!وسائل بڑھائیے‘ مسائل نہیں


اگر پیسے موجود ہوں تو انسان کچھ بھی خریدتے ہوئے ہمیشہ اپنے لیے بہترین چیز کا انتخاب کرتا ہے۔ جس وقت جاپانی گاڑیاں مارکیٹ میں نہیں آئی تھیں‘ اس وقت امریکن گاڑیوں کی بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی۔ اس سے پہلے جرمن گاڑیاں سوپر ہٹ ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے کتنے جاننے والے ہوں گے جنہوں نے کبھی روسی یا چینی گاڑی خریدی ہو؟

شاید بہت ہی کم، اس کی وجہ کیا ہے؟ بندہ ہمیشہ اپنے لیے وہ گاڑی خریدتا ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ یار جتنے پیسے میں بھر رہا ہوں، یہ کار اتنی رقم میں سب سے بہترین ہے۔ موٹر سائیکلوں میں بھی ایک عرصے تک یہی حساب تھا، اٹلی کا سکوٹر اور جاپان کی موٹر سائیکل چھائے رہتے‘ اگر لوکل مینوفیکچرنگ شروع نہ ہوتی۔ اس کے باوجود اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو موٹر سائیکل آج بھی آپ جاپانی ہی لینا پسند کریں گے۔

ایک کمپنی بہترین صابن بناتی ہے۔ وہ صابن ملک بھر میں دھڑا دھڑ بکتا ہے۔ ان لوگوں نے ایک اور فیلڈ میں انٹری مارتے ہوئے ٹوتھ پیسٹ بنا لیا۔کیا وہ کسی چھوٹے موٹے اخبار میں اپنا اشتہار چھپوائیں گے یا مین سٹریم نیوز پیپر کو پکڑیں گے؟

اسی طرح اگر ٹی وی پہ ایڈ چلوانا ہو گا تو بھی ایک اچھی کمپنی کسی صورت چھوٹے کیبل والے چینلز یا لوکل چینلز پر پیسے ضائع نہیں کرے گی۔ وہ اپنا اشتہار صرف تین چار بڑے سیٹلائیٹ چینلز پر چلوائیں گے کیونکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ دس ہزار میں چلایا گیا اشتہار شاید سو گاہک لے آئے لیکن پانچ لاکھ میں چلایا گیا اشتہار یقینی طور پہ ہزاروں گاہک پیدا کرے گا۔ وہ ایسا صرف اس لیے کریں گے کہ کیبل چینل ایک مخصوص علاقے میں چلتا ہے جبکہ سیٹلائیٹ چینلز وہاں بھی دیکھے جا رہے ہوں گے جہاں ٹوتھ پیسٹ بیچنے کا ابھی کمپنی پروگرام بھی نہیں رکھتی۔

دو جگہ چاول چھولوں یا دال چاول کی ریڑھی لگی ہوئی ہے۔ ایک جگہ پلیٹ پچاس روپے کی ہے لیکن بہت ہی بے سرا قسم کا ذائقہ ہے۔ چاولوں کی مت ماری ہوئی ہے، بالکل جڑے ہوئے، دال اور چنے بھی بالکل بے سوادے ہیں۔ دوسری ریڑھی والا اتنی ہی پلیٹ اسی روپے کی دیتا ہے لیکن اس کے چاولوں کا ایک ایک دانہ الگ نظر آ رہا ہے، اس کے بنائی دال دور دور تک اپنے مصالحے کی خوشبو پھیلا رہی ہے، عام کھانے والا کیا کرے گا؟ وہ تیس روپے اوپر خرچ کر لے گا لیکن اچھا کھانا معدے میں اتارنا پسند کرے گا۔ پچاس روپے دے کے بھی اگر بندہ آدھی پلیٹ واپس کر دے یا کھانے کا مزہ نہ آئے تو کیا فائدہ؟

ابا پچھلے برس بیمار تھے۔ دل کی تکلیف ہوئی، ہسپتال داخل ہوئے، پہلے اڑتالیس یا بہتر گھنٹے کریٹیکل ہوتے ہیں۔ الحمدللہ وقت گزر گیا۔ بعد میں انجیوگرافی ہوئی تو معلوم ہوا کہ سٹنٹ ڈالنے ہیں۔ اب ہوتا یوں ہے کہ عام طور پہ مریض اندر ہی ہوتا ہے اور باہر موجود لواحقین سے پوچھا جاتا ہے کہ ہاں بھئی کون سے سٹنٹ ڈلوائیے گا؟

سٹاف آپ کو پوری کیسٹ سنا دیتا ہے کہ فلاں سٹنٹ اس ملک کا ہے فلاں وہاں کا ہے، سب سے اچھا جو ہے وہ یہ والا ہے اور اس کی پرائس اتنی ہے۔ ظاہر ہے سب سے اچھے والا دام میں بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹرز کی پروفیشنل ایمانداری ان کے ساتھ ہے لیکن اگر کسی کا باپ، بھائی، ماں، بہن، بھائی، بیٹا یا بیوی آپریشن تھیٹر میں ہو تو وہ کیا کرے گا؟ وہ ہر ممکن کوشش میں ہو گا کہ جو بیسٹ پاسیبل علاج ہے اسے ترجیح دے۔ یہی کیا گیا۔ سب سے مشورہ کیا اور ان سے کہہ دیا کہ بھئی وہ جو سب سے اچھے والے ہیں وہ سٹنٹ ڈال دیں۔ صد شکر کہ اب والد صاحب نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ ان کو بھی اور ان کی آل اولاد کو بھی یہ سکون ہے کہ جو سب سے بہتر ممکن تھا وہ علاج کروا لیا گیا۔

یہ سارا چکر کیا ہے؟ عام آدمی مہنگائی کا رونا ہر وقت روتا ہے لیکن موٹر سائیکل جاپانی لے گا، گاڑی کی اوقات مالک نے بنا دی تو وہ بھی جاپانی لی جائے گی چاہے اس سے بہت کم پیسوں میں چینی گاڑی ملتی ہو۔ دال چاول تیس روپے زیادہ بھر کے کھائے گا لیکن اچھی چیز پیٹ میں ڈالے گا۔ کمپنیاں ہر وقت پیسے بچانے کو پیٹتی ہیں لیکن جب اشتہار بازی کریں گی تو مہنگے ترین میڈیا پہ بجٹ خرچ ہو گا۔ سب کو چھوڑیں ہم لوگ خود دودھ اور دہی وہاں سے لیتے ہیں جہاں بیس روپے مہنگا ملتا ہو لیکن ہمیں یقین ہو کہ یہ تقریباً خالص ہو گا اور ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ معاملہ یوں ہے کہ ہم اپنے آرام اور سکون کے لیے معیار کو پیسوں پہ ترجیح دیتے ہیں۔ ہم سستی چیز اس لیے نہیں خریدتے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے‘ یہ ٹھیک ٹھاک رول دے گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ خالص بھی نہ ہو۔

جب کوئی بیمار انسان سرکاری ہسپتال جاتا ہے تو اس کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہے کہ وہ بیسک ہیلتھ کیئر افورڈ نہیں کر سکتا اور مجبوری کے عالم میں اپنی صحت کا اختیار حکومتی بجٹ سے چلنے والے ادارے کو بخش رہا ہے۔ دنیا کی ہر بدنامی سرکاری ہسپتال سے جڑی ہوتی ہے۔ وہی سب کچھ پرائیویٹ علاج میں ہو گا تو چھپ جائے گا لیکن سرکاری ہسپتال میں کہیں غلطی ہوئی نہیں کہ میڈیا سر پہ نظر آتا ہے۔ ان ہسپتالوں میں دوائیں ٹینڈر سے خریدی جاتی ہیں۔ نیلامی سمجھ لیجیے۔ عام طریقہ یہ ہے کہ جو کمپنی سب سے کم بولی دے گی دوا سپلائے کرنے کا ٹینڈر اسے مل جائے گا۔

اب ایک دوا وہ ہے جو کسی کمپنی کی ایجاد ہے۔ ان لوگوں نے سالہا سال ریسرچ کی، تجربات کیے، اس کے بعد وہ دوا بنا دی۔ اس دوا کا فارمولا پندرہ سال تک ان کے پاس رہتا ہے اس کے بعد دوسری کمپنیوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اسی فارمولے پہ دوا بنا لیں، یہ دنیا بھر میں رائج اصول ہے۔ ہوا یوں کہ ان پندرہ برس میں کمپنی کے پاس دوا کے سائیڈ ایفیکٹس اور اس کے اثر کا ایک اچھا خاصا ڈیٹا جمع ہو گیا۔ جس کمپنی نے دوا بنائی وہ پندرہ سال بعد مکمل تحقیق اور تجربات کی روشنی میں اپنی دوا بیچ رہی ہو گی۔

وہ اب بہتر جان گئی ہو گی کہ اسے دواسازی میں کیا احتیاطیں کرنا ہیں مثلاً کس ٹمپریچر پہ رکھنے سے دوا بہترین نتائج دیتی ہے، سائیڈ ایفیکٹس کیسے کنٹرول ہو سکتے ہیں وغیرہ۔ پندرہ سال پورے ہوتے ہی جو نئے بنانے والے آئے انہوں نے فارمولا اٹھایا، کسی بھی ایسے ملک بھیجا جہاں سستا خام مال ہو اور دوا بنوا لی۔ را میٹریل ڈرموں میں فیکٹری آ گیا، یہیں گولیاں بنیں پیکنگ ہوئی، آگے بیچ دی اللہ اللہ خیر سلا۔ دنیا بھر میں ایک اصطلاح ہوتی ہے بائیو ایکولینس، یعنی اگر بعد میں بنانے والی کمپنی کی دوا اتنے اچھے سٹینڈرڈ پہ بنی ہے کہ اس کا ہر بیچ اوریجنل مالیکیول (اصل دوا) کے برابر اثر رکھتا ہے تب اسے قابل غور سمجھا جاتا ہے ورنہ السلام علیکم!

عمران خان گزشتہ دنوں ایک جلسے میں پنجاب سے موازنہ کرتے ہوئے فخریہ کہہ رہے تھے کہ خیبر پختونخوا حکومت سستی دوائیاں لیتی ہے۔ تو یہ نارمل بات ہے، یہ تو وہ ہے جو ہوتا آ رہا تھا بھائی۔ وجہ اب ہمیں معلوم ہو گئی کہ اگر ہیلتھ کیئر پہ کمپرومائز کرنا ہے، کم قیمت دوائیاں اور مشینیں لینی ہیں، معیار نہیں دیکھنا، صحت کا بجٹ کم سے کم رکھنا ہے تو بسم اللہ، سستی دوائیاں خرید لیجیے۔ نیا کیا ہوا؟

نیا یہ ہوا کہ پنجاب حکومت نے اس بار بہت سی دوائیں ان کمپنیوں سے خریدی ہیں جو دنیا بھر میں تحقیق اور نئی سے نئی ایجاد کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اوریجنل مالیکیولز (اصل دوا) بناتی ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ملک میں ان کی دوا بکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں جن سے دوائیں خریدی گئیں اکثر ورلڈ رینکنگ میں ان کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ اس کے برعکس ادھر پنجاب میں دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیوں کو ترجیح دی گئی۔ بجٹ بڑھایا گیا اور ایسی دوائیں خریدی گئیں جو اثر میں بہترین ہوں۔ کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی سٹینڈرڈز پہ پورا اترا جائے۔ یہ سب ڈیٹا حکومت کی ویب سائٹ پہ چیک کیا جا سکتا ہے۔

جیسے کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں ویسے سیاست کے بھی اصول ہمیں یاد رکھنے چاہئیں۔ لڑنے کے لیے وہ میدان چنا جائے جو آپ کا اپنا ہو۔ میٹرو کے چکر میں پڑنا یا دواؤں کی قیمت کا مقابلہ کرنا یہ سب غیر ضروری چیزیں تھیں۔ پشاور کی ایک مین سڑک تھی اسے اطراف سے کھلا کر دیتے اچھی بسیں چلا دیتے، کام ختم ہو جاتا، وہی پیسہ صحت کے بجٹ میں لگ جاتا۔ وسائل بڑھائیے، مسائل نہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain