا“۔
تمام مسافروں نے یک زبان ہوکر جواب دیا۔
”آوے ای آوے“۔

اب آپ سے کیا چھپانا؛ ”آوے ای آوے“ کا اتنا شور تھا، کہ میں بھی نعروں میں ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگیا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran