گاما دہی والا اور راؤ انوار۔۔۔


محترم، جناب، قابل عزت و ذی وقار و ذی حشمت ہستی راؤ انوار صاحب بالآخر مہینوں بعد پیش ہوئے اور منہ دکھائی کروا دی اور ان کو منہ دکھائی میں گرفتاری بھی مل گئی۔ سوالات اٹھتے رہے، اٹھتے رہیں گے، جواب ملے نہیں اور ملیں گے بھی نہیں۔ بطور مجموعی معاشرہ تنزلی کی طرف کا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے اور طے کرتا رہے گا۔ اس پیشی اور گرفتاری تک کی لکن میٹی، چھپن چھپائی نے پاکستانی نظام مملکت پہ ایسے سنجیدہ سوال چھوڑ دیے ہیں جو نظام کو پہلے ہی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اور تب تک چاٹتے رہیں گے جب تک ان کے جواب نہیں مل جاتے۔ اور جواب ملنے کی آس پہ کئی آئے، کئی گزر گئے، کئی آئیں گے۔

ان کی گاڑی وہاں جا کر رکی جہاں بڑے بڑے پھنے خان بھی نہیں لے جا سکتے۔ فرق تھا، فرق ہے، فرق رہے گا۔ ہم آ گئے، سلوک بھی نرم رکھیے، ہم نہ آتے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے، یہ کہا نہیں گیا مگر پھر بھی یہ کہہ دیا گیا۔ ہم کہاں تھے، ہم کہاں آئندہ بھی رہیں گے یہ بھی آپ نہیں جانتے نہ آپ جاننے کی جرات کیجیے گا، یہ بھی کہا نہیں، مگر نہ کہتے ہوئے بھی کہہ گئے۔ راؤ انوار ایک کردار ہے یہ دیوانے کی بڑ کی طرح پہلے بھی کہا اور آج بھی کہنا ہے۔ ایسے کرداروں کی پشت پہ مہان ہستیاں کون ہوتی ہیں جن کے نام نہیں ہوتے مگر پھر بھی انہیں سب جانتے ہیں۔ اور ہمیں شاید جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیس چلے گا، آگے بڑھے گا، معافی تلافی ہو گی، مدعیوں سے لین دین ہو گا، یا پھر سزا ہو گی، مگر پورے کیس میں شاید پشت پناہوں کے ناموں کی طرف نہ دھیان کسی کا جائے گا نہ کوشش کی جائے گی کہ دھیان جائے۔ کیوں کہ ان قلعوں کی دیواریں، جہاں راؤ انوار جیسے کردار بسیرا کرتے ہیں، اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ وہاں بادشاہوں کی جانب سے نصب کی گئی رعایا کے لیے انصاف کی گھنٹیاں بجنے کی آواز نہیں پہنچ پاتی۔ اور ان دیواروں کے پیچھے ایسے آسیب ہوتے ہیں جو ایسی ہر آواز کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں جو دیوار کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتی ہے۔

دیہاتی سا بندہ ہو تو ذہن کے گم گوشوں میں ایسے سوال ابھرنا فطری عمل ہے کہ کہ جب کوئی ماجھا، شیدا، دولا، مودا پکڑے جاتے ہیں تو حوالات یاترا کے بعد کئی دن ان سے سیدھا نہیں ہوا جاتا، مہینے گزر جاتے ہیں وہ وکھیوں پہ ہاتھ رکھے چلتے نظر آتے ہیں، اور تو اور ان کے سروں پہ صافے بھی مستقبل بندھے نظرآنا شروع ہو جاتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اب خدارا ان ابھرنے والے سوالوں کا مطلب یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ خدانخواستہ ان سوالوں کا مقصد راؤ انوار کی گرفتاری سے منسلک ہے۔ جناب راؤ صاحب حوالات میں رہیں یا ایام گرفتاری بھی وہاں گزاریں جہاں پہلے تھے ہمیں اس سے کیا۔ اور ہمیں کیا غرض کہ انہیں پروٹوکول ملے یا اے کلاس ملے۔ ہم کون ہوتے ہیں سوال کرنے والے۔ اور گستاخی کا سوال اس لیے بھی نہیں کر سکتے، کہ گستاخی معاف کا جواب جو پیدا نہیں ہوا۔

راقم گستاخ الفاظ کو کبھی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ کہنے کی جرات بھی کریں کہ راؤ اور گامے، ماجھے، شیدے دوران قید برابر تصور کیے جائیں۔ اور یہ سوال تو ذہن میں بطور سوچ ابھارنا بھی راقم کے نزدیک گناہ ہے کہ راؤ کی سکیورٹی پہ اٹھنے والے اخراجات غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کیوں کر ادا ہوں۔ اللہ معاف کرے ہمارے الفاظ کہاں اس قابل کہ وہ بکھر کے یہ مطالب واضح کرنے کی کوشش کریں کہ اگر مودا، گاما، شیدا مہینوں بلانے پہ بھی نہ آئے تو آتے ہی وہ ماسک منہ پہ لگائے، نئے لباس میں جھرمٹ یاراں میں حاضری کی جرات کرے تو اسے عزت سے زنداں میں پہنچا دیا جائے گا۔

نہ نہ نہ۔۔۔۔۔ نہ جراتِ سوال ہے نہ طاقتِ مطلوبِ جواب ہے۔ بس گاما دہی والا اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ اُس نے پچھلے دنوں دہی کے ریٹ زیادہ لگانے پہ حوالات کی سیر کی ہے۔ بقول گامے دہی والے کے اُس نے اِس سیر کو خوب انجوائے کیا ہے۔ اس کی کمر پہ مناسب سائز کے نشانات اس کی سیر کے دنوں کی یادگار کے طور پہ موجود ہیں۔ اور ان نشانات کے درمیان کہیں کہیں ابھری ہوئی جلد بھی مزید تصدیق کے لیے موجود ہے۔ اور گاما مزید لب کشائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وادیِ حوالات اتنی خوبصورت ہے کہ آپ کا پوری رات سونے کا من ہی نہیں ہوتا۔ اس سے دریافت کیا کہ بھئی کہیں نہ سونے کی وجہ کھٹمل تو نہیں، تو اس نے حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا کہ نہیں جی جناب۔۔۔ وہ کھٹمل تو قید تنہائی کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اور وہ جو بدن پہ کاٹتے ہیں وہ کاٹنا نہیں ہوتا وہ تو ان کا پیار ہوتا ہے۔ اس کے بقول حوالات کا ٹوٹا فرش تو نعمت ہوتا ہے کہ انسان پاؤں مناسب جگہ ٹکا کے سکون کر سکتا ہے، ہموار جگہ تو نرا عذاب ہوتی ہے۔ گامے کے بقول رات کو “چناں کتھاں گزاری آئی رات وے” جیسی موسیقی سے مفت میں لطف اندوز بھی ہوا جا سکتا ہے۔

گامے کی آپ بیتی سے ہمیں ویسے کوئی غرض نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک ظالم دہی والا ہے اور دہی کے ریٹ بھی زیادہ لگانا، توبہ توبہ، ایسے جرم کا تو نہ سنا نہ دیکھا۔ اور دست بدست عرض پرداز کہ اس آپ بیتی کو راؤ جی کی گرفتاری سے بھی ہرگز نہ جوڑیے گا کیوں کہ مظلوم راؤ صاحب تو پس سلاسل ایک انتہائی کرب ناک ماحول میں ہوں گے۔ اور تو اور بے چارے راؤ صاحب کو تو زنداں کا مزیدار کھانا بھی شاید دستیاب نہ ہو اور باہر سے ہی لا کے کچھ انہیں زہر مار کرنا پڑے۔ ظلم پہ ظلم تو شاید یہ ہو کہ انہیں قید تنہائی جیسی لذت سے بھی شاید آشنائی نہ ہو سکے کہ ایک آواز پہ پروٹوکول افسر دوڑے آئیں، خدارا یہ ظلم ہو گا۔ گاما تو کہہ رہا تھا کہ وہ بینر بنوا رہا ہے احتجاج کے لیے کہ راؤ صاحب کو تکلیف کیوں دی جائے پیشی کی بلکہ زنداں میں ہی انصاف کا نقارہ بجایا جائے۔ بڑا سمجھایا ہے گامے کو کہ راؤ صاحب سہہ لیں گے مگر وہ مان کے ہی نہیں دے رہا اس کے بقول وہ ہڑتال بھی کرے گا کہ راؤ صاحب جیسے بیمار کو جو درجہ بندی حوالات میں شاید دی جائے اس میں امپورٹڈ مصنوعات لازمی ہونی چاہیے۔ وہ یہ ظلم گوارا نہیں کرے گا کہ انہیں بس چند خدمتگاروں پہ ہی ٹرخا دیا جائے، یا ان کو ایک آدھ خانساماں دے کے کہا جائے کہ لو بھئی اسی پہ گزارہ کرو،

گامے کو اس بات کا بھی شدید غصہ ہے کہ وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ راؤ صاحب جیسا شریف النفس کردار زنداں میں تفریح طبع کے لیے کسی قد آدم ایل ای ڈی سکرین وغیرہ پہ انحصار کرتا رہ جائے۔ وہ ان کے لیے تھری ڈی سینما کا بندوبست کرنے پہ بھی احتجاج کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اب گامے کو کوئی کیا سمجھائے کہ بھئی تم ماشا اللہ سے گاما دہی والا کہلاتے تھے، کاروباری شخص ہو تم نے جو سہولیات حوالات میں حاصل کی تھیں وہ بھلا راؤ صاحب جیسے سرکاری ملازم کو کیسے مل سکتی ہیں، تم دہی کے ریٹ بڑھانے والے بزنس مین ہو تم نے جو انجوائے حوالات میں کیا ہے اور پیٹھ و کمر پہ انجوائمنٹ کے نشان سجائے بیٹھے ہو وہ بھلا راؤ صاحب جیسے عام سے پولیس افسر کا نصیب کیسے ہو سکیں۔

مگر گاما دہی والا نہیں سمجھ رہا اور احتجاج کا پورا پروگرام بنائے بیٹھا ہے، بڑا سمجھایا اسے کہ کہاں گاما دہی والا اور ایک عام سا راؤ انوار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).