مولانا نور محمد کی کہانی


ہمارے گاؤں میں ایک مولانا تھے، ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری، جذبہ اتنا بڑھ کے تھا کہ ساری زندگی شادی نہ کی (کہا کرتے تھے؛ وقت ہی نہیں ملا) اور ایک ہی مدرسہ میں ساری زندگی گزار دی…. میری ان سے دوستی تھی…. میں جب اقبال و مودودی کو پڑھ رھا تھا مولانا اس وقت اپنی عمر کے آخری سالوں میں تھے…. جب امامت و تدریس کے قابل نہ رھے تو مہتمم مدرسہ نے چھٹی کروانے میں دیر نہ لگائی… اور مولانا میرے گاؤں میں ہی آ گئے جہاں ان کے بھائی مع اہل و عیال رہتے تھے …..وہ مودودی صاحب کا نام سن کر چڑ جاتے تھے مگر جب نام بتائے بغیر مولانا مودودی کی فکر ان کے سامنے رکھی جاتی تو بہت پسند کرتے اور اس فکر کے بانی کو دعا دیتے مگر جیسے ہی یہ بتایا جاتا کہ “استاد جی اے مودودی آدھے ” (استاد جی یہ مولانا مودودی کا فرمانا ھے ) تو بہت غصہ ہوتے اور کہتے کہ مودودی کچھ اچھی باتیں اس لئے فرماتا ھے تاکہ باطل کو جو اس کی فکر و عزائم کا حصہ ہے اسے چھپا سکے ….

بہرحال کل میرا ایک فوتگی پر جانے کا اتفاق ہوا … اور مجھے مولانا نور محمد بہت یاد آئے …. مولانا شدید ترین سردیوں میں نہ جانے رات کے کتنے بجے فوت ہوئے، صبح ان کے بھتیجے جاگے تو انہوں نے انہیں فوت پایا، میں ان کو غسل دینے میں شامل تھا، مجھے یاد ہے کہ ان کا پورا وجود اکڑ چکا تھا …وجود ٹیڑھا میڑھا ہوا پڑا تھا اور باوجود کوشش کے سیدھا کرنا ممکن نہ تھا ….

اپنی وفات سے محض ایک دن پہلے میں جب ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھ سے سو روپے مانگے کیونکہ ان کا فروٹ کھانے کو بڑا دل کر رھا تھا ….. تقاضا کرتے ہوئے مجھے یاد ھے انکی آنکھوں میں آنسو تھے …..پھر وہ بچوں کی طرح رو دیئے ….کمزوری کا یہ حال تھا کہ ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ اپنے آنسو خود ہی پونچھ سکیں ….میں اس وقت ایم بی اے کا طالب علم تھا مجھ سے یہ کہہ کر وہ پھر رو دیئے؛ دوران روزگار کچھ پیسے اپنے بڑھاپے کے لئے جوڑ کے رکھنا اور شادی ضرور کرنا ….یہ اس شخص کے الفاظ تھے جس نے ساری زندگی ہر ملاقات میں مجھ سے یہی فرمایا تھا “کہ خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے خدا کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہی دراصل اسلام ھے” وہ توکل کو تقویٰ کی بڑی علامات سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص اپنے گھر میں اپنی جمع پونجی کا کچھ حصہ بھی سنبھال کر رکھتا ہے وہ جہنم کا ایندھن اپنے لئے تیار کر رہا ھے ..

وہ اپنے بڑھاپے میں کہا کرتے تھے مسلمان علم کی نہیں، خطابت کی قدر کرتے ہیں. …اگر وہ خطیب ہوتے تو انہیں وقت کا ولی سمجھ کر پوجا جاتا اور اب باوجود اس کے کہ وہ ساری زندگی درس نظامی کے طلباء کو استاد و خطیب بناتے رہے ہیں ان کا ان کے پاس کی مسجد میں بھی کوئی مقام نہیں …

ازحد کسمپرسی اور غربت میں جب مولانا فوت ہوئے تو ان پر تقریباً دو سو کفن ڈالے گئے مجھے یاد ھے کفن کے کپڑے کی اس وقت قیمت نوے سے سو روپے تھی ….. ایک شخص جو بھوک و غربت سے لاوارث کی طرح مر گیا، تین دن اس کے مرگ پر دیگیں پکتی رہیں ….. میں نے اس وقت بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ یہاں منافقت کا بسیرا ھے ….

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan