کافر مچھلیاں اور بابا نانک کا کنواں


کرتار پور کی جانب سفر کرتے ہم نارووال سے کچھ فاصلے پر واقع جسڑ کے مقام پر شاہراہ سے جدا ہو کر دریائے راوی تک پہنچے تھے‘ صرف وہ پل دیکھنے کی خاطر جو کئی سو برس پرانا تھا اور بتایا گیا کہ یہ صرف ایک پل نہیں‘ ڈبل پل ہے یعنی دو منزلہ ہے۔ اوپر کی منزل سے ٹریفک گزرتی ہے اور نچلی منزل پر ٹرین جھک جھک کرتی کبھی ڈیرہ بابا نانک جایا کرتی تھی لیکن ہم قدرے مایوس ہوئے کہ اتنی مصیبت سے یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ پل غالباً 71ء کی جنگ کے دوران بموں سے اڑا دیا گیا تھا تاکہ ہندوستانی حضرات یونہی وہ پل پار کر کے ہماری گلی میں نہ آ نکلیں۔ یہ وہ راوی تو نہ تھا جسے کبھی پاروشنی اور کبھی ایراوتی کے نام سے یاد کیا گیا۔ دریا تو نہ تھا‘ ندی بھی نہ تھی کہ ندیاں تو تیز بہتی ہیں‘ کچھ پانی پھیلے ہوئے تھے جن میں سے آپ شلوار اڑس کرآسانی سے چلتے ہوئے پار جا سکتے تھے۔ البتہ ان پانیوں میں مچھلی بہت تھی۔ لائسنس یافتہ مچھیروں کے جال مچھلیوں کی کثرت سے تڑپتے تھے۔ تب ایک مچھیرے نے جال میں سے ایک مونچھوں والی کھگا مچھلی دبوچی اور کہنے لگا ’’حضور یہ ابھی زندہ ہے‘‘ اور مچھلی واقعی آنکھیں مٹکا رہی تھی۔ یہاں دریائے راوی کبھی بل کھاتا ہندوستان چلا جاتا اور کبھی وہاں سے بور ہو کر پاکستان پلٹ آتا ہے تو میں نے مچھیرے سے کہا ’’بھائی جان یہ راوی تو ابھی ابھی ہندوستان سے واپس آ رہا ہے تو کیا یہ ایک ہندو مچھلی ہے؟ تو مچھیرے بھائی جان نے کہا‘ آئی تو ادھر سے ہے، پر پاکستان میں داخل ہوتے ہی مسلمان ہو گئی ہے۔ حلال ہے۔ یعنی ہندو مچھلی حرام ہے اور ہاں یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ہرا سمندر گوپی چندر والی ہری ہری مچھلیاں کسی مذہب کی پیروکار ہوتی ہیں۔ ویسے اگر ہری ہری تھیں‘ سبز تھیں تو ان کے مسلمان ہونے میں کچھ شک نہیں۔

اچھا اب میں آپ کو مچھلیوں کے بارے ایک نہایت نایاب خبر سنانا چاہتا ہوں اور ایسی خبریں صرف مجھ ایسے خبطی بابا جات کی گڈری میں ہی ہوتی ہیں۔ بہت مدت ہو گئی کہ میں اپنے بال بچوں کے ہمراہ کاغان گیا۔ ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کے لیے نہ صرف پرمٹ حاصل کیا بلکہ ایک تجربہ کار شکاری بھی کرائے پر حاصل کیا۔ ناران سے کچھ دور سوچ کے مقام پر دریائے کنہار میں ہم اور شکاری کنڈیاں پھینکتے پھنیکتے نڈھال ہو گئے۔ بازو شل ہو گئے اور جب ہم مایوس ہو چکے تھے اور سورج ڈھل رہا تھا تو ہماری کنڈی میں پروئی ہوئی ایک سلور ٹراؤٹ آخری کرنوں کی زردی میں بھی۔ چاندی رنگ میں پھڑپھڑاتی تھی۔ ہم سب نے باری باری اس سلور ٹراؤٹ کے ساتھ نہایت پر فخر تصویریں اتروائیں۔ تصویروں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا جیسے ہم نے صرف ایک نہیں کئی مچھلیاں شکار کرلی ہیں۔ جیسے پرانے زمانوں میں جب ایک شیر مار لیا جاتا تھا تو مرکزی شکاری کے علاوہ درجنوں حضرات ان کی کھال تھپکتے تصویریں اترواتے تھے اور یوں ایک سے درجنوں شیر ہو جاتے تھے اور ہاں یہ رائے ونڈ کے محلات کے دروازوں پر تعینات بھس بھرے شیر نہ ہوتے تھے۔

آپ جانتے ہیں کہ سیاست کے معاملات میں میری ترجیح صرف پاکستان ہے نہ زرداری، نیازی ہے اور نہ ہی میاں میاؤں ہے لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر دو میاں برادران اگر مکے لہرا رہے ہوں اور مریم بی بی روک سکو تو روک لو کی گردان کر رہی ہوں اور یکدم سچ مچ کا ایک شیر دھاڑنے لگے تو ان پر کیا گزرے گی۔ جیسے ایک بچے سے کہا گیا کہ ’’پو پھٹنا‘‘ کو محاورے میں استعمال کرو تو اس نے کچھ غور کیا اور کہنے لگا۔ ایک دیہاتی جنگل میں جارہا تھا تو یکدم ایک شیر اس کے سامنے آ گیا تو دیہاتی کی پو پھٹ گئی۔ میں کچھ بھٹک سا گیا ہوں‘ یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں نہیں بڑھاپے میں ہوں، تو جب وہ سلور ٹراؤٹ ہم نے شکار کرلی تو میں نے کرائے کے شکاری سے استفسار کیا کہ خان صاحب۔۔۔ اتنی خوبصورت شے کہو آپ دریا کی دنیا سے دبوچ کر مردہ کردیتے ہیں تو آپ کو ترس نہیں آتا؟ اور مجھے اب تک یاد ہے کہ اس شکاری خان صاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا تھا کہ صاحب یہ مچھلی کافر ہے اس کا شکار کرنے سے ثواب ہوتا ہے تو ظاہر ہے مجھے کچھ حیرت ہوئی کہ کیا مچھلیاں بھی مسلمان یا کافر ہوا کرتی ہیں تو وہ کہنے لگا‘ صاحب سب مچھلیاں مسلمان ہوتی ہیں اور ان میں سے جو بدبخت کافر ہو جاتی ہیں صرف وہی شکار ہو جاتی ہیں تو غم نہ کرو۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar