مولانا آزاد پر ناشائستہ حملہ: جواب الجواب


\"shakeelمولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں سید عابد علی بخاری صاحب کے 23 مارچ والے مضمون پر میں نے \’عابد بخاری صاحب کا مولانا آزاد پر ناشائستہ حملہ\’ کے عنوان سے 25 مارچ کو تنقید کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری تنقید نےبخاری صاحب کو بہت آزردہ کیا جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ میرا مقصد ان کی دل آزاری نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے میری گزارشات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنے کی بجائے عجلت میں میرے مضمون کا جواب  لکھا ہے اور میری ایک بھی دلیل کا جواب ڈھنگ سے نہیں دے پائے۔

میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد بخاری صاحب کی توہین یا تحقیر نہیں۔ وہ ایک اچھے  نوجوان معلوم ہوتے ہیں لیکن غالباً انہیں اپنی تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیت  کو بہتر بنانا چاہیئے۔ میرا مقصد صرف صحت مند بحث مباحثہ کی روایت کو آگے بڑھانا ہے۔ اس سلسلے میں میری کوشش ہوتی ہے کہ ان حقائق کی نشان دہی کی جائے جو اکثر و بیشتر عوام کی نظروں سے اوجھل رکھے جاتے ہیں۔

بخاری صاحب نےاپنے پہلے مضمون میں لکھا  تھا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معرضِ وجود میں نہ آیا ہوتا تو بھارت کی آبادی میں اٹھارہ کروڑ مسلم غلاموں کا اضافہ ہو چکا ہوتا جن کی حیثیت شودروں سے بھی کمتر ہوتی۔ ‘ جواباً  میں نے عرض کیا تھا  کہ ‘بخاری صاحب نے بنگلہ دیش کے پندرہ کروڑ مسلمانوں کو کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ کیا وہ پاکستان سے علیحدہ ہوکر مسلمان نہیں رہے؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے دعوے کے برعکس ہندوستانی مسلمان خود کو غلام نہیں سمجھتے؟ کیا جمعیت علماء ہند‘ جماعت اسلامی ہند‘ انڈین یونین مسلم لیگ‘ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے رہنما اپنے آپ کو غلام سمجھتے ہیں؟ کیا مسلم دورحکومت میں ہندو غلام تھے؟ اگر بادشاہت میں ہندو غلام نہیں تھے تو جمہوری دور میں مسلمان غلام کیسے بن گئے؟ کیا مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمان بھی غلام ہیں؟‘

اس کی تردید میں بخاری صاحب لکھتے ہیں ‘ بھارت کی جمہوریت جس کی مثالیں آپ نے دی ہیں اس کی ایک جھلک کشمیر میں بھی ملاحظہ فرما لیں تو غلامی کا تصور واضح ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ ‘ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔۔ بخاری صاحب کا دعویٰ تو یہ تھا کہ مولانا آزاد نے بھارت کے مسلمانوں کو غلامی کا درس دینے میں اپنی زندگی کی قیمتی ساعتیں صرف کیں۔ کیا اس وقت کشمیر بھارت کا حصہ تھا؟ اگر کشمیر سے غلامی کا تصور واضح ہوتا ہے تو پھر مشرقی پاکستان سے کس چیز کا تصور واضح ہوتا ہے؟ وہاں انتخابات جینتے والوں کو اقتدار دینے کے بجائے گولیوں سے کیوں بھون دیا گیا تھا؟ ڈاکٹر اے کیو خان نے روزنامہ جنگ میں کیوں لکھ دیا ہے کہ وہاں ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کیا تھا؟

افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھنے کی بجائے اسے ایک مناظرانہ حربہ بنا چھوڑا ہے۔ کاش بخاری صاحب کشمیر کی بات کرنے سے پہلے اس بارے میں ذرا سی تحقیق کر لیتے۔ اس سلسلے میں چند حقائق کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) سکندر خان بلوچ نے 26جولائی 2013 کے نوائے وقت میں لکھا کہ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی سب سے بڑی وجہ اکتوبر 1948 میں کیا جانے والا کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ تھا۔ ان قبائلیوں نے وہاں بلا تفریق مذہب و ملت لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔ اس کی تفصیل’ فریڈم اَیٹ مِڈنائٹ ‘ نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد بھی ہندوستان کے نائب وزیر اعظم سردار پٹیل نے پاکستان کو پیش کش کی کہ وہ حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ میں مداخلت نہ کرے تو انہیں کشمیر کے پاکستان سے الحاق پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ سردار شوکت حیات اپنی سوانح عمری ‘گم گشتہ قوم‘ میں لکھتے ہیں کہ اس پیش کش کے جواب میں لیاقت علی خان نے کہا تھا: ‘کیا سمجھتے ہو کہ میں پاگل ہوگیا ہوں جو یہ تجویز مان لوں کہ حیدرآباد جو صوبہ پنجاب سے بڑاہے کو کشمیر کی چند پہاڑیوں کے عوض چھوڑ دوں؟‘

سردار ابرہیم خان کی کتاب ‘کشمیر ساگا‘کے مطابق اس پیش کش کی قبولیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر خزانہ غلام محمد تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’ میں نے انہیں قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بعد ازاں میرے علم میں یہ بات آئی کہ سڈنی کاٹن نامی ایک پائلٹ حیدرآباد سے طلائی اینٹیں کراچی لا رہا تھا اور ان میں غلام محمد صاحب کا بھی حصہ تھا۔ اس الم ناک واقعہ نے کشمیر کے پر امن حل کے تمام امکانات ختم کردئے۔ ‘ آج کے حالات کے حوالے سے میں بخاری صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کشمیریوں کی غلامی کے خاتمہ کے لئے چلائی جانے والی تحریک کی مخالفت کرتی ہے؟ سید سردار پیرزادہ کو نوائے وقت اسلام آباد (11 فروری 2015) میں کو کیوں یہ لکھنا پڑا کہ کشمیر کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری اور نریندر مودی کے خیالات ایک جیسے ہیں؟

بخاری صاحب نے بڑے پرجوش انداز میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ‘مہا بھارت‘ کے چالیس سے زیادہ مقامات پر گھوم کر اور وہاں سینکڑوں مسلمانوں سے مل چکے ہیں۔ ان سب وارداتوں کے باوجود بخاری صاحب کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ’مہابھارت‘ کسی ملک کا نام نہیں ۔ اس کے معنی بڑی لڑائی کے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ جن ہندی مسلمانوں سے ملے ’وہ تو اپنی بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے بھی پریشان نظر آئے۔ ان کی بے چارگی اور بے بسی کی کہانیوں کے اظہار کے لیے شاید یہ مختصر مضمون نا کافی ہو۔ وہ خود کو سیکولر اور لبرل کہلاتے اتنا نہیں شرماتے جتنا خود کو مسلمان کہتے ان کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے۔ ‘جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے پاکستانیوں کو ہندوستان کے تین شہروں کا ویزا ملتا ہے ۔ بخاری صاحب نے ہندوستا ن کے چالیس سے زائد مقامات کی سیر کر کے واقعی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ کیا بخاری صاحب نے کسی مسلمان صحافی ‘پروفیسر‘سیاستدان یا مصنف سے ملاقات کی؟ انہوں نے کن کن شہروں میں قدم رنجہ فرمایا؟ کیا وہ جامعہ ملیہ جیسی کسی جگہ بھی تشریف لے گئے؟

بخاری صاحب ‘ دیانت داری سے بتائیں کہ تقسیم ہند سے ان مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا ہوئے یا آسانیاں؟ کیا ان میں سے کسی نے تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کے بارے میں تنقیدی خیالات کا اظہار کیا؟ ان میں سے کتنے پاکستان منتقل ہونا چاہتے ہیں ؟ بخاری صاحب نے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے انہیں نائیک صاحب کا یوٹیوب پر موجود وہ وڈیو ضرور دیکھنا چاہیئے جس میں انہوں نے تقسیم ہند کو مسلمانوں کے لئے مضر قراردیا ہے۔ میں نے بخاری صاحب کی توجہ پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر چودھری خلیق الزمان کی سوانح عمری ‘شاہراہ پاکستان‘ کے مندرجات کی طرف مبذول کرائی تھی جواب دینا تو درکنار انہوں نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ تقسیم ہند سے ایک ہفتہ پہلے دہلی مسلم لیگ کے ایک عہدے دار نے جناح صاحب کو لاجواب کردیا تھا۔ چودھری صاحب کے خیال میں یہ اس گفتگو کا نتیجہ تھا کہ جناح صاحب نے اپنی گیارہ اگست کی مشہور تاریخ میں دو قومی نظریہ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ چودھری صاحب نے حسین شہید سہروردی کا تائیدی انداز میں حوالہ دیا ہے کہ دو قومی نظریہ مسلمانان ہند کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ‘کیا یہ حقیقت نہیں تقسیم ہند کےبعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلم لیگی منہ چھپاتے پھرتے تھے؟  انہیں مرنے مارنے کے جذباتی نعرے بھول چکے تھے اور ان کے رہنما انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر کراچی تشریف لے جا چکے تھے۔ وہ مسلم آئی سی ایس افسروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اس وقت ہندی مسلمانوں کو مولانا آزاد کے علاوہ کس نے سہارا دیا تھا؟ بخاری صاحب کے مطابق مولانا آزاد ہندی مسلمانوں کی بدحالی، غربت، فاقوں،مفلسی اور جہالت کے ذمہ دار تھے۔ ان سب مسائل کی ذمہ داری آل انڈیا مسلم لیگ پر کیوں عائد نہیں ہوتی؟ کیا ان مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دئے تھے؟  دو قومی نظریہ کی روشنی میں مسلم لیگ نے ان سب کو پاکستان کیوں نہ بلوایا؟ بخاری صاحب نے ان نکات کو درخور اعتنا نہیں جانا؟

میں نے لکھا تھا کہ \’بخاری صاحب\’ نے اکیس مارچ کو فیس بک پر یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت عدم برداشت اور تشدد کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورت حال کب پیدا ہوئی؟ کیا اس سے پہلے بھی پاکستانیوں کی ہندوستان کے بارے میں بھی یہی رائے نہیں تھی؟ کیا پاکستانیوں نے کسی بھی ہندوستانی وزیراعظم کو سیکولر تسلیم کیا؟ کیا یہ تنقید پاکستان پر لاگو نہیں ہوتی؟ کیا ہمارا جذبہ حب الوطنی ہمیں یہ سچ بولنے کی اجازت دے گا؟ کیا ہندوستان کے کچھ سیکولر حلقے یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کا ملک بھی پاکستان کے راستے پر چل پڑا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کے انتہا پسند اب تک اپنے ملک کو ہندو ریپبلک نہیں بنا سکے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ ‘

اس کے جواب میں بخاری صاحب نے فرمایا ہے کہ’میں اس کو دعویٰ نہیں حقیقت سمجھتا ہوں۔ میڈیا میں مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ارون دھتی رائے‘منور رانا‘ معروف کشمیری ادیب پروفیسر مرغوب بنہالی‘ اودے پرکاش‘ جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل اور افسانہ نویس جی ایس بھلرن کی مانند دیگر کئی نامور ادیب، مصنف، آرمی آفیسر عدم برداشت اور تشدد کے باعث ہی اپنے اعزازات پر شرمندہ ہیں۔ ‘ بخاری صاحب‘ آپ نے یہ کیا مذاق کیا ہے؟ آپ کے یہ ارشادات میری کس بات کا جواب ہیں؟ ان سب لوگوں نے آج سے دس‘ بیس یا تیس برس پہلے یہ سب کچھ کیوں نہ کیا؟ کیا اس وقت پاکستانیوں کی ہندوستان کے بارے میں رائے مثبت تھی؟ کیا پاکستان میں بھی اس طرح کے باضمیر لوگ پائے جاتے ہیں؟  پاکستان میں جب غیر مسلموں کو آئینی طور پر دوسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا تو کتنے لوگوں نے اپنے اعزازات واپس کئے؟ جب احمدیوں کی زندگی اجیرن کی گئی تو کتنوں نے احتجاج کیا؟ جب مشرقی پاکستان میں قتل عام جاری تھا تو کتنے اعزاز یافتگان نے اپنے اعزازات کو شرمندگی کا باعث قراردیا؟

بخاری صاحب نے فرمایا ہے کہ ہندوستان کے فلم سٹار عامر خان راہ فرار تلاش کر رہے ہیں۔ کیا وہ پاکستان منتقل ہو رہے ہیں؟ عامر خان کا یہ بیان شاید اب تک بخاری صاحب تک نہیں پہنچا کہ وہ ہندوستان چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور انہیں اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ یہ عدنان سمیع کا کیا قصہ ہے؟ وہ ایک آزاد ملک کی شہریت چھوڑ کر تنگ نظر اور متعصب ہندوؤں کی غلامی میں کیوں چلے گئے ہیں؟ انہوں نے ایک ایسے ملک کو جو دنیا بھر میں اپنی رواداری ‘عدم تشدد اور وسیع المشربی کی عدیم النظیر شہرت رکھتا ہےکو چھوڑ کر \’عدم برداشت اور تشدد کی علامت\’ کے طور پر پہچانے جانے والے ملک کا انتخاب کیوں کیا؟ انہوں نے پاکستان میں اپنا اعلیٰ طرز زندگی چھوڑ کر شودروں سے کم تر حیثیت میں خوف کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ بخاری صاحب یہ بھی فرما دیں کہ ساٹھ کے عشرے میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر فضل الرحمان اور اسّی کے عشرے میں بہاول پور کی اسلامی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر سلمان اظہر کو ہمارے ملک سے جان بچا کر کیوں بھاگنا پڑا تھا؟

میں نے لکھا تھا کہ \’ایک طرف تو بخاری صاحب کہتے ہیں کہ ‘ابوالکلام آزاد کے بارے میں جو اندازِ بیان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے وہ قابل تحسین اور لائق ستائش نہیں۔\’ اس کے بعد انہوں نے نہ صرف خود مولانا آزاد کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال کی بلکہ ان کے بارے ناشائستہ ترین پھبتی کو جواز بھی بخش دیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ انہیں اپنا یہ تضاد کیوں نظر نہ آیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا ہے کہ جناح صاحب نے مولانا آزاد پر جو تنقید کی تھی اسے وہ پھبتی نہیں حقیقت سمجھتے ہیں۔ اگر یہ پھبتی نہیں تو پھر ہمیں پھبتی کی تعریف تو بتا دیں۔ اگر اس طرح کی ناشائستہ پھبتی انہیں قابل اعتراض نہیں لگتی تو پھر انہوں نے یہ کیوں لکھا کہ ‘ابوالکلام آزاد کے بارے میں جو اندازِ بیان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے وہ قابل تحسین اور لائق ستائش نہیں۔ ‘

میرے بہت سے سوالات کے جواب میں بخاری صاحب نے کچھ یوں فرمایا ہے’سوالات جو ابھی پوچھے ہی نہیں گئے ان کے بارے میں قبل از وقت اندازے تخمینے لگانا بے معنی ہے۔ ‘اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا! میرے سوالات کچھ یوں تھے۔ پاکستان میں دو قسم کے قانون کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں نے ایک شخص کے قتل کے الزام میں بھٹو کو تو پھانسی دے دی اور سینکڑوں افراد کے قتل کے ملزم مشرف پر مقدمہ بھی نہ چلا سکے؟ دنیا کا توہین مذہب کا سخت ترین قانون پاکستان میں ہے ۔ توہین مذہب کے سب سے زیادہ واقعات پاکستان میں کیوں رپورٹ ہوتے ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ اس قانون کے تحت ملزم کو سزا دینے کے لئے اس کی نیت کا کوئی کردار نہیں؟ اس قانون کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کیوں یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور فقہائے احناف کی آراء کے خلاف ہے؟ اس مسئلہ پر مولانا وحیدالدین خان کی کتاب پر پاکستان میں پابندی کیوں ہے؟ اگراحمدی واقعی غیر مسلم ہیں تو پھر ایک احمدی آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کیسے بن گئے؟ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ نے ضلع گورداس پور میں مسلمانوں کی اکثریت ثابت کرنے کے لئے  احمدیوں کو مسلمان شمار کرنے پر کیوں اصرار کیا تھا؟ ایک طرف پاکستان کا آئین تمام شہریوں کے حقوق کی برابری کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف غیر مسلموں کو ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں کے لئے نااہل قراردیتا ہے۔ اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟  آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے بنایا گیا تھا تو پھر مولانا شبیر احمد عثمانی کے بجائے جوگندر ناتھ منڈل نامی ایک ہندو کو پہلا وزیر قانون کیوں بنایا گیا؟ منڈل صاحب 1950 میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان کیوں چلے گئے تھے؟ انہوں نے اپنے استعفیٰ کے خط میں یہ کیوں لکھا تھا کہ پاکستان میں غیر مسلموں اور خاص طور پر ہندوؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں؟ اگر بخاری صاحب کے پاس ان کے جوابات ہیں تو مرحمت فرمائیں۔ آپ کی عین نوازش ہوگی۔

میں نے لکھا تھا کہ’بخاری صاحب نے بڑے ذوق و شوق سے ابو الاعلی مودودی کی اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ ‘مولانا آزاد نے نماز کے لیے اذان کہی مگر اس کے بعد گہری نیند سو گئے۔ ‘بخاری صاحب نے ذوق و شوق کے الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے خود ساختہ الہام قرار دیا ہے۔ میں اپنے یہ الفاظ واپس لیتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ انہوں نے انتہائی بد دلی سے ایسا کیا تھا۔ کیا اب میں مودودی صاحب کے اس ارشاد کے بارے میں ان کی رائے جان سکتا ہوں کہ ‘لیگ کے قائدا عظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو‘؟

بخاری صاحب کی نظر میں ان کا یہ ناقد لبرل فاشسٹ ہے۔ ایک لبرل شخص فاشسٹ کیسے ہو سکتا ہے؟  یہ اصطلاح’دیانت دار چور‘ کی طرح اجتماع ضدین ہے۔ میں بخاری صاحب کا انتہائی ممنوں ہوں گا اگر وہ مجھے اور دیگر قارئین کو اس مضحکہ خیز اصطلاح کے معنی سمجھا دیں۔ بخاری صاحب سے ایک اور استدعا ہے ۔ کیا پاکستان میں کوئی حقیقی لبرل لوگ بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمیں ان کے اسمائے گرامی سے آگاہ فرما دیں۔ اور کیا پاکستان میں کوئی مذہبی اور نظریاتی فاشسٹ بھی موجود ہیں؟ اگر ہیں تو چند ایک کی نشان دہی فرما دیں۔

بخاری صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں فرمایا ہے کہ ‘نقد و جرح اور مواخذہ کرتے وقت مناظرانہ گفتگو‘ آگے بڑھنے سے انکار اور پاکستان سے نفرت قوم کو ترقی کی جانب نہیں لے کر جا سکتی الٹا زوال کا شکار ہی کر سکتی ہے۔ تنقید نگار طلبہ اور ملکی تعلیمی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن بہتری کے لیے کوئی حل تلاش نہیں کرتے۔ ‘ کس نے مناظرانہ گفتگو کی اور کس نے آگے بڑھنے سے انکار کیا؟ کیا پاکستان پر تنقید پاکستان سے نفرت کے مترادف ہے؟  بخاری صاحب dissent  کے تصور سے ناآشنا معلوم ہوتے ہیں۔ کیا ارون دھتی رائےہندوستان ‘ نوم چومسکی امریکہ اور شلومو زینڈ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں؟ تنقید نگار پر یہ الزام بھی بلا جواز ہے کہ اس نے ملکی تعلیمی اداروں کی بہتری کے لئے کوئی حل پیش نہیں کیا۔ میں نے ایک حل پیش کیا تھا وہ یہ ہے کہ طلبہ کو برین واشنگ سے بچا کر ان کی تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔ ویسے بخاری صاحب نے پاکستان کو ترقی کی اوج ثریا پر پہنچانے کے لئے کونسا نسخہ کیمیا تجویز کیا ہے؟ کیا یہ مقصد مولانا آزاد پر ایک ناشائستہ حملے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا؟

شکیل چودھری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شکیل چودھری

(شکیل چودھری نے بین الاقوامی تعلقات اور میڈیا کی تعلیم بالترتیب اسلام آباد اورلندن میں حاصل کی۔ وہ انگریزی سکھانے والی ایک ذولسانی کتاب ’ہینڈ بک آف فنکشنل انگلش‘ کے مصنف ہیں۔ ان کاای میل پتہ یہ ہے shakil.chaudhary@gmail.com )

shakil-chaudhari has 7 posts and counting.See all posts by shakil-chaudhari

Subscribe
Notify of
guest
22 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments