اسلامی نظریاتی کونسل اور کم عمری کی شادی


\"2015-09-28

طاہر احمد بھٹی

نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں ہمارے پہلے سمسٹر کی پہلی کلاس تھی اور ہمارے استاد جناب یاسر عرفات صاحب سے تعارفی گفتگو قدرے علمی رنگ اختیار کر گئی اور کچھ تفصیلی بھی۔ اس کی توقع ہمارے ہم جماعت خواتین و حضرات کو نہیں تھی تاہم انھوں نے اس کو تحمل سے سنا اور کلاس کے بعد ایک جھرمٹ سا اکٹھا ہوا اور کچھ تعریفی جملوں میں لپیٹ کر راقم کو صاحب علم کہنے پہ اصرار ہوا تو اس کی خفت اور ندامت کو زائل کرنے کے لئے ہم سے ایک جملہ سرزد ہوا۔ عرض کیا کہ جناب…. بس کریں آپ کی توصیف بے محل ہے۔ من آنم کہ من دانم۔ اس پہ ایک دوست نے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی ایسا صاحب علم نہیں ہوں البتہ آپ ضرورت سے زیادہ جاہل ہیں جو مجھ جیسے کو عالم قرار دینے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ یہ جملہ بالکل دوستانہ بے تکلفی سے تھا اور ہم نے اسے کبھی بھی ایک ہلکے پھلکے مزاح سے زیادہ نہیں جانا لیکن گذشتہ ایک عشرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے باوقار سابق و موجود سربراہان اور ممبران نے تو اس کا ایک سنجیدہ پہلو روشن کر دیا ہے۔
اول تو یہ کہ ارباب اختیار میں سے کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس کونسل کو ضیاالحقی نفاذ اسلام کے دنوں میں مولویان پاکستان کو سرکاری حیثیت دینے کے لئے گھڑا یا قائم کیا گیا تھا۔ اور اس وقت کی جہاد کی صنعت کے بانیان کو سماجی وقار دینے کے لئے ایک نمایاں اور دل کھینچ رنگ کی چھتری کے طور پر اسلام آباد کے میدان اقتدار کے دائیں طرف ایستادہ کیا گیا تھا اور اس کی عمر ضیائی اسلام اور جہادی ضروت تک ہی تھی۔
اس وقت پاکستانی معاشرہ مسلمان کی بجائے اسلام پسندی کے لئے جلدی مائل ہوتا تھا۔ لیکن اس کے ارکان نے کبھی بہتے پانیوں کے علوم اور فنون کو قابل اعتنا نہیں جانا۔ ٹوپیوں اور عماموں کی ریل پیل اور داڑھیوں اور تسبیح کے ظاہر میں اتنی ترقی ہوئی کی بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کے لئے بھی تسبیح ناگزیر ہو گئی۔ لیڈروں کے لڑکے البتہ بلا استثنا لندن اور امریکہ کی یونیورسٹیوں ہی سے حکومت کرنے کے اسرار و رموز سیکھتے رہے اور ان پر اسلامی نظریاتی کونسل کے کسی فیصلے کا اثر نہیں پڑتا تھا۔ انہوں نے ہی تو کالے شیشوں والی اور سبز جھنڈے والی گاڑیاں دینی ہوتی تھیں، اس کونسل کے معزز ممبران اور موقر سربراہان کو۔
ضیا دور گذر گیا…. نفاذ اسلام جو کبھی اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ہوتا تھا وہ وہاں تو نہ چل سکا اور جہاد بھی حکومتی سطح سے نیچے اتر کر پسماندہ علاقوں اور کم علم طبقوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسلام آباد کی موٹر وے اور بڑے شہروں کے بنگلے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔
اب اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس عیدیں ایک دن کرنے، خلع طلاق اور حلالوں پہ علمی نقطہ آفرینیوں اور احمدیوں کی جان مال اور وقار پر سیاسی سماجی اور آئینی ظلم کرنے کا کام باقی رہ گیا۔
اور کرنا وہ بھی نہیں آیا۔ جب شیرانی صاحب نے طاہر اشرفی کے کپڑے پھاڑے تو ایک شعر اور ایک تجویز آئی تھی۔ شعر یہ تھا کہ….
اٹھاکرتوڑڈالا آئینہ جوش رقابت میں
وہ کل اس بات پر بگڑے کہ ہم سا دوسرا کیوں ہے
یہ تو تھی کالموں اور تجزیوں کی باتوں میں سے ایک بات۔ اب آئیں کچھ کھرے سوالات کی طرف۔
جناب دور حاضر کی ہر بات ،علم اور طرز زندگی آپ کے فتووں کی رو سے اسلام کے منافی ہے۔
چھوٹی عمر کی شادی جو گھٹتے گھٹتے ظالمانہ عمر کو اور بعض علاقوں میں بچگانہ عمر کو پہنچ چکی تھی اس کے خلاف بل پیش ہوتا ہے پارلیمنٹ میں اور نظریاتی کونسل کہتی ہے یہ اسلام کے منافی ہے ۔ ماروی میمن الٹے قدموں پھر گئی ہیں کیوں کہ بھٹو صاحب مولویوں کے آگے پارلیمنٹ کے سقوط کی نظیر قائم کر کے دے چکے ہیں۔
کسی نے نہیں پوچھا کہ جناب مولانا قرآن کریم میں کہاں معین حکم ہے کہ شادی اس عمر کی کمترین حد سے فرض ہے؟
بالکل اسی مہینے جو وزیر اعظم کے ہاں رخصتی ہوئی وہ تو عمر کا مناسب حصہ تھا۔
تو کیا وہ غیر اسلامی تھا؟
سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی رخصتی جس عمر میں ہوئی آیا وہ اسلامی تھی؟
اور نوے فیصدی یہی عام عمر چل رہی ہے تو آپ اسلام کے نام پر ذاتی زندگی میں بن بلائے کیوں کود پڑتے ہیں۔ اور جس دن ان دو بزرگوں نے ہاتھا پائی کی تھی اس دن تو ان سے کہا جا سکتا تھا کہ…. \” آپ دونوں ہی گھر تشریف لے جائیں۔ہم آپ جیسوں کی رہنمائی کے بغیر ہی ٹھیک ہیں“۔
عجیب مخلوق ہیں آپ کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مکلف نہیں فرمایا اور آزاد رکھا ہے کہ موقع محل اور ضرورت زمانہ کے مطابق فیصلہ کریں وہاں آپ اپنی کونسل لے کے آجاتے ہیں۔
کوئی ان سے کہنے والا ہے کہ یہ اب اپنے لئے جاب ڈھونڈ لیں ۔ ہمیں اس نشست و برخاست کے حامل افراد کی اس ادارے میں ضرورت نہیں ہے۔ آپ عجیب لوگ ہیں کہ بن بلائے فتوی لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
نمل یونیورسٹی والے مذکورہ بالا جملے کا سنجیدہ اطلاق یہ ہے کہ یہ موجودہ حاملان اور شارحان احکام دین ایسے صاحب علم و فضل نہیں ہیں بلکہ ہمارے حکام اور ارباب اختیار اتنے اسلام اور دین سے نابلد اور بے حس ہیں کہ اس کی سزا اور عذاب کے طور پر اس کردار کے لوگ ان کی روحانی اور دینی راہنمائی کر رہے ہیں۔
میں پاکستان میں پچھلے تیس برس میں لا تعداد ایسے لوگوں سے مل چکا ہوں جو دہریہ ہو چکے ہیں یا منافق اور وہ سارے ایسی بے مغز موشگا فیوں ہی کا رد عمل ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل احمدی شہریوں کے لئے مخصوص رنگ کے لباس کی تجویز دے رہی ہے اور آج سے نہیں 1953 سے یہ ناقابل عمل واویلا سننے کو مل رہا ہے ۔ ذرا ہمارے علم میں اضافہ فرمائیے کہ یہ شناختی لباس غیر مسلموں کو پہنانے کا حکم دینا احکام قرآن اور سنت محمدیہ میں کہاں مذکور ہے ؟
اور اگر کہیں نہیں اور یقیناً کہیں نہیں تو آپ لوگ ہم پر اور پاکستان کے عوام پر نازی ہٹلر کے فیصلے اور ایک صدی قبل کی غیر انسانی جہالتیں مسلط کرنے پہ کیوں تلے ہوئے ہیں؟
اور کمزور اور کم سن بچیوں کی زندگیوں کو جہنم بنانے کے خلاف ریاست کا آئینی اقدام آپ کو غیر اسلامی کیوں لگ رہا ہے؟
ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ ان دینی اور نظریاتی قانون سازوں کا کوئی معین حل تلاش کر لیں ورنہ آج ایک ماروی میمن کو بل واپس لینا پڑا ہے ۔کل آپ کو انہیں پارلیمنٹ دے کے نہ جان چھڑانی پڑے اور یہ کوئی ایسا بعید از قیاس نہیں ہے۔
اوّل اوّل چلے منجملہ آداب جو بات
آخر آخر وہی تعزیر بنی ہوتی ہے

(فرینکفرٹ ۔ جرمنی میں طاہر احمد بھٹی سے tbhatti2300@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments