مذہبی ہم آہنگی اور رواداری وقت کی اہم ضرورت ہے



آئین کے آرٹیکل 20میں ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہے۔ ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے کا حق ہے۔ آئین کا یہ آرٹیکل قانون امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور ادارے قائم کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے اور کسی شخص یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے عقیدے پر اعتراض کرے اور اس کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے سے روکے۔

مزید یہ کہ کسی کو بھی اس بات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی خاص مذہب اختیار کرے یا اس کو چھوڑ دے اس آرٹیکل میں دیا گیا حق درا صل اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ریاست کا کام شہریوں کے عقائد میں دخل دینا نہیں بلکہ بلا امتیاز انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا اور ان کی بنیادی انسانی ضروریات اور ترقی کی ضمانت دینا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی ہولناک تباہ کاریوں کے بعد مغربی مملاک نے مستقبل میں امن اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جن میں اقوام متحدہ کے اداروں کا قیام، یو نیسکو کا منصوبہ، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور تباہ شدہ یورپ کے لیے مالی امدا کا مارشل پلان شامل ہے۔ یورپ میں اٹھارویں صدی میں شروع ہونے والی روشن فکری کی تحریک سوشلسٹ تحریک اور صنعتی انقلاب کے پیدا کردہ حالات اور حقوق کی صورت گری پر گہرے اثر انداز ہوئے۔ خرد افروزی یا روشن فکری کی تحریک ہالینڈ اور انگلستان سے شروع ہو کر سارے یورپ میں پھیل گئی تھی۔ اس تحریک کے مفکرین نے تما م نوع انسان کے ایک ہونے اور ایک جیسے ہونے کے تصوارات کو فروغ دیا اور یہ کہا کہ تمام انسان عقل اور حق کے ایک فطری قانون کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔

فرانسیسی انقلاب کے بعد فرانس کے بننے والے آئین اور امریکی دستور پر اس تحریک کے زیر اثر انسانی حقوق کا اعلامیہ شامل کیا گیا۔ یوں دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا اعلامیہ خرد افروزی کے تحریک کا نقطہ عروج تھا۔ تاہم یو نیسکو نے اس اعلامیے کی تیاری کے لیے تمام رکن ملکوں میں سوال نامے بھیجے تاکی مختلف معاشروں اور مذاہب میں انسانی حقوق کی تصوارات کی تحقیق کی جا سکے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کی جڑیں یورپ کی خرد افروزی سے بڑھ کر تمام عالمی مذاہب میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک آزادی کے دوران ایسے کئی مراحل آئے جب مجبوراً مظلوموں کو جدوجہد آزادی کی آبپاری اپنے خون سے کرنا پڑی۔ کیونکہ جہاد کے نام پر انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی گئی۔

لیکن جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو انتہا پسندی کی باقاعدہ شکل 1949میں قرارداد مقاصد کی شکل میں سامنے آئی۔ پھر 1956کا آئین قائداعظم کی 1948کی تقریر پر ایک کاری ضرب تھا کیونکہ قائداعظم کے واضح الفاظ کے مطابق مذہب کا ریاست میں کوئی عمل دخل نہیں لیکن آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا۔ اور رہی سہی کسر 1973کے آئین نے انتہا پسندی کے پودے کو تناور درخت بنانے نے کی۔ اس میں اسلام کو ریاست سرمایہ کاری کا مذہب قرار دیا اور احمدیوں کے غیر مسلم ہونے کا سرکاری اعلان کیا۔ انتہا پسندی کے اس تاریخی پس منظر میں سب سے اہم کردار جنرل ضیاء الحق کا ہے جس نے پاکستان کو ہتھیاروں کے استعمال سے متعارف کروایا۔ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اقتدار اور معاشرتی معاملات ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم میں سے اکثریت اپنی روزمرہ زندگی یا معاملات میں قانون اور اصول کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہم نے مذہب کی تعلیمات کو اپنا تابع بنالیا ہے اور چاہتے ہیں کہ ہر چیز ہماری مرضی اورمنشاء کے مطابق ہو، یہاں تک کہ دنیاوی قانون کو بھی ہم اپنی مرضی کے قانون میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلام کے علاوہ اور بہت سے عقائد کے پیروکار بستے ہیں۔ اگر کوئی کلاشنکوف کے زور سے آپ کو تبدیل کرتا ہے اور آپ کسی کے خوف کی وجہ سے اپنا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جو زیرو کی رفتار سے سفر شروع ہوکر مرحلہ وار آگے بڑھتا ہے۔ آپ میں اگر برداشت ہے تو کبھی ہو نہیں سکتا کہ انتہا پسندی آپ تک پہنچے۔ ہمارے ملک میں انتہا پسندی کے کئی واقعات رونما ہوئے۔

200 سے زائد فرقہ وارانہ حملوں میں 687 افراد مارے گئے۔ پشاور گرجا گھر پر خودکش حملے میں 100 سے زائد مسیحی ہلاک ہوئے اور لاہورمیں مسیحی آبادی پرحملہ کرکے 100 سے زیادہ گھر جلا دیے گئے۔ 7 احمدی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ تضحیک مذہب سے متعلق قانون کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ 1927 سے 1985 تک تضحیک مذہب کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 1985 میں اقلیت دشمن قانون سازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1985 سے اب تک تضحیک مذہب کے 40000 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اقلیتی عورتوں کی جبری شادی و تبدیلی مذہب پرقانون سازی نہیں ہوئی۔ اس کے لیے رائے عامہ ہموارکرنے اور لابی کرنے کی ضرورت ہے۔ 91 امدادی کارکنوں کو نشانہ بنا کرمارا گیا۔ لال مسجد کے واقعہ نے ہمارے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے ان واقعات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ بین الاقوامی برادری میں ہمارے لیے یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ ہم اس قدر انتہا پسند ہیں کہ ہمیں مرنے اور مارنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں آتا۔ ہم جہاد کے نام پر سب کچھ کررہے ہیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف سنسنی پھیلانے کے لیے ایسی خبروں کو نہ دکھائے اور پھیلائے جس سے پاکستان کے تشخص اور معیشت کو نقصان پہنچے کیونکہ بولنے کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میڈیا بہت حساس موضوعات کو بھی بڑھا چڑھا کرپیش کرے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کچھ پروگرام دکھائے اور مہمات چلائے تاکہ انتہا پسندانہ رویوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور توجہ طلب ہے۔ دیگروجوہات کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پامالی کرنے والے انسانی حقوق کے محافظین سے زیادہ منظم ہیں اورتعداد میں بھی زیادہ ہیں۔ سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں عوام کواپنے ساتھ ملائیں اورزیادہ منظم انداز میں تگ و دو کریں۔ عوام کی جرات کے بغیر اس تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔ عوام کو فروعی معاملات کی بجائے اپنے حقیقی مسائل پر سوچ بچارکرنے پرقائل کرنا چاہیے۔ انہیں حقوق کے متعلق حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ ملکی وسائل کے استعمال پرنظررکھنا بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کے وسائل کہاں خرچ کیے جا رہے ہیں اوریہ کہ وہ صرف ان کی فلاح و بہبود پر ہی صرف ہونے چاہئیں۔ ریاست کے ساتھ کشیدگی کی فضا قائم کیے بغیر قانون کے اندر رہتے ہوئے اس پر حقوق کے تحفظ کے لیے دباؤ ڈالا جائے اور ملکی وبین الاقوامی سطح پر ہم خیال لوگوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ کی جائے۔ سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال میں اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کے دیگربین الاقوامی اداروں کی مداخلت بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ ریاست کو حقوق کے تحفظ کے لیے حقیقی معنوں میں بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).