نوٹ: تمباکو نوشی صرف ماہرہ خان نہیں سب کی صحت کے لئے مضر ہے


جی یہ حفظ ماتقدم کے طور پر ہم نے پہلے ہی کہہ دیا ہے تاکہ آپ میں سے کچھ احباب ہم پر کم سے کم یہ نکتہ چینی نہ کریں۔ معاف کیجئے گا کہ جب سے یو ٹیوب اور سوشل میڈیا کی لت لگی ہے عرصہ ہوا ٹی وی نہیں دیکھا۔ جب بچپن میں دیکھا کرتے تھے تو ہمیشہ سگریٹ کے اشتہا انگیز اشتہار کے بعد یہ ڈسکلیمر چلا کرتا تھا۔ کہ صاحب کہا سنا معاف ہو۔ سگریٹ کی ڈبی پر ابھی بھی کچھ ایسی ہی باتیں لکھی ہوتی ہیں۔ مثلا تمباکو نوشی کینسر کی موجب ہے وغیرہ وغیرہ۔ پینے والے کو کیا فرق پڑتا ہے لیکن چلو اپنا فرض تو ادا ہو۔

ہم نے اپنے گھر میں شروع سے سگریٹ کو آلو پیاز کے ساتھ آتے ہی دیکھا۔ یا یوں سمجھئے کہ جتنا ضروری سبزی کے ساتھ مفت کا دھنیا تھا اتنی ہی ضروری سگریٹ کی خریداری تھی۔ والدہ کی لاحاصل تنقید کے باوجود والد صاحب نوشی کو چھوڑنے کے لئے تو تیار تھے لیکن تمباکو کو نہیں۔ کوئی مہمان آ جاتا تو کھانے میں میٹھے کے بعد سگریٹ کا دور چلتا۔ ہمارا ددھیال جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ اس خونی دھویں کا بھی شوقین تھا۔ ہمارے ایک چچا نے رمضان میں اس کا حل کچھ یوں نکالا تھا کہ افطاری اور سحری میں اسے لازم و ملزوم قرار دے چکے تھے۔

ہماری والدہ اس سب سے بہت شاکی رہا کرتی تھیں اور ہیں بھی۔ نانا جان کا کینسر اسی تمباکو نوشی کی مرہون منت تھا۔ لیکن صاحب اس کی کسے پروا تھی۔ یہاں تو سگریٹ پینے کو مردانگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب ہمارے گھر رشتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو والد صاحب نے جن حضرت کو پسند فرمایا ان کی فیس بک تصاویر میں سگریٹ کا کھلم کھلا اعلان تھا۔ ‘مردانگی’ کی اس علامت کو بہت پسند کیا گیا اور جھٹ ہاں کر دی گئی۔

جیسا کہ یہ شغل خالصتاً مردانہ نوعیت کے تھے خواتین کے لئے تمباکو نوشی کو لعنت ہی گردانا جاتا۔ گاؤں کی کچھ بوڑھی خواتین جو ابھی اس قدر ‘مہذب’ نہیں ہوئی تھیں حقہ گڑگڑا لیا کرتی تھیں۔ ہم شہر والیاں سگریٹ پینے والی عورتوں سے اس قدر ہی نفرت کرتی تھیں جیسے شرفا کی بیبیاں پیشہ کرنے والیوں سے۔

بڑے ہوئے تو اپنے ارد گرد سگریٹ کا رواج عام پایا۔ لڑکے بالے کھل کھلا کر پیتے اور لڑکیاں چھپ چھپا کے۔ مبادا کسی کو معلوم نہ ہو جائے اور کسی نیک گھر کے شریف زادے کا رشتہ ملنے میں دقت نہ ہو۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک سہیلی کا رشتہ اسی بنا پر نہیں ہو پایا تھا کہ لڑکے کی کزن نے اسے سگریٹ سلگاتے دیکھ لیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سگریٹ پیتی بھی وہ انہی کے کزن کے ساتھ تھی۔

سائنس کی ترقی کے بعد سگریٹ کے بہت سے نقصانات سامنے آئے ہیں۔ بہت سی بیماریاں اسی سے مشروط ہیں۔ اپنی صحت کا سودا کرنا ہے تو کیجئے لیکن ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے اپنا فرض ادا کیا۔

ہمیں بس یہ اچنبھا ہے کہ ان تمام نقصانات میں جنس کا ذکر کیوں نہیں۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے؟ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ سگریٹ خاص کر عورت کے کردار کے لئے مضر ہے؟ سگریٹ پیتی عورت کی صحت کی پروا ہے یا اس کے اس اعلان کی کہ جاؤ میں تمہارے کسی معاشرتی دباؤ کو نہیں مانتی؟ یہ صحت کے لئے مضر ہے یا تمہاری مردانہ غیرت کے لئے؟

جو بات غلط ہے وہ صرف ایک صنف کے لئے کیوں ناجائز ہے؟ ماہرہ خان کی سگریٹ پیتی ہوئی ویڈیو اس معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے یا صبح شام دوائیوں اور کھانے میں ملاوٹ کرنے والے انسانیت فروش؟

دیکھئے ہم خود سگریٹ کے بہت خلاف ہیں۔ اس کے دھوئیں کی بو بھی ہمارے سانس کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔ سانس کی تکلیف کا یہی مسئلہ ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی اسموکر سے بھی فاصلہ برتیں کہ جب ہم سگریٹ نہیں پینا چاہتے تو کسی اور کا دھواں بھی ہماری رگوں میں کیوں اترے۔ لیکن صاحب کیا یہ ہمیں سگریٹ پینے والی عورتوں پر تنقید کا حق دیتا ہے؟ مضر صحت تو غم بھی ہے۔ اس کا سد باب کیوں نہیں کیا جاتا؟

سیدھی سی بات ہے کہ سب گیم معاشرتی قیود کی ہے۔ سگریٹ کے مضر ہونے سے کسی کو وہ خطرہ لاحق نہیں جو کسی عورت کے اس اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے سے ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ اس زہر کی خرید و فروخت پر یوں بھی پابندی لگائی جائے لیکن بلا تخصیص۔ مرد اور عورت کے اعضا میں فرق صرف ایک چیز کا ہے۔ پھیپھڑے سب ہی کے ایک ہیں۔

بھاڑ میں گئی سگریٹ اور بھاڑ میں گئے آپ کے مخصوص کئے گئے جینڈر رولز۔ سگریٹ سلگانے کی بجائے اس منافقت کو چولہے میں جھونک دیں تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ڈسکلیمر کو سیریس لیجئے۔ مہربانی ہو گی۔ مسئلہ عورت کا سگریٹ پینا نہیں بلکہ سماج کے بنائے ہوئے دائرے سے نکل کر اپنا کسی بھی قسم کا فیصلہ خود کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments