کیا ناپاکی سے پا کی حاصل کی جاسکتی ہے؟


ایک لمبی شاہراہ تھی جس پر وہ چل رہا تھا۔ دائیں جانب کھیل کا میدان جس میں بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک کونے میں والی بال کا نیٹ لگا تھا اور دو ٹیمیں مدمقابل تھیں۔ وہ وہیں رک گیا۔ ننگے پیر، شلواروں کو اوپر اڑسے، بنیانیں پہنے والی بال کھیلتے مرد، جن کے پیٹ آگے کو ڈھلکے تھے۔ ان کی قمیصیں والی بال نیٹ کے پولوں پر لٹکی تھیں یا پاس پڑے لکڑی کے بنچ پر پڑی تھیں۔ اُن کی والی بال کے گیند سے دشمنی دیدنی تھی، وہ اُس سخت اور مقابلتاً چھوٹے گیند کو پوری طاقت سے ہاتھوں سے ضرب لگاتے تھےکہ مخالف اِسکا جواب نہ دے پائے۔ جب ہاتھ گیند سے ٹکراتا تو ایک بلند آواز پیدا ہوتی اور کھلاڑی کا جوش دیدنی ہوتا، وہ منہہ سے اپنے جوش کا اظہار کرتا، ناقابلِ فہم آوازیں نکالتا۔ اُسے اس لمحے ناچتے افریقی قبیلوں کا خیال آیا، ننگ دھڑنگ، ڈھول پر ہاتھ مارتے، کالے جسموں پر پسینے کی چمک اور منہ سے جوش کا اظہار کرتے۔ جب کسی کھلاڑی کی لگائی گئی گیند کی ضرب کا مخالف ٹیم جواب نہ دے پاتی تو وہ ایسے اکڑ کر چلتا جیسے مرغیوں کے جھرمٹ میں ایک مرغا چھاتی نکال کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہا ہو۔

وہ کچھ دیر کھیل سے محظوظ ہو کر آگے چل پڑا۔ آگے سڑک کے دونوں اطراف سرکاری افسران کی کوٹھیاں تھیں۔ وہ اُنہیں جانتا تھا، اُن میں سے بعض اپنی غرض کے لیےجھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کے فن کے ماہر تھے۔ اس کا مظاہرہ اُس نے کئی میٹنگز میں دیکھا تھا۔ یہ بھی ایک کھیل ہے۔ اس کھیل کے قوانین خود سیکھے جاتے ہیں اور باقی کھیلوں سے فرق یہ قوانین بغیر اعلان کے موقع بہ موقع تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کھلاڑی کی مہارت اس پر ہے کہ وہ ان تبدیلیِ قوانین کو کسی اعلان کے بغیر نہ صرف سمجھے بلکہ وہ میچ ان کے مطابق کھیلے۔ یہ میچ کبھی صاحبِ فیصلہ کی ٹیم کا حصہ بن کر اور کبھی اُس کے مخالف کھیلا جاتا ہے مگر خوبصورتی وکمالِ کھلاڑی یہ ہے کہ دوسری صورت (جسے باس بھی کہا جاتا ہے) میں باس کو کان و کان خبر نہیں ہوتی جبکہ پہلی صورت میں باس کوبغور باور کرادیا جاتا ہے کہ یہ کھلاڑی اُس کا دائیاں بازو ہے۔ اگر باس متکبر ہے تو ماتحت فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ اُسکی ٹیم میں شمولیت میں ہی کامیابی ہے، اُس کے نقطہ نظر کا اندازہ کیجئے اور اس کی تائید کریں۔ اُس کو صحیح بات سمجھانا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔ اس لمحے سچ، حقائق، ملکی فائدہ، آورش وغیرہ سب ضمنی ہیں۔ اس وقت نوکری سب سے اہم ہے۔ کھلاڑی احتیاط سے کھیلتا ہے کہ مزاجِ باس کہیں برہم نہ ہوجائے۔ اصول، قوانین سب بدل سکتے ہیں، بس ایک آ نکھ کا اشارہ چاہیے۔

اگر صاحبِ فیصلہ مناسب طبیعیت کے حامل ہیں تو جہاں کچھ ماتحت اُن کو صحیح مشورہ دیتے ہیں، تو وہیں کچھ شاطر کھلاڑی چرب زبانی، یک طرفہ اعداد و شمار اور پرُاعتماد گفتگو سے اپنے مرٰضی کے فیصلے کی جانب لے جاتے، خصوصاً اگر باس کو موضوٰع کا اچھا علم نہ ہو، یا ماتحتوں کو اُسکے اعتماد میں کمی محسوس ہو تو پھر وہ شاطر کھلاڑیوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اس طور کے کھیل کی وجہ کئی ہوسکتی ہیں، انفرادی فائدہ، انا پرستی، باس کو بیوقوف بنا کر خوش ہونا، دفتری رقابتیں و سازشیں، اُسے فیل کرنے کی کوشش وغیرہ وغیرہ۔ اگر میٹنگ دوسرے ڈیپارٹمنٹ یا ادارے کے ساتھ ہو تو پھر تو کھلُ کھیلنے کے اور موقعے مل جاتے ہیں۔ دوسروں کو ناکام کرنا، خود کام نہ کرنا، موضوع کو مسائل کے گنجلق میں پھنسا دینا، بہت سے داؤ دکھائے جاسکتے ہیں۔ بعض لوگ ایسا صرف اپنے ساتھیوں پر اپنی دھاک جمانے کے لیے کر رہے ہوتے ہیں۔ میٹنگ کے بعد ساتھیوں میں وہ فخریہ انداز میں اپنی مہارت کا بیان کرتے ہیں، گفتگو میں اُنکا انداز سینہ نکالے اُس مرغے کا ہوتا جو جنسِ مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہا ہوتا ہے۔

وہ اُن سرکاری کوٹھیوں کے سامنے گھاس پر بیٹھ گیا۔ یہ لوگ مقابلے کے امتحان پاس کر کے آئے تھے، اُنکی فہم اعلی تھی۔ وہ سرکاری خرچوں پر دنیا گھوم چکےتھے۔ وہ اس ملک کے کرتا دھرتوں میں تھے۔ گھاس پر بیٹھے وہ مملکتِ پاک کے بارے میں سوچنے لگا۔ انسان کی بے حرمتی، غریبوں کا استحصال، نودولتیوں کی رعونت، فرقہ واریت، پھٹتے بم، روتی مائیں، لاتعلق سرکار، بے حس سرکاری اہلکار، بھوکے بچے، لوٹتے کھسوٹتے حکام۔ وہ بیٹھا سو چتا رہا، منظر اُس کی آ نکھوں سے گزرنے لگے۔ مملکتِ پاک کی خاطر دی گئی قربانیاں، گھر سے بے گھر ہوتے لوگ، ہجرت میں بہتا لہو، ہمیشہ کے لیے بکھرتے خاندان، پھر دو ٹکڑے ہوتا ایک خواب، مذہب کے بیوپار سے لے کر سب سے پہلے میں کے علمبردار، مذہبی رواداری کے جنازے سے لے کر کرائے پر بکنے پر آمادہ حکام و حکمران۔ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا۔ وہ یہی سوچتا رہا۔

وہ اُٹھا اور اُسی سڑک پر آگے چلتا گیا۔ یہ چھوٹے نوکروں کی کالونی تھی، تنگ تنگ متصل کوارٹر۔ دو مختصر سے کمرے جن کے آگے چھوٹا سا صحن اور اس کے کونے میں باتھ روم اور لیٹرین جن کی چھت پر نیلے پلاسٹک کے ڈرم پانی کی خاطر رکھے ہوئے۔ کسی مسافر خانے کی مانند یہ لیٹرین بدبو سے اٹی ہوئی تھیں اور ان کے کموڈ پیشاب سے سیلن زدہ اور پیلے پڑے تھے۔

وہ ابھی تک اُسی سوچ میں تھا، کیا وجہ ہوئی کہ قربانیاں بے ثمر ہوئیں، امتحان کی رات کی صبح کیوں نہیں ہوئی، اِس کٹھن سفر کی منزل کیوں نہیں آئی۔ کیو ں؟ اُس نے یہ بات بہت لوگوں سے پوچھی۔ سسٹم ٹھیک نہیں، مذہب پر عمل نہیں، ٹیکنالوجی کی کمی ہے، قیادت ٹھیک نہیں، تعلیم کی کمی ہے، آبادی زیادہ ہے اور وسائل کم ہیں، عوام میں شعور نہیں۔ بعض لوگ گوروں کے مرید تھے، اُنکی باتیں ذہنی غلامی کی عکاس تھیں۔ بعض سرمایہ دارانہ نظام یعنی کیپٹل ازم میں اور بعض کیمونزم میں حل جانتے تھے۔ دوسری جانب عقیدت میں لتھڑے تھے، آ نکھیں بند کیے۔ جن سے عقلی بات کرنا توھین کے الزام کو دعوت دینا تھا، گفتگو میں بلند آواز نکالتے، جوش کا اظہار کرتے، منہہ سے ناقابلِ فہم آوازیں نکالتے۔ مخالف کو چھوٹا گیندجاننتے، پوری طاقت سے ضرب لگانے کو تیار۔ لبرل اپنی ڈگڈگی کو ہی درست جاننتے تھے، اُنکی لبرل ازم کسی دوسرے ساز کی آواز کی متحمل نہ تھی۔ ان جوابات نے اُسے اور زیادہ کنفیوز کردیا تھا۔

وہ ان چھوٹے نوکروں کے کوارٹرز کے سامنے گھاس پر بیٹھ گیا۔ ایک کونے پر کوڑا ڈالنے کےلیے جگہ بنی تھی۔ تین متصل دیوار یں تقریباً چار چار فٹ اونچی جن کے درمیان کی خالی جگہ گند سے بھری تھی۔ ہوا جب چلتی تو بدبو کا بھبکا اُس تک آ تا۔ اچانک ایک لڑکا دیوار پر چڑھا اور پتلون نیچی کر کے جمع شدہ گند پر پیشاب کرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا یہ ڈھیر پہلے زیادہ گندا تھا کہ اب۔
وہ سوچنے لگا، کیا انفرادی صفائی سے اجتمائی صفائی ہو سکتی ہے؟ کیا پہلےپہلا ڈھیر اُٹھا کر پھینکنا ہوگا، جلانا ہوگا یا کوئی آسان راستہ بھی ہے۔
اُسی لمحے اُسےمزید خیال آیا کہ کیا ناپاکی سے پا کی حاصل کی جاسکتی ہے؟

صفائی کے لیےسیلن زدہ اور پیلے پڑے کمو ڈ اور میٹنگوں میں جھوٹ بولتے افسر اور نیکی کی تبلیغ کرتا مولوی جو موقع پاکر بچوں کی پشتوں پر ہاتھ پھیرتا تھا۔
کیا ناپاکی سے پا کی حاصل کی جاسکتی ہے؟
کیا ناپاکوں کے پاکی کے نعروں سے مملکت پاک ہو جائے گی؟
وہ سوچتا رہا۔ ہوا جب چلتی تو بدبو کا بھبکا اُس تک آ تا۔ چھوٹے نوکروں کے بچے وہیں کھیل رہے تھے، بہت سوں کی طرح بغیر کسی احساس کے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor