میں ملالہ سے کیوں نفرت کرتا ہوں


اب چونکہ ساڑھے پانچ سال کے بعد ملالہ یوسفزئی پاکستان واپس آئی ہیں تو اب ہر کونے سے تبصرے نکل کر آئیں گے۔ سیاستدان، صحافی، لبرل فاشسٹ سب اپنا اپنا چورن بیچیں گے۔ کچھ طنزیہ تحریریں لکھی جائیں گی جنھیں سنجیدہ لیا جائے گا، کچھ سنجیدہ تحریریں لکھی جائیں گی جن کا مذاق بنے گا، اور کچھ امریکی، بھارتی، یہودی اور نہ جانے کہاں کہاں کی ملٹی نیشنل سازشوں کا ذکر ہوگا جو ایک نہایت ہی سیدھے سادھے مدعے کی پھرکی بنا دے گا۔

اس صورت حال کو مد نطر رکھتے ہوئے خاکسار یہاں دو ٹوک بات کرے گا، اور موضوں کو گھمائے پھرائے بغیر آپ تک وہ حقائق پہنچائے گا جو کسی اور تحریر میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ اب چاہے آپ اسے جنس پرست، عورت دشمن، انتہا پسند یا جہادی کہیں، خاکسار کو کوئی گریز نہیں کیونکہ وہ ان تمام القاب کو تہہ دل سے قبول کرتا ہے۔ لہٰذا وہ بغیر کوئی ٹوپی ڈرامہ کیئے آپ کو ملالہ سے نفرت کرنے کی بالکل سچی وجہ بتائے گا: ایک سچے پاکستانی مرد کی سچی تحریر۔

ایک پاکستانی کسی سے کتنی نفرت کرتا ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس شخص سے نفرت کرنا کتنا آسان ہے۔ اور جہاں تک نفرت کی آسانی کا تعلق ہے اس پیمانے پر ملالہ سے زیادہ کوئی پورا نہیں اترتا۔

ایک نابالغ لڑکی بغیر کسی ڈر کے ملک کے سب سے بڑے دشمن کا سامنا کرتی ہے۔ وہ سر پے گولی کھاتی ہے، کسی کٹر پیرو نظریے کے لیے نہیں بلکہ تعلیم جیسے انسان پرستت مقصد کے لیے۔ اس بے مثال بہادری کے لیے اسے عالمی پزیرائی ملتی ہے، وہ یونائٹڈ نیشنز کے سامنے تقاریر کرتی ہے، امریکی صدر سے ملتی ہے، نوبیل پرائز جیتتی ہے اور غالبا پاکستان میں امید کی اکلوتی کرن ہے۔

اوہو یہ تو نفرت سے زیادہ ثابت قدمی کی داستان لگ رہی ہے۔ تو کیون نہ سکہ گھما کے دیکھا جائے؟

ایک بغیر کسی شرم کے ملک کے سب سے بڑے دشمن کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ سر پے گولی کھانے کا ڈرامہ کرتی ہے تاکہ وہ ملک کے دشمنوں کا ایجنڈا پھیلا سکے، کسی کٹر پیرو نظریے کی نہیں بلکہ تعلیم جیسے انسان پرستت مقصد کی آڑ میں۔ اس بے مثال ناٹک کے لیے اسے عالمی پزیرائی ملتی ہے، وہ یونائٹڈ نیشنز کے سامنے تقاریر کرتی ہے، امریکی صدر سے ملتی ہے، نوبیل پرائز جیتتی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کی امید کی اکلوتی کرن بنی پھرتی ہے۔

اب آپ مجھے یہ بتایے کہ سکے کا کونسا رخ میرے لئے ماننا زیادہ آسان ہے؟ اور یاد رہے یہاں آسانی دلائل یا منطق سے نہیں، بلکہ محض ایک عام پاکستانی مرد کے نظام انہظام سے منسلک ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ اپنے مذہب کے علم برداروں کو اپنا دشمن ماننا میرے لیے آسان ہے؟ کیا آپ کو لگتا کے کہ یہ تسلیم کرنا کہ ایک 15 سالی بچی نڈر ہو کے پاکستانی سلامتی کو لاحق سب سے بڑے خطرے کا تن تنہا مقابلہ کر رہی تھی جب کہ میرے جیسے غیرت مند مرد ان ”قوم پرستوں“ کے لئے بہانے بنائے جا رہے تھے میرے لیے آسان ہے؟ کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ میں یہ با آسانی مان لوں گا کہ ہمارے یہاں کی ایک نہتی لڑکی نے تمام تر معاشرتی رکاوٹوں کے باجود اکیلی ایک عالمگیر تحریت کا آٰغاز کر دیا؟ یہ سوچ میرے ان تمام تنگ ذہن اور جنس پرت نظریات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیتی ہے جن پر میری پرورش ہوئی ہے۔

میں ملالہ کو ہیرو کیسے مان لوں جب اس کی تقاریر میں اسلامی یا پاکستانی نہیں بلکہ عالمی برتری کا ذکر ہوتا ہے؟ میں کیسے اسے اپنی لیڈر مان لوں جب وہ میرے اندر بحیثیت ایک مسلمان یا پاکستانی ایک جھوٹا احساس برتری نہیں ڈالتی؟ میں یہ کیونکر تسلیم کروں کہ ایک چھوٹی بچی نے اس بات کی نشاندہی کر دی کے پاکستان کے اصل دشمن کون ہیں جب کہ ہمارے پارلیمانی نمائندے اور ادارے آج بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں؟

میں ملالہ کی عالمی اعزازات پر کیسے تالیاں بجاؤں جب مجھے یہ سکھایا گیا ہے کہ لڑکیوں کی جگہ تو باورچی خانے میں ہے؟ معاف کیجئے گا یہ خاکسار کے بس کی بات نہیں۔
میرا مذہبی عقیدہ بھی پدرپرست کے اور میرا معاشرہ بھی۔ لیکن مجھے جنسی مساوات اور حقوق نسواں کی نمائش کرنی چاہیئے؟ بہت اچھے!

اسی لئے تو عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے ملالہ یوسفزئی نہیں۔ کیونکہ عافیہ مظلوم ہے، بیچاری ہے، اور جہاد کرنا چاہتی ہے۔ ہم بیٹیوں میں یہی خصوصیات تو چاہتے ہیں: نزاکت، کمزوری، بیچارگی اور اپنے محرموں پے مستقل انحصار۔

تو پھر قوم کی بیٹی کون ہوئی، جسے میں کفار کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے نعرے مارسکوں یا وہ جو کفار کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہی ہے؟
کوئی ایک خاتون ہے جسے ہم نے اپنی عالمی نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا ہو؟ بینظیر بھٹو؟ لیکن وہ تو ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھی۔ ملالہ کو کس عظیم مرد کے نام سے جوڑیں؟

کیا اب بھی آپ کو یہ بات نہیں سمجھ آئی کہ کٹھن نظریاتی ترامیم اور سوچ میں تبدیلی کے بجائے کانسپریسی تھیوریوں پر بے جھجک ایمان لے آنا میرے لئے ہزار گنا زیادہ باعث سہولت ہے؟ ملالہ سے نفرت میرے لیٔے سب سے زیادہ باعث سہولت انتخاب ہے۔

میں ملالہ سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ پھر مجھے اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا پڑتا۔
میں ملالہ سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ پھر مجھے اپنا سر ریت میں سے کبھی باہر نہیں نکالنا پڑتا۔
میں ملالہ سے نفرت کرتا ہوں تاکہ اپنی بیٹی کی شادی کرنا ہی میری اس کی طرف ذمہ داری ہو۔

میں ملالہ سے نفرت کرتا ہوں تاکہ اپنی ماں کے ہاتھ سے کھائے گئے وہ تمام نوالے جو میری بہن کے حصے میں نہ آ سکے میرے لیے برسوں بعد باعث شرم نہ ہوں۔
میں ملالہ سے نفرت کرتا ہوں تاکہ میں، میری مردانگی، اور میرا احساس برتری رات کو سکون کی نیند سو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).