ملالہ، لبرل اور سعودی شہزادہ


دنیا میں مقبول ترین پاکستانی ملالہ یوسفزئی پاکستان آئی ہیں۔ بدقسمتی سے ان کا قیام صرف چند دنوں کا ہے۔ امید ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان کو زیادہ وقت دے پائیں گی اور ان تعلیمی پراجیکٹس میں اضافہ کریں گی جو وہ پاکستان میں چلا رہی ہیں۔ ملالہ کی آمد پر پاکستانی لبرل بہت خوش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے لئے ملالہ کتنی زیادہ اہم ہے۔ اقوام متحدہ میں اس کی تقریر ہو تو جنرل اسمبلی کا ہال بھرا ہوا ہوتا ہے، پاکستانی وزیراعظم کی تقریر ہو تو انہیں خالی کرسیاں ہی سنتی ہیں۔ غیر ملکی سربراہوں کے لئے ملالہ کی بات ٹالنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے ملک میں ان کا اپنا امیج متاثر ہوتا ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ سپر پاورز کے سربراہان اور دنیا بھر کے بادشاہ اور ملکائیں ملالہ کو مدعو کرتی ہیں اور اس ملاقات کی تصاویر جاری کرتی ہیں۔ وہ ایسا ملالہ کی محبت میں نہیں کرتے، بلکہ اپنا بہتر امیج بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ ملالہ کی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کی جس طرح دنیا بھر میں کوریج ہو گی، وہ دیکھ کر ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہیے۔

پاکستانی لبرل تو ملالہ کی آمد پر خوش ہیں۔ لیکن دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر شدید ناخوشی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے اپنی اس تنگ نظر سوچ پر عمل کرنے والوں نے ہی ملالہ کو بچیوں کی تعلیم کے حق میں بات کرنے پر گولی ماری تھی جبکہ اس سوچ کے حامیوں نے ملالہ کے خلاف مہمات چلائی تھیں۔ آج بھی آپ کو یہ لوگ بتاتے نظر آئیں گے کہ ملالہ نے اپنی کتاب میں داڑھی اور برقعے کی توہین کی تھی۔ نہ انہوں نے ملالہ کی کتاب پڑھی ہے، نہ انہوں نے ملالہ کی وہ ڈائری پڑھی ہے جو بی بی سی پر ”گلئی مکئی کی ڈائری“ کے نام سے شائع ہوئی تھی، اور اپنے فکری ساتھیوں کی تحریف شدہ تحریر کے بارے میں سن سن کر اسے ملالہ سے منسوب کرتے ہیں۔

لیکن ایک معمولی سا مسئلہ ہو گیا ہے۔ 2012 میں ملالہ کو گولی مارنے سے لے کر اب تک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی پالیسی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا پاکستان میں دہشت گردوں کی کسی قسم کی سپورٹ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ ”ڈو مور“ کی فرمائشیں کرنے والے اب خود پاکستان کے ساتھ ”ڈو مور“ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ انتہا پسندانہ سوچ ان ملکوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے جو کبھی اسے اپنے ایمان کا حصہ جانتے تھے۔

اس سوچ کا سب سے بڑا داعی سعودی عرب تھا۔ سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو عملی طور پر بادشاہت کر رہے ہیں، اس وقت اپنے ملک کو انتہا پسندی سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ عوامی طور پر بتا رہے ہیں کہ 1979 کے بعد انتہا پسند بننا سعودی عرب کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ انتہا پسند سوچ میں برداشت کا عنصر عنقا ہوتا ہے۔ لبرل فکر دوسرے کو برداشت کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک کو نہ صرف 1979 سے قبل کے لبرل سعودی دور میں لے جا رہے ہیں، بلکہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ان کا رول ماڈل دبئی ہے۔ اب سعودی عرب کی نوجوان نسل کو اس دنیا سے اور انسانوں سے محبت کرنا سکھایا جا رہا ہے۔ ان کو وہ موسیقی، فلمیں اور میلے ہر ویک اینڈ پر اپنے آس پاس مل رہے ہیں جن کی خاطر سعودی شہری بیس ارب ڈالر سالانہ خرچ کر کے دوسرے ممالک میں جاتے تھے۔ یعنی نواز شریف کے بعد سعودی عرب بھی لبرل ہو چکا ہے۔

اب فرض کریں، کہ ملالہ کی اہمیت کے پیش نظر اگر سعودی بادشاہ ان کو اپنے ملک آنے کی دعوت دیں، تو پھر کیا ہمارے انتہا پسند ویسی ہی ناراضگی کا اظہار کریں گے جیسے وہ ملالہ کی پاکستان آمد پر کر رہے ہیں؟ کیا اس دورے کے بعد بھی جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ملالہ کو اسلام دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی یا پھر ہمارے انتہاپسندوں کو یہ سمجھ آنے لگے گی کہ پاکستان کا مستقبل ملالہ ہی ہے اور ملالہ ہماری طرح ہی اسلام اور پاکستان سے محبت کرتی ہے۔

ملالہ کی ڈائری: سکول جانا ہے۔ ۔ ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar