….وزارت خارجہ کی دس روز بعد انگڑائی جب


سنا ہے کہ ”اسلامی“ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان ایک جمہوری مملکت بھی ہے۔ ریاستی کاروبار اس مملکت میں باقاعدہ تحریر ہوئے ایک آئین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ اس آئین نے عام انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی کو اپنے اراکین میں سے کسی ایک کو وزیراعظم منتخب کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد یہ وزیراعظم ریاست و حکومتِ پاکستان کا ”چیف ایگزیکٹو“ بن جاتا ہے۔

ہماری ریاست کے تمام، دائمی اور غیر دائمی، ادارے اس کی طے شدہ پالیسیوں اور دی گئی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ ریاستی اداروں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ وزیراعظم کی جانب سے کئے اقداما ت کی وضاحت کرےں۔ ان کا دفاع کریں یہ کالم یہاں تک پڑھنے کے بعد آپ نے ابھی مجھے ”چل جھوٹا“ نہیں کہا تو آپ کی مہربانی۔

یقیناً وزیراعظم اس ملک میں قتل کے الزام میں مجرم ثابت ہوکر پھانسی لگائے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق غیر ملک کو سرکاری چٹھی لکھ کر اپنے ہی صدرِ مملکت کے بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات معلوم نہ کریں تو توہینِ عدالت کے مجرم ٹھہرا کر اپنے عہدے کے لئے نااہل قرار پاتے ہیں۔ حال ہی میں پانامہ دستاویزات کے منکشف ہوجانے کے بعد بھی ایک طوفان اٹھا تھا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کا ذکر بالواسطہ انداز ہی میں سہی ان دستاویزات میں ہوا تھا۔ بہت شور شرابے کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت اس معاملے کے بارے میں حقائق جاننے پر مجبور ہوئی۔

ان حقائق کی کھوج کے لئے اس نے ایک 6 رکنی JIT بنائی۔ اس ملک کا نام نہاد ”چیف ایگزیکٹو“ گریڈ 19سے 20 تک کے افسران پر مشتمل اس کمیٹی کے روبرو مجرموں کی طرح پیش ہوتا رہا۔ بالآخر ”اقامہ“ دریافت ہوگیا۔ وزیراعظم اس کی وجہ سے ”نااہل“ ٹھہراکر گھر بھیج دیا گیا۔ ان دنوں نااہل ہوئے نواز شریف احتساب عدالتوں کے روبرو اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔

ایک حوالے سے ذرا منطقی ذہن کے ساتھ سوچیں تو ہمارے وزرائے اعظموں کے ساتھ ہوا یہ سلوک پاکستان کو باقی دنیا کے لئے ایک جدید ترین جمہوری مملکت بناکر پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی مملکت جس کا ”چیف ایگزیکٹو“ آمر مطلق نہیں۔آئین کے تابع ہے اور اپنی ذات کے بارے میں اٹھائے سوالات کا قانونی طورپر بنائے اداروں کے سامنے جواب دینے پر مجبور۔

قنوطی ذہن البتہ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں کہ فقط وزیراعظم ہی کے ساتھ ”قانون سب کے لئے یکساں“ والا رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے۔ اس ”سہولت“ کا ان آمروں پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ جو آئین کو معطل کرکے اپنے لئے کن فیکون والے اختیارات حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ سے آئے ایک فون سے گھبرا کر اس ملک کی مسلط کردہ ”وارآن ٹیرر“ میں دل وجان سے حصہ لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

ان کے ایسے فیصلوں کی بدولت پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے جو مصیبت نازل ہوتی ہے، اس کا حساب لینے کی جرا¿ت کیوں نہیں دکھائی جاتی۔ اس ضمن میں تھوڑی جرا¿ت آزمائی جائے تو ”کمر کا درد“ نکل آتا ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نظر نہیں آتا۔ اس درد سے نجات حاصل کرنے کے لئے دوبئی کے ڈانس کلبوں میں جانا ضروری ہو جاتا ہے۔

جان کی امان پاتے ہوئے دست بستہ یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ میرا ذہن ہرگز قنوطی نہیں۔ ”رب نیڑے یا گھسن؟“ والی حقیقت میرے ذہن کو بے ہودہ سوالات اٹھانے اور ان کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی۔ پردہ داری بھی لیکن ایک شے ہوا کرتی ہے۔ وزیراعظم پر اگر ہمارے تحریری آئین نے ”اس ملک کا ”چیف ایگزیکٹو“ ہونے کی تہمت لگا ہی دی ہے تو اس تہمت کا بھرم بھی رکھنا چاہیے۔ اگرچہ کامل جھوٹ اور منافقت پر مبنی اس تہمت کا بھرم رکھنا اب ناممکن نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔

میری بات کا اعتبار نہیں تو ذرا وقت نکال کر اپنا کمپیوٹر کھولیں۔ اس کے سرچ انجن میں جائیں اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹس پر چلے جائیں۔ وہاں آپ کو وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی 22 مارچ 2018 کے روز ہوئی بریفنگ کی تفصیل مل جائے گی۔ اتوار کی صبح 8:45 کے وقت میرا یہ کالم لکھنے سے قبل اس بریفنگ کا ”ریکارڈ“ موجود تھا۔ میرا یہ کالم چھپنے کے بعد اسے Editیا Delete بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ کے رعونت کے مارے بابو یہ زحمت اٹھانے کا تردد نہیں کریں گے۔

22 مارچ 2018 کی بریفنگ کا اصل مقصد بھارت کی جانب سے پاکستانی زائرین کو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی مذمت تھا۔ اس کے علاوہ دیگر امور کا ذکر کرتے ہوئے اچانک وزارتِ خارجہ کے ترجمان کو یہ بھی یاد آ گیا کہ چند روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم ایک ”نجی دورے“ کے لئے امریکہ میں موجود تھے اپنے وہاں قیام کے دوران ان کی امریکی نائب صدر کےساتھ واشنگٹن میں لیکن ایک ملاقات بھی ہوگئی۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ اگست2017 میں ا مریکہ کی جانب سے جنوبی ایشیاءکے بارے میں اس کی اعلان کردہ پالیسی کے بعد امریکی نائب صدر سے پاکستانی وزیراعظم کی یہ دوسری ملاقات تھی۔

اس ملاقات نے دونوں راہنماﺅں کو باہمی تعلقات، علاقائی صورتِ حال اور افغانستان کے امورپر تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا۔ اس تبادلہ خیال کو وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے دونوں ممالک کے درمیان اعتمادو تعاون بڑھانے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ”اہم“ بھی قرار دیا۔ یاد رہے کہ وزارتِ خارجہ کی بریفنگ کے تقریباًََ آٹھ روز قبل مذکورہ ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے ختم ہونے کے فوری بعد وائٹ ہاﺅس سے اس کے بارے میں ایک چار سطری بیان بھی جاری ہوا تھا۔

اس بیان میں Do Moreکا تقاضہ ہوا۔ یہ بیان جاری ہونے کے تقریباََ 3گھنٹے بعد جنوبی ایشیاءپر نگاہ رکھنے والے دو امریکی حکام نے واشنگٹن میں موجود صحافیوں کو پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ پیغامات بھیجنے کے لئے بریفنگ کے نام پر اپنے ہاں بلایا۔ ہماری وزارتِ خارجہ مگر شرماتے لجاتے یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ مذکورہ ملاقات کے بارے میں بے خبر ہے۔

اہم ترین تاثر اس کے بابوﺅں نے سرگوشیوں کے ذریعے یہ بھی پھیلایا کہ اس ملاقات کے دوران پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری افسر تاریخ کے لئے Note Takingکے لئے موجود نہیں تھا۔ امریکی نائب صدر کی بات چیت مگر ایک امریکی Note Takerنے ریکارڈ کا حصہ ضروربنائی۔ پاکستانی وزیراعظم اور امریکی نائب صدر کے درمیان ہوئی ملاقات کے بارے میں ہماری وزارتِ خارجہ کی خاموشی پراسرار تھی۔

سرگوشیوں میں اس خاموشی کو مزید پراسرار Whatsapp گروپوں کے ذریعے یہ بات پھیلاکر بنا دیا گیا کہ شاید شاہد خاقان عباسی امریکی حکام کو ہماری عسکری قیادت کے بارے میں بدظن کرنے کے مقصد سے ملے تھے۔انگریزی محاورے والا Damage بھرپور انداز میں ہوجانے کے 10روز بعد وزارتِ خارجہ کے ترجمان 22 مارچ کو لیکن ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ مذکورہ ملاقات میں واشنگٹن میں تعینات پاکستان کے دفاعی مشیر Note Taking کے لئے موجود تھے۔ یہ ملاقات لہذا ”خفیہ“ ہرگز نہیں تھی۔

امریکی نائب صدر اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا ریکارقصہ مختصر ہمارے دائمی اداروں کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ہمارے ”آزاد“ صحافی مگر مطمئن نہیں ہوئے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کو یاد دلایا گیا کہ ”ماضی میں وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے بھی امریکی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کیں تو انہیں اپنے منصب سے ہٹادیا گیا تھا۔ کیا ایسا ہی واقعہ اب موجودہ وزیراعظم کے ساتھ ہوگا؟“

ایک اور ”آزاد“ صحافی نے وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے یہ بھی جاننا چاہا کہ پاکستانی وزیراعظم کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کا ”خفیہ ایجنڈا“ کیا ہو سکتا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان سوالات کا جواب دینا مناسب ہی نہ سمجھا۔ محض پاکستانی Note Takerکی موجودگی کی اطلاع دی۔ ان سے ہوئے سوالات مگر اب ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا بتائیں کہ اگر کوئی غیر ملکی ہماری وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹس پر جاکر 22مارچ 2018کی بریفنگ کو غور سے پڑھ لے تو کیا اسے آئین اور قانون کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کہلاتے وزیراعظم کی اصل اوقات سے کامل آگاہی نہیں مل جائے گی؟

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).