بہار کا میلہ، ترمیم کی اٹھارہویں گرہ، اور چاندی بالوں والے بابوں کی نصیحت!


ہمارےاس گھر  کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کمروں  میں بیٹھے چھوٹے بھائیوں کا عدم اطمینان۔اوپر والی منزل بنگالی پاڑے میں کیوں گری؟اسی عدم اطمینان کے سبب سے۔ ٹی وی لاونج کو چھوڑ کے  باقی کے کمرے  غیر یقینی حالات سے کیوں دوچار ہیں؟اسی عدم اطمینان کی وجہ سے۔ پہلی بار جیسا تیسا اطمینان کس چیز نے دیا؟ ترمیم  نے۔ اس ترمیم سے کس کے حقہ پانی پہ اثر پڑتا  ہے؟ ٹی وی لاونج میں بیٹھے بڑے بھائی کے حقے پانی  پر۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ بھلے وقتوں میں پہلے ساری جمع پونجی بڑے بھائی  کے سامنے رکھ دی جاتی تھی کہ جتنے پیسے  تمہیں اپنے مال پانی کے لیے  چاہیئں،  تم رکھ لو۔ جو بچ جائیں گے وہ ہم ہنسی خوشی  آپس میں بانٹ  کے  دال دلیہ  کرلیں گے۔اس بیچ  ترمیم کہیں سے اٹکتی مٹکتی آگئی  جس نے بدتمیز ی کی حد کردی۔اس نے بچہ پارٹی کو نئی پٹی پڑھادی کہ  عقل کے اندھو!  تم لوگ  پہلے  آپس میں پیسے بانٹ کے   کرایے ،بل، فیسیں، پیازٹماٹر، دودھ دہی، دال مصالحے  نمٹا لیا کرو،جو بچ جائیں وہ  بڑے بھائی کے لچھن پہ لگادیا کرو۔ اب  ہوتا یہ ہے کہ جب بڑے بھائی  سگرٹ بیڑی  اور کیرم ڈپو کے لیے کھلا   مانگتے ہیں تو سارے لفنٹر دونوں  جیبیں کھینچ کربکرے کے کان   کی طرح باہر لٹکادیتے ہیں۔ جو بھی جھاڑ چلڑ نیچے گرتا ہے سامنے رکھ  کرکہہ دیتےہیں کہ بھائی کل ملا کے یہ چونیاں اٹھنیاں بچی ہیں، تمہیں چاہیئں تو لے لو  تم سے بڑھ کے تھوڑی ہیں۔ اب بڑے بھائی  چاہتے تو ہیں کہ یہ بھی کان میں اٹکا کے نکل لیں، مگراچھا تو  نہیں لگتا نا کہ بڑا بھائی ریزگاری جمع کررہا ہے ۔اس لیے ریزگاری دیکھ کر نیم دلانہ مسکراتے ہیں، اور کہتے ہیں” چل خیر ہے یار، پھر سہی”۔

اب بڑے بھائی چاہتے ہیں کہ یہ ہر بارجو خالی جیبیں الٹ کے   مجھے شرمندہ کردیا جاتا ہے یہ سین پارٹ اب ختم ہونا چاہیئے۔تو بھائی نے کیا کیا کہ  محلے میں پیٹ کے جتنے ہلکے تھے  سب کو ٹینک والے چوک کے پاس جمع کیا۔   انہیں کہا کہ  بھیا محلے میں بھائی کی عزت کا فالودہ ہوا پڑا ہے، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ٹھیک ہے باقی کے لمڈے بھی پیٹ میں آنت  منہ میں دانت رکھتے ہیں  مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے   نا یار کہ بڑے بھائی کی داڑھ سوکھتی رہے اور چھوٹے بھائی   ایک کے بعد ایک  کرکے سارے ہی بچوں کو اسکول بھیجتے رہیں۔ ابےبھئی جب نہیں ہے اوقات تمہاری تو ضرورت ہی کیا ہے  الف انار ب بکری کی۔ان  کے  اچھوں نے پڑا تھا جو یہ پڑھیں گے؟ہمیں دیکھو، تختی پہ کبھی سیدھی لائن نہیں کھینچی ، مگر پھیپھڑوں میں  جان اتنی تھی کہ مینارِ پاکستان سے تھوکتے تھے لال قلعے پہ گرتا تھا۔ بیٹا سب تیل ہوجائے گا جب برابر کے محلے والے  کتے چھوڑیں گے، کیا سمجھے۔یہاں شنکر لال جان کو ہٹلر بنا ہوا ہے اور ان لوگوں کے لچھن نہیں ختم ہورہے۔  اچھا سنو،اپنی تو  لگ گئی ہے چونسٹھ پہ،صبر کا پانامہ ہورہا ہے لبریز ،  اب مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہونے والا ہے ،مگر کچھ اچھا نہیں ہونے والا یہ  میں بتادے رہا ہوں تم لوگ کو۔ خیر، ابھی یہ سب اپنے تک رکھنا،  پھوٹ مت دینا کسی کے سامنے۔

پیٹ کے ہلکے بھاگے دوڑے واپس محلے میں آئے تو انگلیاں ڈال ڈال  کے ایسی کلیاں ماریں کہ  پیٹ   کمر سے لگ گئے۔ یہ بات ابھی پھیلی ہی تھی کہ  محلے کے بابا  کے تن بدن میں تو جیسے  آگ  ہی لگ گئی۔  ایسی جازتی وہ بھی بڑے بھائی کے ساتھ؟ ترمیم کو بلا کر کہنے لگے “ایسا ہے کہ تیری بڑی شکایتیں آرہی ہیں آج کل مجھے،تیری چال چلن میں بڑے مسئلے پڑگئے ہیں، میں ذرا دوچار محلوں کے جھولے لے لوں پھر بیٹھ کے بات کرتا ہوں تجھ سے”۔

کمرہِ زیریں میں  چاندنی بالوں والے دو بابے رہتے تھے۔ دونوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے۔ان کا ایگریمنٹ  مارچ میں پورا ہوگیا ، مالک مکان نے کہلوا بھیجا   کہ بلوچستان سے اچھے گھر کا پلا ہوا رئیس نئے  کرائے دار کے طور پہ  آرہا ہے۔ تم الہڑوں کے  ساتھ مزید کنٹریکٹ نہیں ہونے والا۔ بوریا بستر پکڑواور رستہ ناپو۔ دونوں بابے چلے تو گئے، جاتے جاتے  چھوٹوں کو خاموشی سے بتاگئے کہ دیکھو بیٹا یہ جو مخملیں چادر رکھی ہے نا، اس میں لگی ہوئی ہے ترمیم  کی اٹھارہویں گرہ ۔یہ گرہ کھل گئی تو سمجھو یہ گھر دانہ دانہ بکھر گیا۔ حالات اچھے نہیں لگ رہے،میری مانو  اس چادر کو کس کے پکڑلو۔   بہار کی آمد پہ ہی  جو یہ میلہ سجا ہے نا ، قسم لے لو یہی چادر چرانے کے لیے سجا ہے۔ کان کھڑے اور آنکھیں کھلی رکھو اللہ خیر کرے گا۔بابوں کی بات درست ،مگر مشکل یہ ہے کہ اب کمرہِ زیریں  ایسے رئیس زادے  کے ہاتھ میں ہے جو کل پی ایس ایل کے فائنل کے بعد خوب ناچ رہا تھا۔ محلے داروں نے پوچھا میاں خیر تو ہے؟  کہنے لگا پی ایس ایل کے فائنل نے  تو یقین مانو انڈیا کی واٹ لگادی  ہے واٹ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک کمرے میں تو گھر کا بچہ بیٹھ گیا ہے۔ اب رہ گیا  بالائی کمرہ، تو اس  کی قسمت کا فیصلہ بھی اگر خدا نے چاہا تو اسی سال  ہونے والا ہے۔اگر خدا نے ہی نہ چاہا تو پھر کیا ہوسکتا ہے ۔اب خدا کیا چاہتا ہے یہ  واضح ہونا تو ابھی باقی ہے۔ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ  محلے والوں کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ استاد ہو نہ ہو  ہم دیکھتے رہ جائیں گے اور کمرہ  چادر سمیت  لڈن کو دےدیا جائے گا۔لڈن کے دانت  اللہ کی پناہ۔ ایک ہی کڑاک میں چارمغز کھول دیتا ہے یہ ترمیم کی اٹھارہویں گرہ  تو پھر بھی ریشم کی ہے۔محلے داروں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ  سالی چادر لے جائیں تو کہاں لے جائیں۔ ہر طرف پیٹ کے ہلکے بیٹھے ہیں، تھوڑی سی بھی چادر کھسکاتے دیکھ لیں  تو شام آٹھ بجکر پانچ منٹ پر گلی کے نکڑ پہ  بیٹھ جاتے ہیں۔ پچکاریاں مارتے جاتے ہیں اور ایک کی دو لگاتے جاتے ہیں۔

محلے  کی دیواروں پر لکھی مشکل عبارتیں پڑھنے والی   والی مائی   بھی عین اس وقت گزر گئیں جب دیوار کا نوشتہ پڑھ کے سنانے کا وقت تھا۔ کہتے ہیں آخری بار کسی سے  کہہ رہی تھیں  کہ جوں جوں فیصلے کا دن  قریب آتا جائے گا محلہ بٹتا چلا جائے گا۔ ایک طرف  محلے کے نمازی ہوں گے، جن میں سے کچھ کے چچا تایا مسجد کی کمیٹی میں  ہیں اورکچھ کی تھانے میں بات اچھی ہے۔  دوسری طرف  سدا  کے بے نمازی ہوں گے۔مسجد کی کمیٹی سے ان کا اینٹ کتے کا بیر ہے اور ایس ایچ او سے تو تب ہی سلام دعا ہوتی ہے جب  وہ چھاپہ مارکے مسہری کے نیچے سے چرس کی پڑیا برامد کرتا ہے ۔محلے کا سب سے بڑا  نمازی لیاقت  کا بیٹا عامر تھا۔ وہ بھی خیر سے مائک پکڑ کے نیلے گنبد میں بیٹھ گیا ہے، بس کشف  کا منتظر ہے۔اس نے نام بتانا ہے ایس ایچ او نے پرچہ کاٹنا  ہے۔

 توہینِ اسلام کے مقدمے سیانےمحلہ داروں کے منتظر ہیں، مگر اس آزمائش سے گزر جانا چاہیئے۔ کسی کفن چور کا “اسلام” آڑے آئے  یا  کسی جوتے چور کا” جذبہ حب الوطنی”  رکاوٹ بنے،بس چاندی بالوں والے بابوں کا کہا پلو سے باندھے رکھنا۔ بیٹا ! ترمیم  کی اٹھارہویں گرہ کو تھام  کے رکھنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).