دبئی میں مست مست سے چوک یتیم خانہ کے پیر گود ہری صاحب تک


سب کہتے ہیں دبئی رہنے والے اوورسیز پاکستانی کہلانے کے حقدار نہیں۔ نہ تو سمندر پار ہوتا ہے اور نہ ہی کلچے ملنے میں کسی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ ارد گرد بھی سب اپنے جیسے اپنی شکلوں کے۔ ہاں زبان کا مسئلہ یہاں بھی ہے کہ اپنی زبان بھلانا ہی اسٹیٹس سمبل ہے۔ انگریزی کو ہی عام رابطے کی زبان جانئے۔ لیکن اپنا ملک کون سا کم ہے۔ لہذا فرق بس انیس بیس کا ہی ہے۔ یہاں گرمی ٹکا کے پڑتی ہے اور لاہور میں لوڈ شیڈنگ۔ زیادہ فرق نہیں۔ یہاں بیگم صاحبہ بن کر پیر پسارنے میں بھی زیادہ پیسہ نہیں چاہئیے۔ ملازم آسانی سے مل جاتے ہیں۔ انگریزی میں گٹ پٹ کرتے ہیں اور دیسی نخرا بھی نہیں دکھاتے۔ آلرائٹ قسم کا سین ہے۔

لیکن کچھ بے کلی سی ہے۔ اکثر اوقات جی چاہتا ہے سب چھوڑ کر بھاگ جاوں اور کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھوں۔ اپنے ملک کے عیش انجوائے کروں۔ چار دن کی زندگی ہے۔ دو آرزو اور دو انتظار میں گزرے تو تف! بعض دفعہ بسوں میں پھر پھر کر جی اوبھنے لگتا ہے۔ بسا اوقات وہ وقت یاد آتا ہے جب اپنے ملک میں گاڑی کا دروازہ کھولنے پر بھی کوئی مامور تھا۔ نوکری حاصل کرنے کے لئے وہ جوتیاں نہ چٹخائی تھیں جو یہاں بیسیوں توڑنے پر بھی کسی نے درخور اعتنا نہ جانا۔ سارا دن خاموشی سے دل گھبرائے تو چھوٹی بہن کے شگوفے اور لڑائیاں یاد آنے لگتی ہیں۔ جب اپنا آپ کسی عرب یا انگریز سے کمتر لگتا ہے تو شدت سے اپنے ملک میں اپنی چودہراہٹ یاد آنے لگتی ہے۔ اپنے ملک کے شیخ تو ہم ہی تھے۔ یہاں جوس کا ڈبہ پھینکا، وہاں ٹریفک کا سگنل زناٹے سے توڑا۔

 پر مرشد ہن اوہ گلاں نئیں رئیاں

شکر ہے فلائٹ تین گھنٹے کی ہی ہے۔ اتنا ٹائم تو موٹر وے پر لاہور سے پنڈی پہنچنے میں بھی لگ جاتا ہے۔ آنکھ بھی نہیں لگتی اور لاہور آ جاتا ہے۔ عید شبراتوں کے علاوہ شادی بیاہ پر بھی چکر لگتا رہتا ہے۔ سال میں کم سے کم چار بار تو کہیں نہیں گیا۔ یہ فائدہ تو ہے نا پھر دبئی کا۔

فلائٹ لینڈ کرتے ہی مجھے اپنے ملک کی خوشبو آ جاتی ہے۔ کھڈے، مٹی، ٹریفک کسی چیز سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ فضا کی اپنائیت ہی سیر کر دیتی ہے۔ خیر صاحب گھر پہنچتے ہیں اور اٹیچی کیس کھلنے کے بعد رشتے داروں کی آمد کا سلسلہ بندھ جاتا ہے۔ کبھی تحائف کو پرکھا جاتا ہے اور کبھی مرعوبیت سے ہمارے بیگ کو جانچا جاتا ہے۔ کچھ ہی دن میں سب لائن پر آ جاتا ہے۔

‘شادی کو اتنا عرصہ ہوا ابھی تک بچہ نہیں ہوا؟’

‘علاج کرایا؟’

‘تم ڈائٹنگ کرتی رہتی ہو نا۔ جب ہی ابھی تک کوکھ ہری نہیں ہوئی۔ کھایا پیا کرو نا۔’

‘ہماری بھی ایک بھابھی کی اولاد نہیں تھی۔ چوک یتیم خانہ میں ایک پیر صاحب بیٹھتے ہیں۔ ان کی دعا سے آج بھابھی کے چار بچے ہیں۔ میں لے چلوں گی۔’

‘ ہائے سارا دن اکیلی کیا کرتی ہو؟ دل تو گھبراتا ہو گا۔ بچے کے بغیر عورت کی زندگی تو نامکمل دائرہ ہے۔’

‘اللہ دے تو داتا صاحب دیگ چڑھا آنا۔’

جتنے منہ اتنی باتیں۔ منہ بھی بڑھتے رہتے ہیں اور باتیں بھی۔ ایک حیرت اولاد کا نہ ہونا اور دوسرا مسئلہ مجھے اس کی تکلیف نہ ہونا۔ واقعی ملک کے اہم مسئلوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اس پر بھی جے آئی ٹی بٹھائی جائے۔

یوں آپ کی بہن کا پاکستان آنے کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے اور دبئی شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ لوگ واپسی پر اداس ہوتے ہیں اور ہم تب تک اس قدر نکوں نک ہو چکے ہوتے ہیں کہ آئندہ جلدی نہ آنے کی منت باندھ بیٹھتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ برین ڈرین کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ واقعی ہمارا برین بھی اس قدر ڈرین ہوتا ہے کہ سوچتے ہیں بسوں میں چڑھنا ہر کسی کو اپنے سر چڑھانے سے بہتر ہے۔ اے سی سے ہی دل کو ٹھنڈا رکھ لیتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اپنے گھر کے کام میں بھی کیا برائی ہے؟ کر لیں گے مینج بی بلی کے بغیر ہی۔ لنڈورا پھرنے کا بھی اپنا ہی چسکہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).