عورت اور مرد کی برابری: آخر مسئلہ کیا ہے؟


کئی صدیوں سے سوائے چند غیر معمولی مستثنیات کے بہت سے مشرقی اور مغربی معاشروں میں مردوں نے عورتوں کو محکوم بنا رکھا ہے حتی کہ اب عورتوں نے اس محکومیت کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ وہ انفرادی طور پر اس کی شکایت کر تی ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے اس کے خاتمے کے لیے کسی منظم جدوجہد کا آغاز نہیں کیا۔ موجودہ عہد میں قوانین کی سوچ میں تبدیلی ایبیجیزل ایڈمز Abigail Adams کی شکل میں سامنے آئی۔ وہ اپنے شوہر ”جان ایڈم“ (امریکہ کے بانیوں میں سے ایک منفرد شخصیت جو بعد میں امریکہ کے دوسرے صدر رہے) کے نام 31 مارچ‘ 1776ء کو لکھے گئے ایک خط میں امید ظاہر کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ ”اس کا شوہر اور اس کے ساتھی مرد کی عورت پر بالادستی کو ختم کرنے کے لیے قوانین بنائیں گے۔ وہ اسے آگاہ کرتی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ”ہم خواتین نے بغاوت کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور ہم پہلے سے موجود کسی ایسے قانون کی پرواہ نہیں کریں گی جس میں ہماری آواز اور نمائندگی شامل نہیں ہے“۔

جان ایڈم نے اس مطالبے کو مضحکہ خیز کہتے ہوئے کہا کہ ہم معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مرد کی بالادستی کے نظام کے خاتمے کی بجائے کیا کرنا ہو گا لیکن پھر اس نے اس مسئلہ کی شدت کو کم کرنے کے لیے کہا کہ یہ نظام نظریاتی سے کچھ ہی زیادہ ہے اور پھر عملی طور پر ہم خود بھی اس کا شکار ہیں ہم صرف نام کے مالک ہیں اور اگر مرداس سے بھی دستبردار ہو گئے تو وہ مکمل طور پر اس زنانہ حکومت کے جبر کا شکار ہو جائیں گے۔

ایبیجیزل ایڈمز Abigail Adamsاپنے وقت سے آگے کی خاتون تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی تک امریکی عورتیں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت سے محروم تھیں اور مختلف شعبوں (قانون‘طب‘ سیاست اور وزارت ) تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ وہ اپنے بچوں کی تحویل کے قانونی حق سے بھی محروم تھیں اور بہت ساری ریاستوں میں شادی کرنے پر اسے اپنی جائیداد کا قبضہ اپنے شوہر کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔

قانون نے ایک مرد کو اپنی بیوی کو مارنے یا اسے سزا دینے کی اجازت دے رکھی تھی۔ 1850ء میں الزبتھ سٹینٹن Elizabeth Stanton اورانتھونی Anthony سوسن بی Susan B, کی راہنمائی میں عورتوں کے حقوق کی تحریکیں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ امریکی عورتیں 1920تک ووٹ کا حق حاصل نہ کر سکیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ میں حق رائے دہی کی حامی خواتین کا مذاق اڑایا جا تا ‘ان سے بدتمیزی کی جاتی‘ انہیں مارا جاتا اور عوامی مظاہروں میں زیادہ نمایاں عورتوں کو عام طور پر جیل بھیج دیا جاتا تھا اسی طرح یورپ میں بھی عورتوں کی آزادی کی تحریک زیادہ کامیاب نہ رہی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ میں عورتوں اور مردوں کی برابری نے ڈرامائی انداز میں کامیابی حاصل کی حتیٰ کہ ویت نام میں جنگ کے دوران اور بعدمیں مزید کامیابی حاصل کی۔ انہیں اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ اختیار کرنے سے نہ تو قانون اور نہ ہی رسم و رواج روک سکے اب وہ طلاق ‘ بچوں کی تحویل اور کفالت کے معاملات میں بے بس نہیں رہیں۔ اسی طرز پر دیگر مغربی معاشروں میں عورتوں کے حقوق کی صورتحال میں زیادہ بہتری آئی ہے۔

اس صورتحال میں پاکستانی عورت کا مقام کیا ہے؟ قانون مردوں کی طرح انہیں بھی تعلیم‘ شعبے اور پیشے کے انتخاب کی اجازت دیتا ہے تاہم خواتین کو مخصوص شعبے کے سوا فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت نہیں ہے تاہم اگر فوج محاذ جنگ پر برسر پیکار رہے تو خواتین اگلے مورچوں پر زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال کا کام کر سکتی ہیں۔

پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز کی بہت بڑی تعداد ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد وکیل‘ صحافی‘ سیاست دان‘ سرکاری ملازم‘ سفارت کار‘ پولیس افسر‘ سکول ٹیچر اور کالج میں پروفیسر‘ بینکرز‘ انجینئرز اور حتی کہ صنعت کار بن رہی ہیں۔ پاکستانی عورتوں کی بڑی تعداد مختلف قسم کے سٹورز کی مالک ہے اور دیگر کاروبار چلا رہی ہیں۔ پھر ان کی محرومی اور برا سلوک کس حوالے سے ہے؟

اگر غور کیا جائے تو شادی‘ طلاق‘ بچوں کی تحویل‘ وراثت‘ ذاتی وضع قطع‘ لباس اور اجنبی مردوں کے ساتھ ملنے جلنے جیسے معاملات جہاں اسلامی قانون لاگو ہو تا ہے ان میں عورتوں کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت ”سنی“ ہے لہذا یہاں صرف چار بڑے سنی مکتبہ فکر اور فقہ کے حوالے سے بات کروں گا جن کے بانی امام ابو حنیفہ النعمان ابن ثابت (699-767)‘ امام مالک ابن انس العشبی 715-795))‘ امام محمد ابن ادریس الشافعی (767-820) اور اما م احمد ابن حنبل(780-855) ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ تمام مکتبہ فکر مساوی طور پر اسلامی ہیں کوئی پاکستانی حنفی یہ دعوٰی نہیں کرنا چاہے گا کہ وہ سعودی عرب کے حنبلی سے زیادہ مسلمان ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2