صوفیہ اور اس کی نفسیاتی بیماری بائی پولر ڈس آرڈر


صوفیہ سے میں اپنے ایک کرم فرما جو نفسیاتی امراض کے ماہر معالج ہیں، کے توسط سے متعارف ہوئی۔ میں نے ان سے ذکر کیا تھا کہ مجھے معذوری کے متعلق اپنی کتاب کے لئے کسی بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض کا انٹرویو کرنا ہے۔ اتفاقا صوفیہ کی ماں رابعہ میرے انہی کرم فرما کے زیر علاج تھیں۔ رابعہ اپنی بیٹی صوفیہ (واضح ہو کہ ناموں میں تبدیلی کی گئی ہے) کی بیماری بائی پولر ڈس آرڈر کی شدت کی وجہ سے خود اینگزائٹی اور ڈیپریشن سے گزر رہی تھیں۔ بائی پولر ڈس آرڈر جیسے مرض سے گزرنے والا مریض مستقل بدلتے موڈ یا مزاج کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے کبھی اداسی کا دورہ (depressive episode) تو کبھی مینیک اسٹیج (maniac stage) کہ جس میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی غیر مرئی طاقت سے دنیا فتح کر لے گا۔ اپنی اولاد کو اس متضاد قسم کی ذہنی کیفیت سے گزرتے ہوئے اس کے منفی نتائج دیکھنا، اپنے تئیں ایک امتحان ہے۔ حالات اس وقت مزید گنجلک ہو جاتے ہیں جب خاندان کے افراد ہجرت یا امیگریشن کے ٹراما سے گزر رہے ہوں کہ متضاد تقاضوں میں توازن رکھنا بھی آسان نہیں۔ رابعہ کا گھرانہ اس کی ایک مثال تھا۔

رابعہ نے مجھے بتایا کہ اس کا تعلق پاکستان کے اس علاقے سے ہے کہ جہاں لوگ عزت و ناموس پہ جان دے دیتے ہیں۔ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔ گو رابعہ کی شادی شمالی امریکہ میں جا بسنے والے چچا کے گھرانے میں ہوئی لیکن ستر کی دھائی میں نقل مکانی کرنے والا یہ گھرانا رابعہ کے روایتی اور مذہبی گھرانے سے مختلف ہو چکا تھا۔ مگر رشتہ داری نے اس فرق پہ سوچنے کی مہلت دی اور نہ ہی ضرورت سمجھی۔ اس طرح انیس سالہ بی اے پاس رابعہ کی شادی اعلی تعلیم یافتہ عامر سے ہو گئی جو مزاجا مغربی تہذیب کا پروردہ تھا۔ عامر کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کے گھر مشرقی روایات کو لے کر چلنے والی لڑکی آئے۔ کیونکہ ان کی دوسری بڑی اولادیں غیر مسلم ہم سفر چن چکے تھے۔ رابعہ کے لئے اس شادی کو نبھانا آسان نہ تھا۔ نکاح کے چند بولوں نے دو مختلف انسانوں کو تو ملا دیا۔ مگر ذہن اور دل کی ہم آہنگی کی گارنٹی تو نہیں لی تھی۔

شادی کے بعد تہذیبی اور مذہبی تضاد کی وجہ سے اس جوڑے میں بحثیں تو ہوئیں مگر ایک سال کے بعد رابعہ ایک بچی کی ماں بھی بن گئی۔ اور اس بچی کا نام تھا صوفیہ۔ صوفیہ کی پیدائش کے بعد رابعہ پوسٹ پارٹم ڈیپریشن(زچگی کے بعد کا ڈیپریشن) سے گزری اسے رونا آتا اور شدید اداسی ہوتی۔ ننھی صوفیہ کو دیکھ کر بجائے پیار آنے کے ڈر لگتا۔ لیکن صوفیہ ایک ہنس مکھ، خاموش طبع اور نرم دل بچی ثابت ہوئی۔ صوفیہ کے بعد رابعہ کے دو اور بچے پیدا ہوئے اور اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا کہ نوکری اس کا خواب تھا۔

زندگی کی اس مصروفیت میں اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ صوفیہ کے مزاج نے کب، کیسے اور کیونکر کروٹ لی۔ نرم مزاج، نرم خو، ہر بات پر جی ہاں جی نہیں کرتی صوفیہ اب تنک مزاج اور سخت موڈی ٹین ایجر میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کی بدتمیزیوں پہ رابعہ سختی کرتی تو نتیجہ ضد اور گھر سے دوری تھا۔ بالآخر کئی نشیب و فراز بھگتنے کے بعد صوفیہ کی تشخیص اٹھارہ سال کی عمر میں بائی پولر ڈس آرڈر ٹائپ ٹو نکلی۔

میں نے رابعہ سے گفتگو کے بعد اپنے سوالات کی فہرست ای میل کے ذریعے اسے بھیج دی تاکہ اس کے تجربات کو کتاب میں شامل کیا جائے لیکن مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ صوفیہ نے ان سوالات کو بغور پڑھا اور ان سوالات کی روشنی میں جوابات بھیج دیے۔ ذیل میں صوفیہ کا خط ہے جو اس نے اپنی زندگی، مرض اور اس سے وابستہ علامتوں سے متعلق لکھا ہے۔ اس خط کو میں صوفیہ کی اجازت کے ساتھ قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔ تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ بائی پولر ڈس آرڈر میں مبتلا افراد اپنی زندگی میں کس قسم کی جدوجہد سے گزر سکتے ہیں۔ صوفیہ کی عمر تئیس سال ہے۔ (یہ خط انگریزی سے ترجمہ ہے)

صوفیہ کا خط گوہر تاج کے نام
ڈئیر گوہر آنٹی!

امید ہے آپ کو میرا آنٹی کہہ کر مخاطب کرنا برا نہیں لگا ہو گا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ پروفیشنل سوشل ورکر اور تھریپسٹ ہیں۔ لیکن اپنے سے بڑوں کو آنٹی (یا انکل) سے مخاطب کرنا میرے گھرانے کی تہذیب ہے۔

میں نے آپ کی ای میل میں درج سوالات پڑھے جو آپ نے میری والدہ کو بھیجے میں ان کی روشنی میں خود اپنے متعلق بتانا چاہوں گی۔ میری تشخیص بائی پولر ڈس آرڈر ٹو ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر دو انتہائی اور متضاد موڈ کی کیفیت کا نام ہے۔ ابھی پچھلے کچھ مہینوں قبل میں بہت زیادہ اداسی کے دوروں (depressive episodes) سے گزری ہوں۔ لیکن اس موڈ کے بعد میں اس کے متضاد یعنی مینیا (Mania) سے نبرد آزما ہوتی ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے سینے سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں نے اپنی منفی اور عامیانہ سوچ سے نجات پا لی اور اپنے بند کمرے کی قید سے آزاد ہو چکی ہوں۔ جب میں کم عمر تھی تو بہت زیادہ اداس رہا کرتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے میری غلط تشخیص میجر ڈیپریسو ڈس آرڈر ہوئی۔ لیکن جب کچھ اور بڑی ہوئی تو میری رسائی پیسے اور کریڈٹ کارڈز تک ہوئی۔ اور پھر جب میں نے خود مختار زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تو یہ وہ وقت تھا کہ میری بیماری بائی پولر ڈس آرڈر واضح ہو کر سامنے آئی۔

میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ سولہ سال کی عمر میں مجھے اپنے کلاس فیلو سے محبت ہو گئی تھی۔ میرا ارادہ اٹھارہ سال میں اس کے ساتھ رہنے کا تھا۔ اس طرح منظم پروگرام کے تحت اٹھارویں سال میں گھر چھوڑ دیا۔ اور بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور دو ماہ میں حاملہ ہو گئی۔ اس دوران گھر کے کام کرتی۔ اس کے گھر والوں کا خیال رکھتی۔ مگر میرا ڈیپریشن حاوی آ گیا۔ میں کمرے میں بند روتی رہتی۔ میرے جمع شدہ پیسے بھی ختم ہو چکے تھے۔ اور ساتھ ہی گھر والوں کا سلوک بھی بدتر ہو گیا میں روتی رہتی یا سوتی رہتی۔ میرا ڈیپریشن عروج پہ تھا۔ اب میں نو ہفتے کی حاملہ تھی۔ ایک دن اپنے بچے کھچے پیسوں سے ابارشن کروایا۔ تین دن بعد ابو کو فون کیا جو مجھے آ کر لے گئے۔ یہ کوئی اچھا تجربہ نہیں تھا۔ مجھے واپس گھر آنا پڑا۔ گھر سے بھاگ جانے کے بعد پھر دوبارہ گھر لوٹنا اور پھر حاملہ بھی ہونا شرمناک عمل تھا۔ خود میرے لئے اور ظاہر ہے میرے گھر والوں کے لئے بھی۔ اسی دوران میرے ابو جو میری کیفیت کے متعلق متجسس اور فکر مند رہتے تھے۔ انہوں نے کہا صوفیہ تمہیں بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔ تم اپنا نفسیاتی تجزیہ کرواؤ۔

میرے خیال میں وہ تمام حالات ایسے تھے کہ جس نے مجھے دو سال تک شدید اداس رکھا۔ اور یہ اداسی محرک (trigger) ثابت ہوئی۔ بائی پولر کے حملہ کا۔ میں نے ابو کی ہدایت پہ عمل کیا، خود میں نے بھی اپنی یہی تشخیص (Diagnosis) کی تھی۔ ڈاکٹر کا بھی یہی تجزیہ تھا۔ آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کہ نفسیات میں بتایا جاتا ہے۔ کہ بائی پولر ڈس آرڈر کا سبب عموما جینیاتی بے قاعدگی ہے اور بہت کم صورتحال میں ماحول اس کی وجہ ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری وجہ جینیاتی ہے مگر اس کا محرک ماحول اور میری ہر جگہ رسائی (پیسہ، بوائے فرینڈ) تھی۔ مینیا ہو یا ڈیپریشن زندگی آپ کو بہت تھکا دیتی ہے اور زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مینیا (Mania) میں آپ میں بہت انرجی آ جاتی ہے اور آپ کی طبیعت بہت بے قابو ہو کر بہت کچھ کر گزرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ آپ کی جنسی خواہش بہت بڑھ جاتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ پیسوں کے حصول کے لئے میں نے ننگا ہو کر ناچنے اور جسم فروشی کے متعلق نہیں سوچا تو یہ میرا جھوٹ ہو گا۔ اس کے علاوہ انتہا سے زیادہ پیسہ خرچ کرنے کی خواہش اتنی کہ آپ قرضوں میں ڈوب جائیں اور کریڈٹ کارڈز اور دوسرے بل ادا نہ کر سکیں۔ وہ تو میرے نیک دل ابو ہیں کہ جو ہمیشہ ہی میری بری حالت میں مدد کرتے رہے۔

مینیک حالت میں نیند آپ سے میلوں دور رہتی ہے۔ آپ کا، جسم تھک جاتا ہے مگر دماغ ایک میل فی سیکنڈ کے حساب سے چلتا رہتا ہے۔ امپلس یا مسلسل کچھ کرنے کا تسلسل ایک خارش کی طرح آپ کے جسم پہ رینگتا رہتاہے کہ جیسے آپ کا دل چاہتا ہے کہ کھجائیں اور جب تک آپ کھجا نہ لیں آپ کو چین نہیں پڑتا۔

جب کہ ڈیپریشن اس سے بالکل ہی مختلف کیفیت ہے کہ جب بستر سے نکلنا ہی محال ہوتا ہے۔ روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی دشوار ہوتی ہے۔ اور گھر کے کام۔ اس کا تو آپ پوچھیے ہی نہیں۔ اس کیفیت میں آپ کی سوچیں مسلسل آپ کو آپ کی کم مائیگی کا یقین دلاتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ زندگی بے وقعت ہے۔ مسلسل خود کشی کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ محض کچھ ہفتے قبل میں نے دو گلاس بلیچ پی لیا۔ اور ساتھ ہی خواب آور گولیاں بھی کھا لیں۔ کوئی بھی چیز جو میرے ہاتھ آئی جسم میں چلی گئی مگر میرے پیٹ نے الٹی کر کے اسے نکال دیا۔ اس کے بعد میں نے باتھ ٹب میں پانی بھرا اور اس میں ایکٹینشن کورڈ کی مدد سے (straightner) بال سیدھا کرنے والے آلہ کا پلگ لگا دیا۔ تاکہ برقی رو سے اپنے آپ کو مار سکوں۔ مگر اسٹریٹنر تو مر گیا میں بچ گئی۔ میرے مرنے کی کوششیں بے سود رہیں۔ جس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ خدا نے مجھے بچا لیا۔ گویا دنیا میں میرے آنے کا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا اور جب تک یہ پورا نہیں ہوتا میری خودکشی مکمل نہیں ہو گی۔ چاہے میں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لوں۔ میرا ہر دن مشکل ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر میں مبتلا مریضوں میں توازن بہت مشکل ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ نہ صرف۔ مجھے بلکہ میرے سارے گھر والوں کو متاثر کرتا ہے۔

میں جو دوائی بائی پولر کے لئے لے رہی ہوں وہ (Latuda) ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے یہ بہت موثر ثابت ہوئی ہے۔ اور میں نارمل افراد کی طرح زندگی بسر کرنے لگی تھی۔ مگر اب میرے جسم نے اس کے خلاف مزاحمت پیدا کر لی ہے اور اس کا اثر نہیں رہا۔ اگرخوراک (Dose) زیادہ لوں تو آنکھوں میں (twiching) پیدا ہوتی ہے۔ مگر میں کسی دوسری دوا کے استعمال سے بھی ڈرتی ہوں۔ کہ کہیں وزن نہ بڑھ جائے۔ میں جو 93 پونڈز کی ہوتی تھی۔ دوائیوں کی وجہ سے تین سالوں میں چالیس پونڈ وزن بڑھ چکا ہے۔ میں آئینہ میں خود کو بد صورت محسوس کرتی ہوں۔ وزن کو قابو کرنے کے لئے جمنازیم اور سوئمنگ کے لئے جاتی ہوں۔ تیراکی مجھے بہت پسند ہے۔ جو میں پورے دن بھی کر سکتی ہوں جو مجھے اس جہنم سے نکال سکتی ہے کہ جس میں میرا دماغ الجھا رہتا ہے۔ اور میں اداس صوفیہ سے خوش صوفیہ میں تبدیل ہو سکتی ہوں۔

میری بیچلر ڈگری مکمل ہو چکی ہے مگر اب مزید یونیورسٹی جانا میرے لئے ممکن نہیں کیونکہ پچھلے چار سال میرے شدید جدوجہد کے تھے۔ اب میں شیف بننے کی تیاری کر رہی ہوں۔ کھانا پکانا میرا شوق ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہر دن میں کوئی نئی چیز سیکھ رہی ہوں۔

ایک بات جو میں اپنے اس خط میں شامل کرنا چاہتی ہوں وہ منشیات کا استعمال ہے۔ بائی پولر میں مبتلا افراد میں عام افراد کی نسبت یہ تناسب بہت زیادہ ہے۔ مثلا میں بہت ساری خواب آور پلز اکھٹا لے لیتی ہوں۔ شراب نوشی کی بھی عادت ہے۔ میری آمدنی کا ساٹھ ستر فیصد حصہ شراب کی نذر ہو جاتا ہے۔ میں ہر رات پیتی ہوں مگر اسے گھر والوں سے چھپاتی ہوں۔ جب تک میرے نظام (معمولات) میں شراب نہ ہو میں بے چین رہتی ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے براستہ ناک نشہ آور ادویات بھی لینا شروع کر دی ہیں۔ بائی پولر میں مبتلا افراد ان نشہ آور چیزوں سے اپنے جذبات کو سن کرتے ہیں۔ تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو۔

آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ مجھے حکومت یا سماج کی طرف سے کیا سپورٹ ملتی ہے؟ میری بیماری کی تشخیص میں چھ ماہ لگ گئے جس کے بعد سے مجھے سپورٹ ملنے لگی۔ معذوری کے ثبوت اور شواہد کے لئے مجھے ڈاکٹرز کے ریکارڈ دکھانے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کام کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ جب طالب علم ہوں تو اسکول میں کونسلر اور کوچ ملتے ہیں اور مقامی ہسپتال کی طرف سے نفسیاتی معالج کے لئے بھی حکومت مالی مدد کرتی ہے۔ کالج کی اساتذہ بھی اپنے لیکچرز کی پاور پوائنٹ دے دیتی ہیں اور ٹیسٹ اور امتحان کے وقت فاضل وقت دیا جاتا ہے۔ جو میں علیحدہ کمرے میں لیتی ہوں۔ میرے لئے کلاس میں ایک نوٹ ٹیکر ہوتا ہے جو نوٹ لکھتا ہے۔ اس کے علاوہ نشہ کے علاج اور کونسلنگ کی سروسز بھی مفت مہیا ہیں۔ فون کی اور ہسپتال وغیرہ جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مفت ہے۔

جرنل لکھنے کی میں ایسی شوقین نہیں لیکن اپنی زندگی کی کہانی بیان کرنا میرا شوق ہے میری کہانی لوگوں میں آگہی اور بصیرت پیدا کرتی ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ جب وہ حیرت سے پوچھتے ہیں۔ تم یہ سب کیسے کرتی ہو اور ہر روز کس طرح ہنستی ہو؟ تو میرا جواب ہوتا ہے قوت ارادی چاہے آپ ہارنے لگیں قوت ارادی آپ کو طاقت دیتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری آواز سنی جائے۔ مجھے اپنی کہانی پہ کوئی شرمندگی نہیں کہ یہ میری کہانی ہے۔ اور یہ کہانی بائی پولر ڈس آرڈر کے متعلق معلومات پہچانے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ تاکہ لوگ ہماری کیفیت کو جان سکیں۔
آپ کی مخلص
صوفیہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).