حلقہ بندیوں کی سائنس اور فیملی پلاننگ


دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا آئین بھی ہر 10 سال بعد مردم شماری کروانے کا پابند کرتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے 70 سالوں میں صرف 6 مردم شماریاں کروائی گئیں اور چھٹی مردم شماری 19 سالوں بعد سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی، ناکے حکومتی خواہش پر۔

2017 کے آخر میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ 1998 سے 2017 تک پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 سالانہ رہی۔

2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 5 سو 20 افراد 272 اراکین قومی اسمبلی منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح سے قومی اسمبلی کا ایک رکن 7 لاکھ 63 ہزار 8 سو 76 افراد کا نمائندہ ہوتا ہے۔

19 سال پہلے 1998 میں ہونے والی مردم شماری نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار 2 سو 79 تھی۔ جس کے تحت قومی اسمبلی کا ایک رکن 4 لاکھ 86 ہزار 5 سو 89 افراد کا منتخب کردہ ہوتا تھا۔ (چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں آبادی مختص کردہ نشستوں سے صوبے کی آبادی کو تقسیم کرکے حاصل کی جاتی ہے)۔

حیران کن طور پر آبادی میں 57 فیصد اضافے کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان کردہ ابتدائی حلقہ بندیوں میں نشستوں کی تعداد تبدیل نہیں کی گئی۔ تاہم صوبوں میں ہونے والے آبادی میں اضافے کے حساب سے صوبوں کو دی جانے والی قومی اسمبلی کی نشستوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔

2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج اگر دیکھیں جائیں تو پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 2.63 فیصد ہے۔

جنوبی ایشیا میں ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کی آبادی1 ارب 32 کروڑ کے قریب ہے۔ جبکہ آبادی میں اضافے کی شرح 1.2 فیصد سالانہ ہے۔ جو کہ پاکستان کی آبادی میں شرح اضافہ 2.4 سے تقریباً دگنی ہے۔

1 ارب سے زائد آبادی والے ہندوستان میں لوک سبھا میں نشستوں کی تعداد 543 ہے۔ جو کہ بنیادی طور پر 1971 میں ہونے والی مردم شماری نتائج کے مطابق رکھی گئیں۔ جس وقت ہندوستان کی کل آبادی صرف 54 کروڑ تھی۔

ہندوستان میں 1971 میں ہونے والی تیسری مردم شماری کے مطابق آبادی میں اضافےکی شرح 2.2 فیصد سالانہ تھی۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی حکومت کی طرف سے تیزی سے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لئے حکومت ہند نے آگاہی مہم برائے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے 2001 تک آبادی پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کی۔

ہندوستانی حکومت کے اس فیصلے کے بعد مذہبی رجحان اور چند ریاستوں کے مایوس کن اقدامات کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے نتائج انتہائی غیر متوازن تھے۔ جس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے 2001 تک نئی حلقہ بندیاں نا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس فیصلے کے بعد 2001 کے نزدیک کئی ریاستوں کی آبادیوں میں فرق حیران کُن تھا۔ جیسے کیرالا کی آبادی میں اضافے کی شرح 2 فیصد سالانہ جبکہ بہار کی آبادی میں اضافے کی شرح 4 فیصد تھی۔

آبادی میں اضافے کی شرح میں اس قدر فرق کے بعد خاندانی منصوبہ بندی میں بہتر کارکردگی دکھانے والی ریاستوں کی نشستیں کم ہونے لگیں۔ جس کے بعد ہندوستانی کی وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ 2031 میں ہونے والی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی اور تب تک لوک سبھا کی نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی 1 ارب 24 کروڑ کے قریب ہے۔ جس کے بعد 543 نشستوں کے لئےلوک سبھا کے 1 حلقے میں 22 لاکھ 83 ہزار آبادی کے لگ بھگ آتی ہے۔ جبکہ 1971 میں جب ہندوستانی حکومت نے 543 نشستیں مختص کیں۔ اس وقت ہندوستان کی ٹوٹل آبادی تقریباً 56 کروڑ 62 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ جبکہ لوک سبھا کے ایک حلقے کی آبادی اس وقت تقریباً 10 لاکھ 42 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔

2017 میں ہونے والی پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے نتائج دیکھے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں سالانہ شرح اضافہ ( 2.4 فیصد سالانہ) ہندوستان میں 1971 میں ہونے والی تیسری مردم شماری کے 2.2 سے زیادہ ہے۔ جس کے بعد ہندوستانی حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کےغیر متوازن نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں پہلے 2001 تک اور پھر 2031 تک ملتوی کردی گئیں۔

پاکستانی حکومت نے بھی شاید ہندوستانی ماڈل کو اپناتے ہوئے 2002 میں تعین کردہ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کو ہی برقرار رکھا ہے اور ہندوستانی ماڈل کو اپناتے ہوئے صوبوں کی آبادی میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے قومی اسمبلی کے نشستوں کی تعداد 272 رکھتے ہوئے ہی صوبوں میں تقسیم کردہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو تبدیل کیا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے حکومت کی طرف سے قوم کو آبادی میں ہونے والے ہوشربا شرح اضافہ سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا اور نا ہی محدود وسائل میں بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی یا اشتہاری مہم چلانے سے متعلق کوئی اعلان کیا گیا۔ جس کی ایک یقینی وجہ مذہبی طبقات کی طرف سے متوقع شدید ردعمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).