بیروت نگارِ بزمِ جہاں – راکھ سے حیاتِ نو


بیروت کے کیفے اور قہوہ خانے، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عرب دنیا کے دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور معروف سکالروں کے ساتھ دن ڈھلے جاگنا شروع کردیتے تھے۔ عرب دنیا ہی نہیں بلکہ مغرب ومشرق کے دانشوروں کا پسندیدہ شہر بیروت تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں عرب دنیا سمیت تیسری دنیا میں انقلابات وآزادی کی تحریکوں کے عروج کی دہائی تھی۔ بیروت کے کیفے اور قہوہ خانوں میں شام کو جو محفلیں برپا ہوتیں اور ان محفلوں میں جو بحثیں چھڑتیں، اُن کے اثرات عملی طور پر مشرقِ وسطیٰ پر نظر آئے۔ ”رات کی زندگی‘‘ بیروت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھی۔ دانشوروں کے کیفے اور نوجوانوں کے کلب۔ مغرب کے بڑے بڑے صحافی، بیروت میں خبروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ مغربی دنیا میں اخبارات اور نیوز ایجنسیاں بیروت کی طرف کان لگائے، ہر لمحہ کسی بڑی خبر کی منتظر رہتیں۔ نہر سویز کا مسئلہ ہو یا مصر میں جمال عبدالناصر کا انقلاب یا پھر لیبیا میں معمر قذافی کا انقلاب، الجزائر میں آزادی کی جدوجہد سے خلیجی ممالک کے امریکہ نواز حکمرانوں کے جاسوسوں سے لے کر اسرائیل، موساد، برطانیہ کی ایم آئی5 اور6، سی آئی اے، سب یہاں خبروں کی بُو سونگھتے چلے آتے۔

عرب دنیا یا مشرقِ وسطیٰ میں کہا جاتا ہے، سیاست کے فیصلے قاہرہ، دانش کے فیصلے بیروت اور جنگوں کے فیصلے دمشق میں ہوتے ہیں۔ اس سرزمین کو لارنس آف عریبیہ اور جان فلبی جیسے عالمی شہرت یافتہ جاسوسوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ بیروت، عرب دنیا کی قوم پرست اور اشتراکی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ ایڈودڑ سعید جیسے دانشور اور محمود درویش جیسے شاعر، بیروت کے کیفوں اور قہوہ خانوں میں بیٹھنا اعزاز سمجھتے۔ بیروت فیشن کی دنیا کا مرکز رہا ہے اور اب بھی ہے، حتیٰ کہ یورپ کے فیشن ڈیزائنرز بھی یہیں آکر نئے سے نیا فیشن متعارف کرواتے۔ لبنانی مسلم دنیا کی سب سے زیادہ فیشن یافتہ قوم ہے۔ لبنانیوں کا ذوق عربوں کا مان ہے۔ اور تصور کریں کہ اس شہر کے کیفے اور قہوہ خانے کیا ذوق رکھتے ہوں گے۔

ہمارے ہاں کلونیل ازم نے ہماری تہذیب، ثقافت، رہن سہن اور کھانوں پراپنے اثرات چھوڑے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عثمانی ترکوں نے اپنی کالونیوں سے اُن کے تہذیبی اثرات حاصل کیے۔ متعدد ترک کھانے اور مٹھائیاں، لبنانیوں سے ترک کھانوں کی شکل اختیار کرگئیں۔ مگر ترک کھانے آج بھی لبنانی کھانوں کے سامنے ماند ہیں۔ حتیٰ کہ ترک جسے ترک قہوہ (ترک کافی) کہتے ہیں، یہ بھی لبنان سے مستعار ہے۔ آج بھی دونوں کی کافی میں اگر لذت کا مقابلہ کیاجائے تو ترک قہوہ، لبنانی قہوہ (لبنانی کافی) سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اگر کسی لبنانی کے سامنے کوئی ترک اسے ترک قہوہ کہہ کہ پینے کی پیشکش کرے تو لبنانی فوراً جھٹ سے کہتا ہے، اونہو! ترک قہوہ؟ یہ تو دراصل لبنانی قہوہ ہے۔ اور یہی اس کی حقیقت ہے۔ بیروت کی گلیوں اور محلوں میں یہ کیفے آج بھی آباد ہیں۔ مگر ساٹھ کی دہائی کی طرح اس قدر سیاسی اور دانش کے مرکز نہیں۔

رؤشے، (Raouché) ساحل سمندر پر بیروت کا ایک حسین ترین کنارہ ہے۔ 2003ء کے بعد جب سے ریما عبداللہ میری شریک حیات بنیں، میرا یہیں بحیرۂ روم کے کنارے قیام رہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح یہاں گھومنا لبنان کی سیاحت کا ایک اہم ترین فریضہ سمجھتے ہیں۔ نومبر 2017ء میں ریما کی والدہ پروفیسر ڈاکٹر ہدیٰ عدرہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں اور اب اس گھر کو میں الوداع کہنے آیا، اسی گھر کے سامنے نیچے ایک فلسطینی ابو یاسر سے دوستی ہوئی جس کا اسرائیل کے بیروت پر حملے کے بعد سارا خاندان دھماکے میں ختم کردیا گیا اور اسے جیل میں قید رکھا گیا اور یہیں پھول بیچنے والی خاتون خدیجہ سے تعارف ہوا۔ اب وہ دونوں ہی نظر نہیں آتے۔

اب اس مکان میں میرا یہ آخری قیام تھا، اور بیروت سے محبت کا ایک نیا آغاز، محبت کی مزید گہرائی کا آغاز۔ شام ڈھلے ہم دونوں رؤشے کی چہل قدمی کو نکلے۔ گھر کے آگے سڑک کے نکڑ پر لبنان کی معروف ترین مٹھائیوں کی دکان ”حلاب‘‘ ہے۔ لبنان میں تریپولی کی مٹھائیاں اپنی مثال آپ رکھتی ہیں۔ حلاب کی دکان ہماری جیولری کی دکانوں سے زیادہ نفیس وجدید ہے اور ایسے ہی سارے لبنان میں مٹھائیوں کی دکانیں۔ اس سے اگلی عمارت، اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی ملکیت ہے۔ اس کے پیچھے کبھی پاکستانی سفارت خانہ تھا، جو اَب یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوچکا ہے۔ حلاب کی دکان پر بیٹھ کر آپ نے کنافۃ نہ کھایا تو سمجھو بیروت نہ آئے۔ کنافۃبنانا لبنانیوں پر ختم ہے۔

پنیر اور سویوں سے بنی ایک لذیذ اور گرم تازہ مٹھائی، جو اسی پلیٹ میں سرو کی جاتی ہے جس میں بنائی گئی ہو۔ کنافۃ کے بعد لبنانی اَہواہ (دلچسپ بات یہ ہے کہ لبنانی اکثر ”ق‘‘کو الف پڑھتے ہیں، قلعہ العہ اور قہوہ اَہواہ)۔ قہوہ لبنان اور ترکی میں کافی کو کہتے ہیں۔ سیاہ، زہر کی طرح کڑوی کافی۔ جو کافی کا ذوق رکھتے ہیں، اُن کے لیے یہ خبر ہی معیوب ہے کہ کافی میں دودھ بھی ڈالا جاتا ہے۔ میں نے اپنے ہاں ایسے ”ماہرین‘‘ کو اکثر بڑے فخر کے ساتھ دیکھا ہے جو گھنٹہ لگاکر دودھ میں کافی کی پیسٹ بناتے ہیں اور پھر مجھ جیسے جہاں گرد کو فخر سے ساتھ دودھ میں بنی یہ کافی سرو کرتے ہیں۔ مٹھائی کے بعد لبنانی اَہوے نے زبان کی مٹھاس کو یوں مٹا دیا جیسے کبھی منہ میٹھا ہی نہیں ہو اتھا۔

چند سال پہلے یہاں متعدد عمارتیں خانہ جنگی کے بعد زخمی حالت میں موجود تھیں، اب وہ تقریباً نظر نہیں آتیں۔ اُن کی جگہ اب بلند وبالا عمارتیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ رؤشے میں بحیرۂ روم کے اندر ایک بڑی گیٹ نما چٹان جسے ”کبوتروں کی چٹان‘‘ کہا جاتا ہے، پورے لبنان کی پہچان ہے۔ حنیف رامے جب مکتبہ جدید کے تحت اشاعت کاری کرتے تھے تو اس وقت سے آج تک یہ سمندری چٹان مکتبہ جدید کی کتابوں کا لوگو ہے۔ یقینا حنیف رامے جیسے عظیم مفکر نے اس چٹان کو لبنان کی شناخت کے حوالے سے ہی اپنی کتابوں کے اشاعت گھر کا لوگو بنایا ہوگا۔ یہ گیٹ آف انڈیا کی طرح بلندوبالا سمندری قدرتی چٹان ہے، ہر کوئی اس کی تصاویر لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جیسے کوئی پیرس جائے اور ایفل ٹاور کی تصویر نہ لے، یہ ممکن نہیں۔ رؤشے سے مینارہ تک سمندر کنارے کیفے ہی کیفے۔ شام ڈھل رہی تھی اور لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ایک دن قبل ہم بھی انہی میں سے ایک کیفے میں بیٹھ کر لبنانی شام کی خوشبو محسوس کر آئے تھے۔ آج چلتے چلتے جہاں گرد کو AUB (American University of Beirut) تک جانا تھا اور اس کے پہلو میں بیروت کے مشہورِ زمانہ کیفے، ”کیفے یونس‘‘۔

جی یہی کیفے یونس، جہاں فیض احمد فیض اکثر شام ڈھلے آتے تھے۔ یہ کیفے کل بھی آباد تھا اور آج بھی۔ یہ سارا علاقہ راس بیروت کہلاتا ہے۔ لبنان اور بیرونی دنیا میں راس بیروت کے دانشور اور کیفے فخر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 1935ء میں امین یونس 3/4سال قیام کے بعد برازیل کو چھوڑ کر بیروت آئے اور اس معروفِ زمانہ کیفے کی بنیاد رکھی۔ کیفے یونس کے لیے اٹلی سے کافی بھوننے کی جدید مشین کو انہوں نے اپنی پہلی برانچ میں نصب کیا۔ امین یونس کے بعد اُن کے بیٹے سہیل یونس اور اب ان کا پوتا امین یونس اس کیفے یونس کو اسی جذبے سے چلا رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دوران جب شہر کے محلے اور گلیاں میدانِ جنگ بن گئے تو کیفے یونس کی حمرا سٹریٹ کی شاخ، دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور گوریلا لیڈروں کی مشترکہ پسندیدہ جگہ تھی جہاں وہ آکر بیٹھتے۔ حمرا سٹریٹ کو خانہ جنگی میں عملاً No Man‘s Land کا سٹیٹس مل گیا۔ مختلف متحارب جنگی گوریلے یہاں آکر بغیر کسی تصادم کے ملتے۔

حمرا سٹریٹ ہی میں ومپی کیفے میں تو بیروت کی تاریخ کا وہ واقعہ پیش آیا جس سے بیروت سے اسرائیلی فوجوں کو نکلنے پر مجبور کردیا۔ 19 سالہ خالد علوان جس کا تعلق شامی سوشلسٹ نیشنلسٹ پارٹی (SSNP) سے تھا، اس نے جب اسرائیلی فوجیوں کو حمرا سٹریٹ کے ومپی کیفے میں بندوقیں اٹھائے دیکھا تو اس کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی کہ بیروت کا معروف کیفے جہاں اہل فکر ودانش اکٹھے ہوتے ہوں، وہاں فوجی دندناتے داخل ہوں۔ اس نے اپنی بندوق سے فائر کھولا اور جارح اسرائیلیوں کو وہیں گھائل کردیا۔ آج بھی حمرا سٹریٹ میں اس کیفے کے قریب اس شہید کامریڈ خالد علوان کا ایک بورڈ نصب ہے۔ اب ومپی کیفے کی جگہ Costa کیفے ہے۔ کیفے یونس داخل ہونا اور وہاں کافی پینا ہمیشہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات رہی ہے۔ مگر کیفے ومپی میں کچھ وقت گزارنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ حمرا سٹریٹ کے کیفے پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ایک شان دار پہچان رکھتے ہیں۔ اُن میں Cafe Modca، Cafe Horse Shoe، Cafe de Paris، Cafe Wimpy، سرفہرست ہیں۔

خانہ جنگی کے دوران جب بیروت مسیحی اور مسلم بیروت میں بٹ گیا تواس کی سرحد حمرا سٹریٹ کے بہت قریب تھی۔ مغربی بیروت مسلمانوں کا اور مشرقی بیروت مسیحیوں کا۔ 1978ء میں جب خانہ جنگی میں کچھ دنوں کا وقفہ ہوا تو ایک روز کیفے یونس کے مالک باپ بیٹا اپنے جنگ زدہ کیفے گئے اور وہاں بچی اپنی واحد چیز اپنی پندرہ سو پونڈ وزنی اطالوی ساخت کی کافی بھوننے والی مشین اٹھا لائے اور وقت آنے پر اسے استعمال کرنا شروع کردیا اور آج بھی دیگر کافی بھوننے کی دیگر مشینوں کے ساتھ یہ قدیم کافی مشین کیفے یونس کے استعمال میں ہے۔ آج بھی شام ڈھلے حمرا سٹریٹ سمیت سارے بیروت اور خصوصاً راس بیروت کے علاقے میں موجود لاتعداد کیفے اور قہوہ خانے خوب جمتے ہیں، صبح صادق تک کافی اور سیاہ چائے کے ساتھ حقوں کے کش لگاتے اہل دانش بحثوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

بیروت کی کل اور آج بھی رات کی زندگی کا مقابلہ شاید ہی دنیا کا کوئی شہر کرسکے۔ شام ڈھلے دانشوروں کے کیفے اور نوجوانوں کے کلب۔ راس بیروت کے ان کافی ہاؤسز اور قہوہ خانوں میں خوشبو دار لبنانی اَہواہ (کافی) کی چسکیاں لیتے اور خوشبودار حقوں کے کش لگاتے دانشور رات گئے تک محفلیں برپا کرتے ہیں۔ پہلے ان قہوہ خانوں میں شام، مصر، عراق، لیبیا، الجزائر، ویتنام اور دیگر ممالک میں برپا انقلابی اور آزادی کی تحریکیں موضوع ہوتے تھے اور آج عراق، شام، لیبیا اور مشرقِ وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کی برپا کی گئی اندرونی فرقہ وعقیدہ پرست جنگیں۔ بیروت جسے کبھی کوئی زیر نہ کرسکا اور جس کے کیفے جنگوں کی راکھ سے دوبارہ آباد کیے گئے، لبنانی قوم کے زندہ رہنے کا ایک اظہا رہے۔
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیل باغِ جناں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).