حقوق سے محروم بے چارے کرائے دار


حقوق کی بحث بہت طویل ہے اور اس کے متاثرین کی لسٹ اس سے بھی زیادہ طویل۔ ان متاثرین میں سے چند ایک ایسے ہیں جن کے حقوق کی کم از کم ہمارے سماج میں شنوائی نہیں ہوتی، ان میں ایک مظلوم طبقہ لڑکی والوں کا ہے۔ لڑکی جب تک ماں باپ کے گھر میں رہتی ہے اس کی ساری خواہشات ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق پوری کرتے ہیں لیکن جونہی اس کے رشتے کی بات ہوتی ہے اور سسرال سے پالا پڑتا ہے تو لڑکی والوں کا پلڑا ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے۔ پنجابی میں تو مشہور ہے کہ ”لڑکی والوں کی نظریں ہمیشہ نیچی ہوتی ہیں۔ “یعنی لڑکی والوں کا مقدمہ کمزور ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ”لڑکی والے“ ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں یہ صرف تمہیدی کلمات کے طور پر تھا۔

اسی طرح ہمارے سماج میں ”بیوی“ ہونا بھی حقوق سے محرومی کی علامت ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ”بیوی“ ہے اور وہ شوہر کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔ یہاں تک کہ جب کسی شخص کی شادی ہونے والی ہوتی ہے تو معاشرے میں موجود بڑے، بوڑھے اور ”سیانے“ دولہا کو ”قیمتی“ مشورے دیتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی بیوی کو زیرِ اثر رکھے۔ اس کی بھی تہہ میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج ہم سماج کے ان متاثرین کا احوال بیان کر نے لگے ہیں جن کے حقوق کی عام طور پربات نہیں کی جاتی۔

ہمارے سماج میں موجود ایک طبقہ ایسا بھی ہے جنہیں ”کرائے دار“ کے نام سے جانا جاتا ہے، مالک مکان کرائے داروں کو اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور 95فیصد مالک مکان کرائے داروں کو دبانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ”مالک مکان“ ہوتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مالک مکان حضرات باقاعدہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جو اپنی مرضی کے مطابق کرائے میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی شرائط پر مکان کرائے پر دیتے ہیں۔ کیوں کہ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ حالانکہ مالک مکان حضرات اور حکام بخوبی جانتے ہیں کہ کرائے پر رہنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو گھر کی نعمت سے محروم اور متوسط یا اس سے بھی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کئی فیملیز کو صرف ایک بیٹھک میں زندگی گزارتے دیکھا ہے۔

ہم اس مضموں میں چونکہ حقوق کی بات کر رہے ہیں اس لیے غیر ضروری تفصیل میں پڑے بغیر صرف حقوق تک ہی محدود رہتے ہوئے بات کریں گے۔ مالک مکان اور کرائے دار کے حقوق کی بات کی جائے تو مالک مکان حضرات کی نظر میں سرے سے کرائے داروں کے کوئی حقوق ہیں ہی نہیں۔ اسی مائنڈ سیٹ کے ساتھ وہ کرائے داروں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ کرائے داروں سے سب سے پہلے جو سوال کیا جاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ فیملی ممبران کتنے ہیں؟ اگر کرائے دارنے تین یا چار سے زیادہ فیملی ممبر بتادیئے تو پھر مکان ملنا مشکل ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں اس کا جواب تو مالک مکان ہی جانیں لیکن بڑی فیملی کے لئے کرائے پر مکا ن حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے یاپھر مہنگے کرائے پر مکان لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر جو سوال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مکان صرف فیملی ممبران کے لئے ہے اس میں مہمانوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مہمان اللہ کی نعمت ہوتاہے لیکن مالک مکان کو یہ نعمت زحمت لگتی ہے۔ خود مجھے اس تجربے سے گزرنا پڑا وہ اس طرح کہ مجھے ایک مکان سے صرف اس لیے نکال دیا گیا کہ ایک مہمان چند دن تک میرے پاس قیام پذیر رہا، اور مالک مکان سے برداشت نہ ہوسکا یوں ہمیں چلتا کر دیا گیا۔ اسی طرح کرائے داروں کے بچوں کو گھر میں کھیلنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے مالک مکان کے آرام میں خلل واقع ہوتا ہے۔ مالک مکان حضرات کے سونے، اٹھنے اور گھر میں آنے جانے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں کیونکہ وہ ”مالک مکان“ ہے جب کہ کرائے دار پر لازم ہے کہ وہ مالک مکان کے بتائے ہوئے ٹائم ٹیبل کا خیال رکھے، اور تو اور مالک مکان کے بچے، بچے شمار ہوں گے، ان کے لیے گھر میں کھیلنا کودنا، شور مچانا سب جائز ہے کیونکہ وہ مالک مکان کے بچے ہیں جب کہ کرائے دار کے بچوں کے لیے بھی انہی شرائط پر سختی سے عمل کرنا لازم ہے جس پر کرائے داروں کے ماں باپ عمل کر رہے ہیں یعنی بچوں کو اپنے ”بڑے“ اور سنجیدہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔

کرائے دار اور مالک مکان کے درمیان جس بات پر سب سے زیادہ تنازعہ رہتاہے وہ ہے گیس و بجلی کے میٹر کا مشترک ہونا، اکثر مکانوں میں گیس و بجلی کے میٹر مشترک ہوتے ہیں جس کا کرائے داروں سے جبری طور پر آدھا بل وصول کیا جاتا ہے۔ کرائے داروں کی اکثریت گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں گیزر افورڈ نہیں کر سکتی اس لئے ان سہولیات کے بغیر ہی گزارہ کرتے ہیں جبکہ مالک مکان کے گیس و بجلی کا میٹر مشترک ہونے کی بنا پر انہیں سردیوں میں گیس کا اور گرمیوں میں بجلی کا بھاری بل کا آدھا حصہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس نے مکان کا ایک پورشن کرائے پر حاصل کیا جو دو کمروں پر مشتمل تھا جبکہ اسی پورشن میں واقع ایک بیٹھک نما کمرہ مالک مکان نے اپنے پاس رکھ لیا معاہدے میں یہ بات شامل تھی اسی حساب سے کرایہ بھی کم کیا گیا لیکن چند ماہ گزرنے کے بعد حیران کن با ت سامنے آئی کہ مالک مکان کو بجلی کا بل کم آتا تھا ہمیں زیادہ آتا، جبکہ ہمارے فیملی ممبر بھی اُن سے کم تھے اور ہمارا استعمال بھی ان کی نسبت کم تھا کھوج لگانے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے پورشن میں موجود کمرے میں مالک مکان کی فیملی کپڑے استری کرتی ہے میں نے ان سے بات کی کہ اوپر والے پورشن میں بجلی ہماری استعمال ہوتی ہے یا آپ کی؟ ان کا جواب تھا ہماری اپنی یعنی مالک مکان کی ہی استعمال ہوتی ہے میری اہلیہ نے کہا کہ آپ الیکٹریشن کو بلا کر چیک کروائیں، جب میں نے الیکٹریشن کو چیک کرایا تو پتہ چلا کہ مالک مکان کرائے داروں کے کھاتے میں بجلی استعمال کر رہے تھے، جس کے بارے وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ وہ اپنی بجلی استعمال کر رہے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ جب مکان کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے تو کرائے دارقانونی، شرعی اور اخلاقی طور پر اس کے استعمال کا حق بھی رکھتا ہے۔ پوری دنیامیں کسٹمرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کسٹمرز کو گھیرنے کے لئے خوش اخلاقی پر مبنی نئے نئے طریقے بھی متعارف کروائے جاتے ہیں کیونکہ کسٹمرز ہی ان کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں جبکہ مالک مکان حضرات کرائے داروں کے ساتھ کسٹمرز جیسا سلوک نہیں کرتے بلکہ ہر لمحہ کرائے داروں پر یہ تلوار لٹکا کر رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت اپنا مکان خالی کراسکتے ہیں کیونکہ وہ ”مالک مکان“ ہیں۔ حالانکہ حقوق کے اعتبار سے کرائے دار اور مالک مکان دونوں برابر ہیں۔ کرایوں کے مکانوں میں رہتے ہوئے اپنے دس سال کے مشاہدے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کرائے داروں کے ہمارے سماج میں کوئی حقوق نہیں ہیں اگر پاکستان کے کسی علاقے میں کرائے داروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہویا ان کو برابر کے حقوق حاصل ہوں تو مجھے بھی بتائے یہ میرے نالج میں اضافے کی بات ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).