ٹھرک کی شدت اور اقسام


ٹھرک کی سطح معاشرہ میں صنفی اختلاط پر پابندیوں کے ساتھ براہ راست متناسب ہے۔

جہاں مرد و خواتین کے درمیان مصافحہ کرنے کی روایت ہے وہاں کوئی راہ چلتے کسی خاتون کو کاندھا نہیں مارتا، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں مرد و خواتین کی سیٹوں کی تخصیص نہیں ہوتی وہاں کسی مرد کی انگلیوں میں خارش نہیں ہوتی، جہاں سر عام گلے ملنے اور اس کے بعد کے مراحل طے کرنے کی آزادی ہے وہاں برہنہ اور نیم برہنہ خواتین پر آنکھیں سینکنے والےعموماً ایشیائی ہوتے ہیں۔

ٹھرک کی کوئی باقاعدہ تعریف ممکن نہیں۔ یہ بس محسوس کی جاسکتی ہے، مشاہدہ کی جاسکتی ہے، تجربہ کی جاسکتی ہے۔ ٹھرک کے لغوی معنوں کا اس کے مستعمل معنوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں، پھر بھی آپ لغوی معنی جاننے پر مصر ہیں تو لغت ملاحضہ کر لیں۔ منٹو صاحب کے بقول ”عشق ایک بھڑ بھڑ جلتا ہوا لکڑی کا خشک ٹکڑہ ہے جب کہ ٹھرک ایک ایسی گیلی لکڑی ہے جو اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے لیکن کبھی پوری طرح شعلہ نہیں پکڑتی۔ “ تاہم مجھے منٹو صاحب سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ دوسری والی کیفیت ناکام عاشق کی یا یک طرفہ عاشق کی ہے جس کا کوئی مخصوص محبوب ہو۔ جبکہ ٹھرک کسی ایک مقصود و مطلوب تک محدود نہیں ہوتی۔

ٹھرک کا سلسلہ دوسری نظر سے لے کے زنا بالجبر یا بالرضا تک دراز ہے۔ سب سے پہلی قسم ہے سڑک چھاپ ٹھرکیوں کی۔ ان میں کچھ بس نظروں سے ہی کام چلا لیتے ہیں، سامنے سے گزرتی ہوئی لڑکی یا خاتون کو صرف گھور لیا یا تاڑ لیا یعنی زیادہ دیر اور دور تک گھورا، زیادہ ہوا تو آنکھ مار دی۔ یہ بزدل ترین ٹھرکی ہوتے ہیں۔ جو ان سے ذرا حوصلہ کریں وہ فقرے بازی پر رہ جاتے ہیں۔ ان کے بعد باری آتی ہے ان کی جو راہ چلتے کندھا مار دیں یا ہاتھ سے ہاتھ ٹکرا دیتے ہیں، پیچھے سے ہاتھ مار دیتے ہیں۔ وہ جو بائیک پر پیچھا کریں یا کار میں بٹھانے کی آفر کریں وہ مزید دیدہ دلیر کہلائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ایک پتھر ہاتھ میں اٹھا لو تو یہ فوراً رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے ٹھرکیوں کو خواتین پسند نہیں کرتیں اور اکثر گالیوں، جوابی گھوریوں یا بعض اوقات ایک دو تھپڑوں یا جوتوں سے بھی حسب توفیق تواضع کر دیتی ہیں۔ یہ اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ گالی بھی ہمیں ہی دی ہے نا۔ یا پھر اوئے اس نے واپس مجھے گھورا یا مارا تو کیا ہوا کم سے کم ہاتھ تو لگایا ناں۔

ایک قسم پبلک ٹرانسپورٹ میں پائی جاتی ہے، یہ بے چارے بہت ہی ”محروم تمنا“ قسم کے ٹھرکی ہوتے ہیں۔ اگر پچھلی سیٹ پر اندر کی طرف بیٹھے ہوں تو سیٹ کے نیچے سے، باہر کی طرف بیٹھے ہوں تو سائیڈ سے یا پھر اگلی سیٹ کی طرف ٹانگ مزید بڑھا کر کسی نہ کسی طرح خاتون کو چھونے کرنے کی کوشش ضرور کریں گے، لیڈیز دروازے سے بس میں چڑھیں گے اور اتریں گے۔ ان کی شکل نورانی سے لے کر خارش زدہ کتے جیسی ہوسکتی ہے۔ بس میں سفر کرنے والی خواتین کی اکثریت کسی نہ کسی مجبوری کے تحت گھر سے باہر نکلتی ہے اور کراچی جیسے شہر میں بس میں خواتین کا سفر کرنا جس قدر دشوار ہے سیٹ تو کیا جگہ ملنی بھی مشکل ترین ہوتی جارہی ہے، لہٰذا یہ مجبور خواتین ان ٹھرکیوں کی ان ذلیل حرکات کو خاموشی سے برداشت کرتی ہیں کیونکہ بولنے کی صورت قصور خاتون کے ذمے ہی لگا دیا جاتا ہے کہ اتنی شریف زادی ہو تو گھر میں بیٹھا کرو۔

ٹھرکیوں کی ایک قسم دفاتر میں پائی جاتی ہے، انہیں آپ دفتری ٹھرکی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی مختلف ذیلی اقسام سے تعلق رکھتے ہیں جیسے کوئی صرف خاتون کولیگز کے لباس کی تعریف کر کے دل پشوری کرلے گا، کوئی روزانہ زبردستی اپنی سیٹ سے آپ کی سیٹ تک کا سفر کر کے آپ کو سلام کرنے ضرور حاضر ہوگا، کوئی اپنی ماتحت خاتون کو کمرے میں بلا کر چائے پلا کر ہی ٹھرک پوری کرلے گا، تو کوئی اپنی افسر کے کمرے میں۔ اس قسم کے ٹھرکیوں سے عقل مند و تجربہ کار خواتین کافی کام نکلوا لیتی ہیں دفتر کے بھی اور ذاتی بھی۔

رشتہ دار ٹھرکی: ہر ایک کے بھائی بنے ہوتے ہیں۔ ہر تقریب میں کسی نہ کسی خاتون کو موٹر سائیکل پر بٹھائے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کام سے لے جارہے ہوتے ہیں یا لا رہے ہوتے ہیں۔ ہر بار خاتون الگ الگ ہوں گی۔ اور اگر کوئی شادی کی تقریب ہو تو کسی کا دوپٹہ رنگوانے جا رہے ہیں تو کسی کے گجرے لا رہے ہیں۔ اس قسم کے ٹھرکیوں کو ان کی ”بہنیں“ بہت مس یوز کرتی ہیں اور یہ خوشی خوشی کام  آ جاتے ہیں۔

ویسے سب سے خطرناک ٹھرکی وہ ہوتے ہیں جو چھوٹتے ہی آپ کو کہتے ہیں کہ آپ تو میری بہن جیسی ہو۔ ان سے ہوشیار رہیں۔ ان کا سیدھا سیدھا مطلب ہوتا ہے ایسے نہ سہی ویسے سہی، رابطے میں تو رہو، بات تو کرو ہم سے۔ یاد رہے یہ آپ کو کبھی باجی یا آپا نہیں کہتے پر گفتگو کے درمیان یہ ضرور کہتے ہیں کہ آپ تو میری بہن جیسی ہو۔

سوشل میڈیا نے کئی قسم کے نئے ٹھرکی متعارف کروائے ہیں۔ ویسے تو سوشل میڈیا پر ٹھرکی حضرات کا تناسب کچھ زیادہ ہی ہے۔ ٹھرکی حضرات کا حال یہ ہے کہ آپ کہیں کسی کی پوسٹ پر کوئی کمنٹ یا لائک کردیں یہ وہاں سے آپ کے پیچھے لگیں گے اور بغیر کسی جان پہچان یا تعارف کے آپ کو فرینڈ ریکویسٹ ایک عدد ان باکس میسج کے ساتھ بھیج دیں گے کہ میں آپ کو ایڈ کرنا چاہتا ہوں یا میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ آپ کے کندھے پرہی بندوق رکھ دیں گے کہ کیا آپ مجھ سے دوستی کروگی۔ آپ ریکویسٹیں ڈیلیٹ کرتے کرتے تنگ آ جاو، ان کی تعداد کم نہیں ہوتی۔

دوسری قسم وہ ہیں جو لڑکیوں کے نام سے پروفائل بنا کر لڑکیوں سے دوستی لگاتے ہیں اور پھر بھید کھل جانے پر فیک پروفائل ڈیلیٹ کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ اور کسی نئی لڑکی کی آئی ڈی نئے نام سے بنا کر کسی اور لڑکی کو بے وقوف بنانے چل دیتے ہیں۔

ایک سب سے مشہور قسم ”آپی بھائی“ والے ٹھرکیوں کی ہے، یہ عموماً فیس بک کے مختلف گروپس میں پائے جاتے ہیں۔ ایکچوئیلی یہ دو طرفہ ٹھرک ہوتی ہے۔ ”آپی“ کے کوئی پوسٹ کرنے کی دیر ہوتی ہے، ”بھائی“ حضرات دھڑا دھڑ لائیکس اور کمنٹ کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپی بھی خوشی خوشی ”اپنی پوسٹ“ کی پذیرائی پر پھولے نہیں سماتیں اور درجہ بدرجہ ایک ایک کمنٹ کرنے والے بھائی کا شکریہ بنا کسی تھکاوٹ کے ادا کرتی چلی جاتی ہیں۔ یاد رہے آپی بھی بھائی کی پوسٹ پر سب سے پہلے لائک اور کمنٹ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔

ٹھرک کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے رابطے میں رہنا۔ یہ رابطہ آواز کا ہوسکتا ہے، یہ رابطہ الفاظ کا ہوسکتا ہے، یہ رابطہ نظر کا ہوسکتا ہے، مس کالز کا ہوسکتا ہے، فضول ایس ایم ایس کا ہوسکتا ہے، اس کی انتہا جسمانی رابطہ ہے، چاہے وہ چھو کر ہو یا انتہائی درجے کا۔ آنکھیں سینک لیں گے، آواز سینک لیں گے، گال سنکوا لیں گے، ہاتھ سینک لیں گے، کان سینک لیں گے، آواز سن کرٹھنڈ پڑ جائے گی خواہ گالیاں ہی کیوں نہ ہوں، یا جسم سینک یا پھر سنکوا لیں گے، اور اس کے بعد زخموں کی ٹکور کرواتے رہیں گے مہینہ بھر۔

ٹھرک کے پس منظر میں بنیادی نکتہ وہی ہے جو تھامس مالتھس نے اپنے مشہور عالم مقالے ”آبادی کے اصولوں پر ایک مضمون“ میں پیش کیا تھا کہ اصناف کے درمیان کشش  مستقل   ہے، اور قدرتی طور پر موجود ہے۔ اس کو آپ جنسی کشش کا نام دے لیں، اسے آپ مخالف صنفوں کی کشش کا قانون کا نام دے لیں۔ کچھ بھی کہہ لیں یہ ہے اور رہے گا۔

ایک صنف بلکہ دوسری صنف پہلی صنف کا حصہ تھی، اسی کے وجود سے اس کی تخلیق ہوئی ہے، پھر دونوں جب ایک ہی ہیں تو کیوں نہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں۔ لیکن یہ مذہب ہے، معاشرہ ہے، کلچر ہے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کشش کو معتدل کرنے کے قابل قبول طریقے کیا ہیں۔ یہ قابل قبول طریقے ہر جگہ مختلف ہیں۔ ہر معاشرے کے اپنے معیارات ہیں۔ مزا تب آتا ہے جب مختلف کلچرز سے تعلق رکھنے والے ایک جگہ اکھٹا ہوں، وہاں کسی گوری میم کا کسی ایشیائی یا عرب سے ہاتھ ملانے کا منظر دیدنی ہوتا ہے، جو مصافحہ میم کے لیے نارمل ایکٹویٹی عام سا عمل ہوتا ہے وہی ایشیائی یا عرب مرد کے لیے مافوق الفطرت عمل بن جاتا ہے۔ یعنی وہ ہاتھ ملا کر چاند پر پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
24 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments