میڈرڈ کے ”سول سکوائر“ کی چند جھلکیاں


تو میرے پیارے قارئین آئیے کچھ دیر کے لیے میں آپ کو سپین کے مرکزی شہر میڈرڈ لے چلوں۔ سپین کا وہ حصّہ جو آج بھی اُندلیسہ(Andalusia) کے نام سے جانا جاتا ہے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بہت باعث کشش ہے خصوصی طور پر برّصغیر کے جذباتی مسلمانوں کے لیے تو وہ سیاحت کا ایک خوبصورت تحفہ یا کہہ لیجئیے ایک قیمتی سوغات ہے۔

تو کم و بیش آٹھ سو سالہ مورش(ان علاقوں کے مسلمانوں کو مورMoor کہاجاتا تھا) تہذیب کے اِن علاقوں میں آٹھ دن گزار کر ہم میڈرڈ آگئے ہیں۔ غرناطہ، قرطبہ، اشبیلہ کا ذکر خیر پھر کبھی ہوگا۔ آج تو کچھ جھلکیاں میڈرڈ کی زندگی کی دیکھئیے۔ اس وقت میری دوستیں اور میں میڈرڈ کے پلازہ سول Sol میں موتی برساتے فوارے کی بنّی پر بیٹھے دنیا بھر سے آنے والے رنگا رنگ لوگوں کی کہیں خوبصورتیوں، کہیں بدصورتیوں کے عکس یہاں وہاں بکھرے دیکھتے ہوئے محظوظ ہورہی ہیں۔ آسمان بے حد شفاف تھا۔ دھوپ سکوائر کی بلند و بالا عمارتوں کی چوٹیوں سے ابھی چند لمحے پہلے ہی غائب ہوئی تھی۔ برقی روشنیوں نے جگمگ جگمگ کرتے ہوئے اپنی فسوں خیزی کا بکھراؤ شروع کردیا تھا۔ پختہ سکوائر کے عین بیچوں بیچ بنا فوارہ اپنے کناروں پر بیٹھے خوش گپوں میں مگن لوگوں سے بے نیاز موتی برسائے چلا جارہا تھا۔

دفعتاً پولیس کی زور زور سے ہوٹر بجاتی گاڑیاں سکوائر میں داخل ہوئیں۔ ہم چاروں اور حیرت اور تجسّس سے بھری آنکھیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی ایمرجنسی ہوگئی ہے۔

اب جو دیکھتے ہیں تو خواتین کا ایک جتھا ہاتھوں میں کاسنی رنگے بڑے بڑے بینر لیے تیز تیز قدموں سے چلاآرہا ہے۔ کچھ کے ہاتھوں میں بھونپو نما لاوڈ سپیکر، کچھ کے پاس چھوٹے مائیک۔ چند پوسٹر اٹھائے، چند کے ہاتھوں میں پیلے رنگ کے بڑے بڑے شاپراور چند کم از کم ساڑھے چار میٹر لمبا انجانی عبارت سے بھرا پُرا بینر تھامے ہوئے ہیں۔

آتے ہی انہوں نے ہماری سمت کے ایک گوشے پر قبضہ کیا۔ گروپ میں سے چند عورتیں نکلیں۔ زمین پر بیٹھ کر انہوں نے مستطیل ٹائپ پمفلٹوں سے جن پر عورت کی تصویر بنی ہوئی تھی اور نیچے ہسپانوی زبان میں کچھ درج تھا۔ ایک بڑا سا بیضوی سرکل بنایا۔ اس بیضوی دائرے میں انہوں نے بہت مہارت اور پھرتی سے سفید موٹے کاغذ کی بنی ہوئی نسوانی تصویریں جمائیں۔ ان چھ سات تصویروں کے ہاتھوں پیروں کے مختلف اندازاحتجاجی حرکات کے نمائندہ تھے۔ ان تصویروں پر کہیں گردنوں، کہیں چہروں، کہیں پیٹ پر سرخ نشان جو لہو کی علامت تھے نظر آتے تھے۔

اِس ساری کارروائی میں بمشکل کوئی پندرہ منٹ صرف ہوئے ہوں گے۔ فوارے کی منڈیر پر بیٹھے بیٹھے جب تک منظر ہمارے سامنے رہاہم نے بیٹھے بیٹھے دیکھنے پر اکتفا مگر جب لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوگیا۔ اور ہماری بصارت متاثر ہوئی تب ہم نے بھی اٹھنے اور وہاں جاکراس تماشے کا حصّہ بننا ضروری سمجھا۔ اب ایک منظم انداز میں احتجاج شروع ہوا۔ عورتوں کی نعرہ بازی، تقریریں، ہاتھوں بازوں کا ہوا میں لہرانا۔ یا اللہ ماجرا کیا ہے؟ پلّے تو کچھ نہیں پڑھ رہا تھا کہ کارروائی ہسپانوی زبان میں تھی۔ چند ایک سے پوچھا مگر انگریزی سے ناواقف۔ اب بات جانوں تو کیسے؟ مجھے بھی اُچھل پیڑے (بے چینی) لگے ہوئے تھے کہ کچھ راز تو کُھلے۔

پھر ایک خاتون میری تجسس اور کچھ جاننے کی لگن دیکتھے ہوئے مجھے ہاتھ سے تھام کر گروپ کی ایک جوشیلی سی کارکن کے پاس لے گئی، جس نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ احتجاج ہسپانوی عورتوں پر بیہمانہ تشدد اور بربریت کے سلسلے میں ہے۔ 2017 میں 52 عورتیں مردوں کے تشدد کی بھینٹ چڑھتے ہوئے مر گئی ہیں۔ کوئی 220 کے قریب زخمی ہوئی ہیں۔

میں نے حیرت سے دبلی پتلی خاتون کو دیکھا اور بے اختیار کہا۔ ”میں بہت حیران ہورہی ہوں۔ اس ترقی یافتہ مغربی معاشرے میں بھی عورت کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے جب کہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ظلم اور ناروا سلوک کے ایسے سب انداز ہمارے لوگوں کا ہی چلن اور شیوہ ہے۔ ‘‘خاتون نے ذرا سا مسکراتے ہوئے کہا۔

”مرد مرد ہے۔ کتنا بھی مہذب کیوں نہ ہوجائے اس کے اندر کا جنگلی پن کہیں نہ کہیں نکل آتا ہے۔ ہمارا احتجاج اُن کے لیے کڑی سزائیں اور عورت کے تحفظ کو مزید یقینی بنانا ہے۔ ‘‘
اخبارات کے نمائندے کھٹ کھٹ تصاویر بنارہے تھے۔ یقینا ٹی وی کے کچھ چینلز کے نمائندے بھی تھے وہ کچھ عورتوں سے باتیں کررہے تھے۔ سوا ڈیڑھ گھنٹے کا یہ شو میرے لیے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ چکا تھا۔

میر ے اندر ایک کمینی سی خوشی و سرشاری کا احساس موجزن تھاجب میں واپس آکر فوارے کی بنّی پر بیٹھی تھی میرا جی شدت سے چاہا تھا کہ اپنے ملک کی اُن سب ترقی پسند خواتین جنہیں ہماری معاشرت کی ہر بات میں کیڑے نظر آتے ہیں۔ یہ تصویریں دکھاؤں۔ شرمین عبید چنائے تو بہت شدت سے یاد آئی تھی۔ آسکرایوارڈ یافتہ۔ جس نے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر معاشرے کی تیزاب سے جلی عورت کو نمایاں کیا تھا۔ اب اسی سے ملتی جُلتی ایک تصویر میڈرڈ کے اِس سول سکوائر میں دیکھی تھی۔ پچاس مری ہوئی عورتیں اور 220ایسے ہی کہیں کٹی پھٹی، کہیں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں، گوڈوں اور کہیں جلے چہروں اور جسموں والی عورتوں کی تصویریں۔ ایک نہ دو پوری دو سو بیس۔ سپین جیسے ترقی یافتہ ملک کی تعلیم یافتہ خودمختارو خود کفیل عورتوں کی جو مردوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھی تھیں۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2