افسانہ صرف وسی بابا پر نہیں بیتا


معلوم نہیں وسی بابا نے جگ بیتی لکھی تھی یا ہڈ بیتی، مگر یار لوگوں نے سچ سمجھ کر وسی بابا کو خوب داد شجاعت دی۔ کچھ احباب تو باقاعدہ رشک میں مبتلا نظر آئے۔ البتہ چند ایک احباب کے من میں چھپے امر بالمعروف کے سپاہیوں نے احتجاجی صدائیں بھی لگائیں۔ سوشل میڈیا چونکہ اب ایک باقاعدہ چوپال ہے، تو نکڑ پر بیٹھے کسی من چلے نے وسی کی تحریر ایک گروپ میں ڈال لی تھی جس پر باقاعدہ نظریاتی بحث جاری تھی۔ احباب کبیدہ خاطر نہ ہوں تو کہنے دیجیے کہ باقاعدہ بیانیوں کی جنگ جاری تھی۔ عرض ہے کہ اس بیانئے نامی اصطلاح کو انگریزی میں (Narrative) کہا جاتا ہے۔ بیانیوں کی اس جنگ میں بحث یہ تھی کہ کہانی کا ہیرو تو مشرقی ہے مگر اس کے اطوار مغربی ہیں۔ یہاں مشرقی سے مراد مذہبی لیا جا رہا تھا اور مغربی سے مراد ’ مادر پدر آزاد ‘ لیا جا رہا تھا۔ سچ پوچھئے تو خاکسار کو کبھی اس مادر پدر آزاد نامی اصطلاح کی سمجھ نہیں آئی۔ سمجھ تو خیر مشرقی اور مغربی بھی نہیں آتے۔

ایک بار دوبئی ایک ریستوران میں چند عرب دوستوں کے ساتھ نیم عربی میں کسی موضوع پر گفتگو جاری تھی۔ دوبئی کے ایک صاحب نے ایک دوسرے صاحب کو بد تہذیب اور جاہل ہونے کا طعنہ دیا۔ وہ صاحب خفا ہو کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد دوبئی والے صاحب سے عرض کیا کہ حضور والا آپ نے ان کو بدتہذیب اور جاہل کیوں کہا؟ کہنے لگے، ’ کان من الغرب‘ ( وہ مغرب سے تھا)۔ حیرت کا پہاڑ تو ٹوٹا مگر تجسس برقرار رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’ ایی بلد؟ ‘ (کونسے ملک سے)۔ فرمایا، ’ من السودان‘ (سوڈان سے)۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’ ہیی السودان فی الغرب‘ ( کیا سوڈان مغرب میں ہے؟ )۔ فرمایا، ’ ہل انت مجنون‘ ( پگلا گئے ہو کیا؟ )۔

اب سوڈان والے کیوں بدتہذیب اور جاہل تھے یہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئی مگر یہ معلوم ہوا کہ ان کے ہاں سوڈان مغرب میں پایا جاتا ہے۔ خیر یہ تو ایک واقعہ معترضہ تھا عرض کرنا یہ مقصود تھا کہ وسی بابا کے افسانے پر جو بحث جاری تھی اس کا اختتام یوں تھا کہ امر بالمعروف کے مورچوں میں خیمہ زن سپاہی ’ مادر پدر آزاد، مغرب کے دلدادہ، انگریزوں کے غلام، این جی اوز کے پروردہ، لبڑل اور اس قبیل کے دیگر گولوں سے بمباری کر رہے تھے جبکہ سیکولر مورچے کے سپاہی ’ جاہل، کند ذہن، گنوار، احمق اور گولوچوی نامی گولے داغ رہے تھے۔ آخری اطلاعات آنے تک ایک طبقہ موم بتی مافیا کہلایا جا رہا تھا اور دوسرا طبقہ اگربتی مافیا کہلایا جا رہا تھا۔

جہاں تک وسی بابا کے افسانے کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ وسی بابا ایک نادر روزگار ادیب ہیں۔ وسی بابا نے اگر آپ کویہ بتانا ہو کہ ہم چار دوست لاہور گئے تھے، دو لاہور میں رہ گئے، ایک بھیرہ پر اتر گیا اور میں گھر آگیا، تو وسی بابا کہانی یوں بیان کریں گے ”ہم چار تھے۔ دو ادھر ہی وڑ گئے، اک بھیرہ پر عملی ہو گیا اور باقی میں گھٹ ہی بتانا“۔ وسی کی کہانی تک ایک کہانی یاد آگئی۔ جگ بیتی سمجھ لیں یا آپ بیتی کیا فرق پڑتا ہے۔ ہاں’ moral of the story‘جسے ہم بچپن میں” نتیجہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تھے وہ آخر میں وسی بابا جیسی ہو گی یہ وعدہ ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے غلطی سے انگلش لٹریچر میں داخلہ لیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ کلاس میں بس وہی ایک خوبصورت تھی۔ کیا فیشن، کیا کپڑے، کیا پرفیوم اور اس پر وہ حسن بے مثال۔ مزید یہ کہ انگریزی بھی بہت مشکل بولتی تھی۔ دشمنوں نے تو یہ بھی اڑائی تھی کہ فارسی میں شاعری بھی کرتی ہے تاہم اس رویت کی سند نہیں ملی۔ وہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ کمینی اپن لوگ کی طرح چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتی ہے اور پکوڑے کھانے کے بعد پیالے میں بچی املی کی چٹنی سڑپ سڑپ کر کے پیتی ہے۔

لڑکے بالے سارے اس کے پیچھے خوار تھے اوردن بھر اسی کا طواف کیے جاتے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ محترمہ نک چڑھی مشہورتھیں۔ نک چڑھی تو خیر کیا تھی یہ تو بس خوبصورتی کے اضافی نمبر تھے۔ یار بیلی کہتے تھے کہ کسی پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالنے کی روادار نہیں ہے۔ ہم عرض کیا کرتے تھے تو درست نظر ڈال لے ہمیں کونسا اعتراض ہے۔ ماما قادر فرمایا کرتے تھے کہ’ کلاس میں ایک ہی خوبصورت ہوتی ہے۔ باقی تو اس کے خار میں اپنا ایمپریشن نماز یا عبائیے سے جماتی ہیں‘۔ ادھر یار لوگ تقوی کی ہانڈی چڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ اصل خوبصورتی تو من میں ہوتی ہے۔ دل میں کئی بار آتا تھا کہ ایسے شیرے میں لتھڑے بزرگوں کو کہا جائے کہ پاکھنڈیو! اگر خوبصورتی من میں ہوتی ہے تو ناول کی کاپیاں اس کو کیوں دیتے پھرتے ہو انہی کو دو جو من کی خوبصورت ہیں۔

ہوا یوں کہ ہمارے سیلیبس میں Charles Dickens کا ایک ناول A Tale of Two Cities شامل تھا۔ شہر کی ساری دکانیں چھان ماریں مگر ناول نہ ملا۔ پوری کلاس میں ناول کی کاپی صرف اسی دلربا کے پاس تھی۔ خوش قسمتی سمجھ لیجیے کہ ناول کی ایک کاپی اپنے ایک مایہ ناز استاد نے اپنے آٹوگراف کے ساتھ تحفتاً عنایت کی۔ کلاس میں مگرلے جانے کا مطلب یہ تھا کہ کتاب پھر نہیں ملنی۔ لے دے کر معاملہ یوں بنا کہ گویا کتاب اس نازنین اور خاکسار کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں تھی۔ کچھ دن بعد محترمہ کے نام سے ڈیپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ پر ایک اشتہار چسپاں تھا۔ نوٹس بورڈ کے سامنے بالکل وہی سین تھا جوفلم تھری ایڈیئٹس میں رزلٹ کے دن کا تھا۔ کیا راجو رستوگی، کیا فرحان قریشی اور کیا چتور رام لنگم، سب کے سب کھلے منہ سے نوٹس بورڈ کو دیکھ رہے تھے۔

فلم میں تو رنچھوڑ داس چھاچھڑ عرف رینچو نوٹس بورڈ کے سامنے نہیں تھا مگر یہاں رنچھوڑ داس تو چھوڑیں عامر خان بھی کھڑا آہیں بھر رہا تھا۔ نوٹس کے شبد کسی اشلوک کی طرح کورس میں دہرائے جا رہے تھے۔ ” میرا ناول A Tale of Two Cities کہیں کھو گیا ہے۔ اگر کسی کو ملے تو براہ کرم واپس کر دیں یا کسی کے پاس اپنی کاپی ہو تو فوٹو اسٹیٹ کے لیے عنایت کرے‘‘۔

فانی بدایونی نے تو لکھا تھا کہ ’ مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا‘ ہم نے مگر سوچا یہی تو موقع ہے۔ اگلے دن ناول اچھی طرح اخبار میں مجلد کر کے لے آئے تاکہ کسی اور کی نظر نہ پڑے۔ بریک میں کینٹین گئے تو موقع مناسب نہ تھا۔ سوچا کسی اور وقت عشق بے قرار کا اظہار نامہ کتاب میں رکھ کر دیں گے۔ اپنے محبت نامے ویسے بھی بہت مشہور تھے۔ دوسروں کے لیے جب بھی لکھے تو کاٹے نے پانی نہیں مانگا۔ اپنی واری تو لگا، ایسا شاہکار محبت نامہ لکھا کہ خود پڑھ کر خود سے عشق بھلے نہ ہو مگر خود پر ترس ضرور آیا۔ چونکہ موقع مناسب نہیں تھا توکینٹین میں ذرا سائیڈ پرہو لیے۔ پاس بیٹھی دو اور کلاس فیلوز اسی نازنین کی حسد میں مبتلا اس کی برائیوں میں مصروف تھیں۔ ایک محترمہ کہنے لگیں، ’یہ لڑکے اتنے کمینے ہیں، جب اس نک چڑھی کے پاس کتاب تھی تو روز کوئی نہ کوئی فوٹو کاپی کے لیے مانگتا تھا۔ کل اس کی کتاب گم ہوئی تو آج کینٹین میں آتے ہوئے مجھے بڑے فخر سے بتانے لگی کہ اب تک اسے تین کاپیاں مل چکی ہیں‘۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah