غربت میں کون سی عظمت ہے؟


مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو ہر مسئلے کا حل چٹکیوں میں سمجھا دیتے ہیں۔ سوال چاہے جتنا بھی گمبھیر ہو، جواب میں آپ کبھی ان کے منہ سے یہ نہیں سنیں گے کہ میں اس بارے کچھ نہیں جانتا یا مجھے اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، وہ ہمیشہ دو ٹوک بیان دیں گے، قطعیت کے ساتھ۔ کچھ نمونے کے سوالات ملاحظہ ہوں۔ اگر قسمت میں سب کچھ لکھا ہے تو محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کون سا وظیفہ پڑھیں جس سے تمام مسائل حل ہو جائیں؟ مسلمان دنیا میں رسوا کیوں ہو رہے ہیں؟ پیسہ کمانے کی خواہش کس طرح انسان کا سکون برباد کر دیتی ہے؟ ذہین فطین لوگ امیر کیوں نہیں ہوتے، جاہل اور ان پڑھ دولت کیسے کما لیتے ہیں؟ سکون قلب کیسے حاصل کیا جائے؟ غم اور نا امیدی سے نکلنے کا نسخہ کیا ہے؟ زندگی میں درست فیصلے کیسے کیے جائیں؟ دعائیں کیسے قبول ہوتی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا کوئی آسان جواب نہیں مگر آپ یو ٹیوب کھولیں، وہاں آپ کو پاکستانی دانشوروں کی زبانی ان تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔

ان دانشوروں کو لاکھوں لوگ سنتے ہیں، ان کی پیروی (یعنی ’فالو‘ ) کرتے ہیں اور ان سے باقاعدہ عقیدت رکھتے ہیں۔ لوگ انہیں موٹیویشنل سپیکر بھی کہتے ہیں مگر میں انہیں دانشور ہی کہوں گا کیونکہ ان میں کچھ ایسے بڑے نام بھی شامل ہیں جو شاید خود کو ترغیبی مقرر کہلوانا پسند نہ کریں۔ میں ان سب کا احترام کرتا ہوں کیونکہ بہرحال یہ عوام کو مثبت باتیں بتاتے ہیں، انہیں مسائل سے نکلنے کے گر سمجھاتے ہیں اور کسی حد تک لوگوں کی زندگیوں میں امید کے چراغ روشن کیے رکھتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود مجھے ان ترغیبی مقررین سے کچھ اختلافات ہیں۔ یہ احباب بعض اوقات نہایت سطحی قسم کی گفتگو کرتے ہیں اور اپنے نکتہ نظر کی حمایت میں دلائل دیتے وقت کسی قسم کی تحقیق کا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ مثلاً کچھ باتیں آپ کو ان کی گفتگو میں اکثر سننے کو ملیں گی کہ میں نے زندگی میں کسی ایسے شخص کو ناکام ہوتے نہیں دیکھا جس کی ماں روزانہ اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ اب یہ ایسی بات ہے جس کی بھرے مجمع میں تردید کرنا ممکن نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سڑک کے کنارے بھیک مانگتے ہوئے بچے بھی کسی ماں کے ہی ہوتے ہیں، کیا اس ماں نے اپنے بچے کے لیے یہ دعا مانگی ہوتی ہے کہ میرا بچہ بھیک مانگے؟

چلچلاتی دوپہروں میں گھنٹوں کام کرنے والے مزدوروں کی کیا مائیں نہیں ہوتیں جو ان کے لیے دعا کریں؟ مجبوری کے عالم میں گھر سے نکل کر کام کرنے والی لاغر جسموں والی لڑکیاں کیا بغیر ماں کے پیدا ہوتی ہیں؟ ان کی ماں بھی دعا کرتی ہے کہ میری بیٹی کی عزت سے وقت پر شادی ہو جائے مگر ایسی دعائیں صرف کروڑ پتی ماؤں کی ہی قبول کیوں ہوتی ہیں؟

ہمارے دانشوروں کو غربت کی مالا جپنے کی بھی بہت عادت ہے۔ ایک پروفیسر صاحب سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ جاہل اور ان پڑھ لوگ دولت مند ہیں اور ذہین اور حساس لوگ غربت میں رہتے ہیں۔ اس سوال کا پروفیسر صاحب نے کچھ یوں جواب دیا : غربت میں عظمت ہے جو امیر لوگوں کو نصیب نہیں ہوتی، اب آپ بتاؤ کہ کون سا گروہ اچھا ہے، امیر کا یا غریب کا، جب بادشاہ عیاشیوں میں ڈوبے رہتے ہیں تو ان کی اولاد در بدر ہوجاتی ہے، اگر آپ چنگیز خان سے اب تک بادشاہوں کی فہرست بنائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ عزت صرف غریب لوگوں کو ہی ملتی ہے، غربت اور امارت میں اصل فرق کردار کا ہوتا ہے، غربت میں خدا کردار کی زیادہ طاقت دیتا ہے جبکہ امارت ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔

پروفیسر صاحب کی بات سے صرف اس حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی شخص میں اصل فرق کردار کا ہوتا ہے پیسے کا نہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی صاحب ثروت صاحب کردار نہیں ہو سکتا۔ اور یہ نکتہ بھی نہ جانے انہوں نے کہاں سے نکالا کہ عظمت صرف غربت سے جنم لیتی ہے! دنیا کی تاریخ ایسے عظیم لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے امارت میں آنکھ کھولی اور امیر ہی فوت ہوئے۔ ایسی بھی کوئی تحقیق نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ عیاش بادشاہوں کی اولاد ہمیشہ نا مراد ہی رہی، بے شمار بادشاہ تاریخ میں ایسے گزرے ہیں جن کی اولادیں ان سے بڑھ کر عیاش تھیں۔

اور یہ بات کرنا تو خیر فیشن ہے کہ امیر آدمی ہمیشہ ٹینشن میں رہتا ہے جبکہ غریب چین کی نیند سوتا ہے چاہے وہ اینٹوں کا تکیہ بنا کر ہی کیوں نہ سوئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ پروفیسر صاحب سے کسی نے پوچھا کہ دین کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب انہوں نے دیا کہ اگر آپ کسی دین کو نہیں مانیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ ایک برے بزنس مین ہیں کیونکہ لادین ہونے کی صورت میں اگر قیامت کے روز خدا موجود ہوا تو آپ کا بھاری نقصان ہو گا۔

سچی بات ہے کہ اس قسم کا جواب سن کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی، ایک تو پروفیسر صاحب نے ’Pascal Wager‘ کا حوالہ دیے بغیر یہ بات کی، پاسکل وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے ریاضی کی مدد سے یہ دلیل تراشی تھی کہ خدا کو نہ ماننے کی نسبت اسے ماننے میں زیادہ ’فائدہ‘ ہے اور دوسرے یہ کہ میں پروفیسر صاحب کو پاسکل سے بہتر سمجھتا تھا اس لیے ان سے قدرے عالمانہ جواب کی توقع کر رہا تھا۔ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر پوری زندگی کو کاروبار سمجھ کر گزارنا چاہیے اور جس بات میں فائدہ ہو اس کو گلے لگا لینا چاہیے جبکہ ایک صاحب کردار آدمی نفع نقصان کی پروا کیے بغیر حق اور باطل کا فیصلہ کرتا ہے!

ہمارے دانشوروں کا بھی وہی مسئلہ ہے جو پوری قوم کا ہے، تحقیق کا فقدان۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے جو ہم میں اور ترقی یافتہ اقوام میں ہے۔ جن موضوعات پر اپنے ہاں دانشور حضرات گفتگو کرتے ہیں ان موضوعات پر مغربی ممالک میں روزانہ درجنوں کتابیں شائع ہوتی ہیں جن میں پوری تحقیق کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے، دیگر مصنفین اس کی پڑتال کرتے ہیں، نئی تحقیق ہوتی ہے، مزید نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور یوں علم کا یہ سلسلہ آگے چلتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم اس قسم کی تحقیق سے نا بلد ہیں، ہمیں قصے کہانیاں اور حکایتیں سننے میں مزا آتا ہے، یہی قصے کہانیاں ہمارے ترغیبی مقرر اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں اور پھر اس قسم کے نتیجے اخذ کرتے ہیں کہ جس کی ماں دعا کرتی ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، دولت انسان کو برباد کر دیتی ہے اور عظمت ہمیشہ غریب کے گھر جنم لیتی ہے۔

میری رائے میں یہ ترغیبی مقرر معاشرے کے نسبتاً ذہین اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، انہیں محض مقبولیت سمیٹنے کی غرض سے یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ ہمیشہ ٹھوس بات کرنی چاہیے جو تحقیق سے ثابت شدہ ہو۔ لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں، ان سے متاثر ہوتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں اور کھوکھلے جذباتی پن کی ترویج نہ کریں، اللہ انہیں مزید صارفین (subscribers) دے گا!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments