راسپوٹین کی موت


راسپوٹین دنیا کا سب سے بڑا گنہگار اور بدخصلت انسان جو روس میں پیدا ہوا، ولی سمجھا جاتا تھا، مگر درحقیقت وہ ایک شیطان تھا جس کے ہاتھوں زارِ روس کی عظیم الشان سلطنت برباد ہوئی اس کی گناہوں بھری زندگی اس قدر حیرت خیز ہے کہ اس پر کسی خیالی افسانے کا گمان ہوتا ہے۔

چھ فٹ دو انچ لمبے قد کا یہ گرانڈیل راہب جس کا سرگنبد نما تھا کئی سال روس پر اپنی شیطانی صفات کی بدولت حکمران رہا۔ اس کی حیرت انگیز قوت کاراز اس چیز میں مضمر ہے کہ ہپناٹزم میں اسے کمال حاصل تھا ۔ اس قوت کے ذریعہ سے وہ مضبوط سے مضبوط ترین آدمی کو بھی اپنا گروید ہ بنالیتا تھا۔ ہپناٹزم جاننے کے علاوہ علم کشف میں بھی اسے مہارت حاصل تھی چنانچہ اسی علم کی وساطت سے زارینہ سے اس کاتعارف ہوا۔

واقعات بتاتے ہیں کہ بہت جلد راسپوٹین نے زارینہ کو محصور کرلیا۔ اس کے علاوہ اس نے شاہی محل کی تمام پیش خادموں، زارینہ کی تمام خوبصورت سہیلیوں اور خاندانِ شاہی کی قریب قریب تمام بیگموں کو اپنا مرید بنالیا۔ یہ تمام عورتیں بہ رضا و رغبت اس کی خواہشوں کے سامنے جُھک گئیں۔ یہ بات بہت ہی شرمناک ہے مگر حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ خود زارینہ کو بھی آہستہ آہستہ اس کا یقین ہوگیا تھا کہ جب تک راسپوٹین کے ساتھ جسمانی گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے خدا کے ہاں نجات ممکن ہی نہیں عورتیں چھپ چھپ کر اور بھیس بدل کر اس شیطان راہب کے پاس جاتی تھیں ، نہیں معلوم کہ اس میں ایسی کون سی طاقت تھی کہ عورت سامنے آتے ہی بالکل مسحور اور بے بس ہوکر رہ جاتی تھی۔

پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ زار اورزارینہ کو یقین تھا کہ راسپوٹین خدا کی طرف سے اس لیئے آیا ہے کہ روس کو فتح و ظفر اور عزت و شان سے ہم آغوش کردے، لیکن راسپوٹین اصل میں جرمن جاسوس تھا اور اس کی کوشش یہی تھی کہ روس اپنے اتحادیوں سے جدا ہوکر جرمن سے صلح کرلے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حد درجہ غلیظ ہونے کے باوجود راسپوٹین سے نہ زارینہ کوگِھن آتی تھی نہ کسی دیگر خاتون کو ۔ وہ بالکل غسل نہیں کرتا تھا ۔ اس نے کبھی منہ ہاتھ بھی نہیں دھویا تھا۔ اس کے بدن سے سخت بدبو آتی تھی اس کے لمبے لمبے ناخنوں میں ہر وقت میل بھرا ر ہتا تھا داڑھی اس کی بے حد مکروہ تھی جس کے بال میل اور چکناہٹ کے باعث آپس میں جمے رہتے تھے۔ بہت ہی بدتمیز تھا یورپی آداب کے خلاف ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا۔ اور اپنی بھری ہوئی انگلیاں شہزادیوں کی طرف بڑھا دیتا تھا جو ان کو چوس کر صاف کردیتی تھیں۔

1916ء کے آخر میں روس کی ناگفتہ بہ حالت تھی ۔ ڈھائی سال سے ملک میں بدامنی اور قحط کا دور دورہ تھا ۔ فوجوں کے سپاہی اپنے وطن کی محبت کا جذبہ دل میں رکھتے تو تھے لیکن وہ ایک بے مقصد لڑائی لڑتے لڑتے اُکتا گئے تھے جس میں انہیں پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ان کو حکومت کی طرف سے پورے ہتھیار بھی نہیں دیئے جاتے تھے کہ وہ جرمنوں کا بہ طریقِ احسن مقابلہ کرسکیں چنانچہ فوجوں میں بددلی پھیل گئی اور 1916ء میں دس لاکھ روسی سپاہی بستر بوریا باندھ کر اپنے گھر چل دیئے۔

جب حالات اس درجہ مکدّر ہوگئے توشاہی خاندان کے مردوں کے کان کھڑے ہوئے چنانچہ گرانڈ ڈیوک تکوس اور میکائل کی سرکردگی میں ایک وفدزار کے پاس گیا۔ اور زارینہ کے چال چلن پر شبہ کا اظہارکیا اور درخواست کی کہ ملک کی بدحالی اور بدانتظامی دُور کرنے کے لیئے فوری طور پر کچھ کیا جائے۔ زار نے اس وفد کی کوئی بات نہ سنی چنانچہ اس کے رشتہ داروں نے سوچا کہ روس کو بچانے کے لیئے اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے وہ یہ کہ خود کچھ کیا جائے۔ چنانچہ سینٹ پیٹرز برگ میں امراء نے شاہی محل کی آخری سازش کا انتظام کیا ۔ پروگرام میں سب سے پہلے راسپوٹین کا قتل تھا۔

 17دسمبر کی رات کو شاہزادہ یوسوپوف نے مجلس رقص وسُرور قائم کی اور راسپوٹین کو اس میں مدعو کیا۔ چونکہ راسپوٹین موسیقی کا دلدادہ تھا ۔ اس لیئے سازشیوں کو یقین تھا کہ وہ ضرور آئیگا۔

یوسوپوف:    شیطان آج ہمارے جال سے بچ کر نہیں جائے گا۔ پال ، تم نے زہر کی طرف سے اپنا اطمینان کرلیا۔

پال سیتپانوف:   کرچکا ہوں۔ چند قطرے ایک کتے کے حلق میں چوائے جو فوراً ہی مرگیا۔ اس کی لاش باہر صحن میں پڑی ہے۔

یوسوپوف:    آج اس رات اس کتے راسپوٹین کی لاش بھی اسی صحن میں پڑی ہونی چاہیئے۔۔۔ تمہارا خیال کیا ہے ، کہیں دعوت میں آنے سے انکار نہ کردے۔

پال سیتپانوف:   میرا خیال ہے انکار نہیں کرئے گا۔ اس لیئے کہ ہم اسے ایک معشوقہ کا لالچ بھی تو دے چکے ہیں۔

یوسوپوف:    میں بھول ہی گیا تھا۔ جب اس نے اس معشوقہ کے سراپا کی تعریف سنی ہوگی توپانی بھر آیا ہوگا، غلیظ شیطان کے منہ میں۔

پال سیتپانوف:   باقی لوگ کہاں ہیں۔

یوسوپوف:    سب اپنی اپنی جگہ پر مستعد ہیں ۔ تم بالکل بے فکر رہو۔

پال سیتپانوف:   ایسا نہ ہو کہ مجھے دیکھ کر ٹھٹک جائے۔ اس سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔

یوسوپوف:    تم بے فکر رہو میں سب ٹھیک کر لوں گا۔۔۔ اس سے کہہ دو ں گا کہ پال سیتپانوف اپنا آدمی ہے۔ غیر نہیں!

پال سیتپانوف:   اچھا یوں ہی سہی ۔۔۔ میرا تو دل دھڑک رہا ہے ۔ کم بخت کے اتنے افسانے سن چکا ہوں کہ اب وہ مجھے بُھوت معلوم ہوتا ہے۔

یوسوپوف:    دوست آج یہ بھوت نہیں رہے گا ۔۔۔ روس کی مقدس سرزمین پر آج اس کا ناپاک وجود نہیں رہے گا کیا ہم سب اس کا حلف نہیں اُٹھا چکے۔ اس غدار و دجّال اور گنہگار انسان کو مارنا بہت بڑا کارِ ثواب ہے۔

پال سیتپانوف:   اس میں کیا شک ہے۔

یوسوپوف:    دس بجنے والے ہیں۔ آؤ اب شراب میں زہر ملا دیں۔

پال سیتپانوف:   یہ دوبوتلیں ہیں۔ ان میں سے ایک میں یہ زہر گھو ل دو۔۔۔ دوسری بوتل میں کچھ نہ ڈالو مگر زہر والی بوتل پر نشان ضرور لگا دیناچاہیئے۔ ایسا نہ ہو کہ عین اس وقت پر گڑ بڑ ہوجائے۔

یوسوپوف:    میں نشان لگائے دیتا ہوں۔ اوّل تو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ شراب کی طرح دونوں بوتلیں بھی مختلف ہیں۔

پال سیتپانوف:   اس میں ڈال دوں۔

یوسوپوف:    ڈال دو۔ اور اچھی طرح ملا دو۔

شراب میں زہر ملا دیا گیا۔ سب تیاریاں مکمل ہوگئیں۔ پرنس یوسوپوف کے گھر میں کئی آدمی چھپے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نام پرنس منزی تھا اور دوسرا پال سیتپانوف۔ ان کے علاوہ ایک مشہور رقاصہ بھی تھی۔ جس کا لالچ راسپوٹین کودیا گیا تھا۔

سب انتظامات مکمل تھے مگر اندیشہ اس بات کا تھا کہ راسپوٹین کہیں پرنس یوسوپوف کی دعوت مسترد نہ کردے۔ وعدہ خلافی نہ کرجائے۔ رات کے گیارہ بج گئے۔ راسپوٹین نہ آیا۔ اب پرنس اور اس کے ساتھیوں کو سخت تشویش ہوئی۔

متری:  کہیں جاسوسوں نے اس کو ہماری سازش سے آگاہ تو نہیں کردیا۔

یوسوپوف:    نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ہمارے سوا اس سازش سے اور کون آگاہ ہے۔ اگر اس کو پتہ چل گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اس شیطان کے جاسوس ہیں۔

پال سیتپانوف:   سوال یہ ہے کہ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔

یوسوپوف:    کسی معشوقہ کے ہاں رُک گیا ہوگا۔

پال سیتپانوف:   ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔

متری:  حرا م زادے پر عورتیں یو ں ٹوٹتی ہیں جیسے شہد پر مکھیاں ۔

یوسوپوف:    آج آ جائے تو یہیں سارا چھتہ ہی نچوڑ دوں۔

پال سیتپانوف:   یوسوپوف! تم ٹیلیفون کرو اور اس کے گھر سے پتہ لو کہ کہاں ہے۔

یوسوپوف:    ٹھیک ۔ لو میں ابھی کرتا ہوں (نمبر ملتا ہے) ہیلو ۔۔۔ ہیلو۔۔۔ مقدس باپ کہاں ہیں؟ ۔۔۔ کیا کہا؟۔۔۔ چلے گئے؟۔۔۔ کب ؟ ۔۔۔ کہاں؟

(ٹیلیفون کا چونگا رکھ دیتا ہے)

پال سیتپانوف:   کہاں گیا؟

متری:  گھر میں نہیں ہے کیا؟

یوسوپوف:    خادم بتاتا ہے کہ مقدس باپ ٹھیک گیارہ بجے گھر سے نکل گئے تھے۔

متری:  مقدس باپ ۔۔۔ شیطان کا بچہ ۔۔۔ مقدس باپ !!

یوسوپوف:    ایسا نہ ہو کہ ہماری سازش یہاں دھری کی دھری رہ جائے۔

متری:  روس کی نجات اس وقت ناممکن ہے جب تک یہ شیطان زندہ ہے۔

اگر وہ آج نہ آئے تو اسے کل بلایا جائے اور کسی نہ کسی حیلے سے اس کا کام تمام ضرور کر دیا جائے۔

پال سیتپانوف:   سب انتظامات مکمل ہیں۔ ایسا موقع شاید ہی پھر کبھی ہاتھ آئے۔

یوسوپوف:    کچھ دیر اور انتظار کرلیتے ہیں۔ شاید آجائے۔

پال سیتپانوف: اگر اسے آنا ہوتا تو اب تک آگیا ہوتا۔ جہاں خوبصورت عورت، رقص و سُرود اور شراب کا سوال ہو وہاں وہ کبھی دیر نہیں کرتا۔ عین وقت پر پہنچا کرتا ہے۔

متری:  ہوسکتا ہے کہ ہماری دعوت میں اسے کوئی دلفریب بات نظر نہ آئی ہو۔

یوسوپوف:    دعوت کو دلفریب بنانے میں ہم نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ خوبصورت عورت، رقص ، شراب اور تخلیہ یہ سب چیزیں ہم اسے دعوت میں پیش کرچکے ہیں۔ اس کے یہاں نہ آنے کی کوئی اور ہی وجہ ہوگی۔

متری:  ٹھہرو۔۔۔ یہ تم نے آواز سُنی ۔

یوسوپوف:    وہ آگیا ۔۔۔ یہ آواز اسی کی موٹر کی ہے ۔ وہ آگیا ۔۔۔ اب تم سب تیار ہوجاؤ ۔۔۔ دیکھو ایسی بات نہ ہوکہ وہ تاڑ جائے۔

ٹھیک گیارہ بج کر بیس منٹ پر راسپوٹین کی موٹر دروازے پر آکر رُکی ۔ وہ اس میں سے اترا موٹر خفیہ دروازے پر روکی گئی تھی راہب کو بڑی احتیاط کے ساتھ اندر داخل کیا گیا کہ کوئی دیکھنے نہ پائے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2