موت کی کہانی، روح کی زبانی


میں اپنے دونوں بچوں کو لے کر ایک کھلی جگہ پر بیٹھی تھی۔ وہ کوئی اونچا سا مقام تھا۔ شاید کسی عمارت کی چھت تھی جس کے کونے پر دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ کمرے کی اونچی دیواروں کے درمیان گھر کے ضروری اور غیرضروری سامان کے ساتھ ساتھ، میری بوڑھی ماں کا قیمتی وجود بھی تھا۔ کمرے سے باہر پھیلے دن کے اجالے میں، اپنے بچوں کی مسکراتی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، میں ان کی بے تکی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔ بیٹی کو گدگدی کرکے ہنساتی تو کبھی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر شوخی سے اس کے بال بگاڑتی۔ کون کون سے قصے تھے بچوں کے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں بیٹھے بیٹھے تھک گئی تو دیوار سے ٹیک لگا کر پاؤں پھیلا لیے۔ بیٹی موقع پاتے ہی میری گود میں آکر لیٹ گئی۔ میں نے اسے آغوش میں چھپا لیا، اور رب کائنات سے دعا کی کہ میری عمر بھی انہی کو لگ جائے۔ راتوں کی تنہائی بھرے کرب سے بے دار ہوکر یہ بچے میری اہم ترین مصروفیت تھے۔ دعا کرتی کہ ان کی ہر تکلیف کے آگے میں بھی ایسے ہی ڈھال بن جاؤں جیسے میری ماں ساری عمر میری ڈھال بنتی چلی آئی۔

وہ ایک ہولناک شام کا جھٹپٹا تھا۔ ہوا معمول سے زیادہ تیزتھی۔ اچانک دھول مٹی بھی اُڑنے لگی۔ میں نے کمرے میں چلنے کے لیے بچوں سے اصرار کیا، لیکن بچے باہر ہی بیٹھے رہنے کی ضد پر اَڑے رہے۔ موسم کے تیور بدلتے گئے اور میرے دل میں ان جانی سی بے چینی کا غلبہ ہونے لگا۔ میں نے خود کو بچوں کی بے تکی باتوں میں گم کرنا چاہا لیکن بے سود! میرا دل چاہا کہ میں امی کے پاس جاکر بیٹھ جاؤں۔ بچوں کو بہلا کر اٹھنے ہی والی تھی کہ دودھیا رنگ کا دھواں چاروں اطراف سے نمودار ہونا شروع ہو گیا۔ میں اور بچے ہڑبڑاکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایسا دھواں تو زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند سیکنڈ میں وہ دودھیا دھواں ایسا پھیلا کہ آگے بڑھنے کے تمام راستے بند ہوگئے اور ایک قدم اٹھانا بھی مشکل ہوگیا۔ بچے میری ٹانگوں سے لپٹے رونے لگے۔ میں ان کو گھسیٹتے ہوئے اندازے سے ہی امی کے کمرے کی طرف بھاگی۔ کمرے میں امی خود پریشانی کے عالم میں کھڑکی سے جھانک رہی تھیں۔

سب حیران تھے، سمجھ سے باہر تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ ابھی اسی گومگو میں تھے کہ خوف ناک آوازیں آنے لگیں، یوں جیسے بہت سارے بھوکے شیر یا بھیڑیے مل کر دہاڑ اور غُرا رہے ہوں، یا پھر جیسے بہت سے خوں خوار جانور آپس میں لڑ رہے ہوں۔ میں کمرے کا دروازہ بند کرکے امی کے پیچھے کھڑی ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ تیز ہواؤں کا زور کھڑکی کے شیشے اور کمرے کے دروازے توڑنے کے لیے بے چین تھا۔ خوف زدہ بچے میرے بازوؤں کے حلقے میں سہمے ہوئے کلیجے سے لگے تھے۔ کچھ ہی دیر میں دھواں چھٹنے لگا اور شیشے سے باہر کی دنیا ذرا ذرا نمودار ہوئی۔ اتنی کہ اب باہر کا خو ف وہراس واضح محسوس کیا جارہا تھا۔ لوگ کچھ دیر پہلے جہاں تھے وہیں گر کر ختم ہو چکے تھے۔ ذرا فاصلے پر کئی دہائیوں سے ایستادہ بوڑھے درختوں نے گِر کر کتنی ہی گاڑیوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا، شہر روشنی سے اور سڑکیں سائن بورڈز سے محروم ہو چکی تھیں۔ بجلی کے تار گر چکے تھے، سارا نظام درہم برہم تھا۔ کچھ دیر پہلے والی زندگی کے آثار اب کہیں باقی نہ تھے۔ میں اور امی صدمے اور حیرت سے آنکھیں پھاڑے باہر دیکھ رہے تھے کہ میری چیخ نکل گئی۔ امی ی ی ی ی ی ی۔

آنکھوں کے عین سامنے شہر کا سارا سمندر اپنی حدود توڑ کر آبادی پر چڑھتا چلا آرہا تھا۔ اب بچاؤ کا راستہ کوئی نہ تھا۔ ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ رہی تھی۔ سمندر زمین کو ساتویں تہہ تک کھود چکا تھا۔ روتے ہوئے میں نے بچوں کو خود سے لپٹا لیا۔ امی نے اونچی آواز میں کلمہ پڑھتے ہوئے سختی سے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ سمندر تو سمندر تھا! بپھرا ہوا طوفان جیسے ہی عمارت سے ٹکرایا، عمارت ایسے مڑ کر جھک گئی جیسے کوئی لچک دار شاخ ہو۔ جن بچوں سے ہر غم کے آگے ایستادہ رہنے کے پیمان باندھے تھے وہ تو میرے ہاتھوں سے چھٹ کر دیواروں سے ٹکرا کر میرے سامنے ہی ختم ہوچکے تھے۔ امی نہ جانے کہاں جا چکی تھیں اور میں! زندگی کی کھوجانے والی آس کو پکڑتے پکڑتے پیاسے سمندر کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ موت اذیت ناک ہوتی ہے لیکن، کیا موت اس قدر اذیت ناک ہوتی ہے؟ سمندر کا کسیلا پانی میرے جسم کے اندر داخل ہوکر میری سانسیں روکتا اور میں موت سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی۔ آزاد ہونے کے جتن میں روح میرا جسم ادھیڑ رہی تھی۔ پانی کا وزن اور روح نکلنے کی جلن برداشت سے باہر تھی۔

نہ میری آواز نکل رہی تھی نہ جان۔ بس بے دار تھا تو دماغ، جو چند ہی لمحوں میں، پیدا ہونے سے موت تک کی پوری فلم میرے خیالوں میں چلانے لگا۔ اس منظر میں دنیا میں آنے والی میری پہلی چیخ سے لے کر ان آخری چیخوں تک، سب کچھ ہی تو محفوظ تھا۔ جسم بے جان تھا لیکن بدقسمتی سے زندگی کی چاشنی اور موت کی کڑواہٹ محسوس کروانے والا دماغ سلامت تھا، جو زندگی کی ڈور کٹنے کی تمام اذیتوں سے میرے بے جان ہوتے وجود کو مزید چھلنی کر رہا تھا۔ اب مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کسی کو مرتے دیکھنا کتنا آسان اور خود اپنی جان دینے کے مراحل سہنا کس قدر مشکل ہے۔

نامعلوم کتنے عرصے پہلے میں مر چکی ہوں۔ عجیب موت مقدر بنی کہ پیچھے کوئی اپنا یاد کرنے اور دعا دینے والا ہی نہ بچا۔ جسم تو نہ جانے کون سے مدفن میں ہے، زمین ملی؟ یا سمندر نے ادھیڑ کر ریت بنا دیا؟ جانوروں کی خوراک بنا یا مچھلیوں کا طعام؟ مگر روح ایک عجیب سی دنیا میں ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس کا نام پتا معلوم نہیں، جس جنت اور دوزخ کے تذکرے سنے تھے وہ بھی یہاں نہیں۔ کیا آگے ابھی اور منزلوں کی طرف روح کو لے جایا جائے گا؟ یہاں نہ میں کسی کو جانتی ہوں نہ مجھے کوئی پہچانتا ہے۔ سب خاموش رہتے ہیں، کوئی کسی سے مخاطب نہیں ہوتا۔ وہ سامنے بس ایک نہر بہہ رہی ہے۔ نہیں جانتی کہ اس کا آغاز اور اختتام کیا ہے؟ بس اتنا معلوم ہے کہ عرصے سے اسی نہر کے کنارے پاؤں سمیٹے اور سر جھکائے بیٹھی ہوں۔ نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ نیند ہے نہ کسی کا ساتھ۔ یہاں میں اکیلی ہوں۔ بس ایک یہی اکیلا پن مجھے مسلسل باور کرواتا ہے کہ شاید اب بھی میں زندہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).