میرا فین کلب۔۔۔ کیسی غلطی شباب کر بیٹھا


بات کچھ ایسی ہے کہ فروری میں میری چند تحریریں مقبول ترین رہیں اور لگاتار رہیں۔ میں خود کو شاید کچھ نہ سمجھتی اور یہی سوچ رہتی کہ ذرہ نوازی ہے عوام کی مگر بات آگے بڑھ گئی۔ لوگوں کی سینکڑوں فرینڈ ریکوسٹس وصول ہوئیں۔ چند ایک کو “ہم سب” پر دیکھا بھالا جان کر قبول کیا۔ چند ایک سے خود بے حد متاثر تھی۔ انھیں فیس بک پر دوست بنایا۔

مگر مسئلہ میسج ریکویسٹ نے خراب کر دیا۔ روزانہ کئی تعریفی جملوں، ویو اور ایڈ می پلیز کے میسج آتے۔ سوچا فین کلب ڈیولپ ہو رہا ہے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک الگ آئی ڈی بنا ڈالی ریڈرز کے لئے۔ کیونکہ میں خود کو بہت بڑی لکھاری ماننے لگ گئی تھی۔ اور نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی، احباب رشتہ دار جو کہ موجودہ آئی ڈی میں ہیں، اُن کو کسی قسم کی دشواری ہو۔ [شکر ہے یہ عقل کا کام کیا میں نے ] کیونکہ میں عقل سے بلکل پیدل ہوں اور اس کا اندازہ مجھے اب ہو چکا ہے۔ اس لئے تو صبا ڈول، ہانیہ ہانیہ خان خان، پاپا کی پرنس اور دیوانی لڑکی کی ریکویسٹ پر بڑا پیار آتا تھا۔ ابھی لکھنے لکھانے کے عہد شباب میں تھی تو غلطیاں بھی ہوتی ہی چلی گئیں۔

میں نے فہد مرزا شکیل جان۔ محمد بشیر، سہیل احمد وغیرہ جیسے ناموں پر ایک الہڑ دوشیزہ کی طرح نگاہ ڈالی۔ اور اونہہ کہ کر منہ موڑ لیا۔ پاپا کی ڈول ٹائپ ناموں پر اور دیگر خواتین جن کی ڈی پی ان کی پوری فوٹو نہیں بلکہ کسی ماڈل یا سر کی یا ہاتھ پاؤں یا بالوں والی تھی۔ اس لئے پیار آیا کہ ہاۓ بیچاری ہماری تنگ نظر سوسائٹی میں کھل کر فیس بک بھی استعمال نہیں کر سکتیں۔ ان کی پروفائل بھی کافی صاف ستھری ہوتی تھی۔ اس لئے ایڈ کرتے وقت میری بچیاں کی صدا دل ناداں سے بلند ہوتی اور اس نیّت سے کہ انھیں ان کے بنیادی حقوق سے روشناس کرواؤں گی کا عزم لے کر فیس بک فرینڈ بنا لیتی۔ پھر ان میں سے ساٹھ فیصد لڑکیوں کے میسج آنا شروع ہوۓ تو میرے شباب کی معصومیت جاتی رہی۔ معلوم ہوا کہ میں دوسروں پر رحم کھانا چاہتی تھی، دراصل تو میں خود قابل ترس حد تک سادہ لوح ہوں۔

فوٹو میسج تو کچھ ایسے ہوتے کہ وہ ابھی میرے لئے دل چیر کے رکھ دیں گے۔ رکھ دیں گے؟ جی ہاں وہ میرے دیس کا مس تق بل تھے۔ ہمارے نوجوان اس قسم کی اوچھی حرکات میں پڑ کر اور اپنا وقت ان بیکار مشغلوں میں ضایع کر کے پاکستان کا مستقبل ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ کچھ پکچر میسج ایسے تھے کہ مجھ بڑھیا کی آنکھیں گویا پھوٹ یا پھٹ جائیں گی۔ اگر نظر نہ ہٹائی تو۔ اور ایسے ایسے عشقیہ میسج کہ جیسے پورا پاکستان حسیناؤں سے خالی ہو چکا ہے۔ ایک لڑکی کا اصرار تھا کہ میں اسے فرزندی میں لے لوں۔ یعنی وہ بی بی نہیں، بابا تھا۔ بہت خاص با اعتماد دوست بھی اس آئ ڈی میں موجود تھے جن سے چیٹ کرنے بیٹھتی تو بلا ضرورت کالز کا سلسلہ شروع ہو جاتا میسنجر پر۔ کال سنو تو بولتا کوئی نہیں تھا۔ یعنی ساون کے اندھوں کو ہرا ہی ہرا سوجھ رہا تھا۔ وہ مجھے بھی کوئی پاپا کی ڈول سمجھ رہے تھے۔ میری آواز سن کر فون بند۔ گویا ان کو تسلّی ہو جاتی کہ میں واقعی عورت ہوں۔

اس کے بعد ان کی مختلف بے ہودہ باتیں میسنجر پر آنا شروع ہو جاتیں یعنی یہ ثابت ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی میرا پروفیشنل دوست نہیں تھا۔ صرف ایک عورت کی فوٹو پر مر مٹنے والے افراد تھے۔ ایسے مرد و خواتین بھی ہیں جو واقعی میرے پروفیشنل فیس بک فرینڈ ہیں۔ جو میری پوسٹ پر دھیان دیتے ہیں۔ ان سے میرا ایک رشتہ ہے قاری اور لکھاری کا۔ کسی کی میں قاری ہوں جیسے نورالہدی شاہ صاحبہ اور لبنیٰ مرزا تو کوئی میرا قاری ہے۔ اب سمجھ میں بات آ رہی ہے کہ شرمین عبید چنائے  کا موقف کیا تھا۔ فرینڈ ریکویسٹ کو لے کر۔ کوئی ڈاکٹر کسی رشتے یا ناتے میں پہلی ملاقات کے بعد مبتلا ہو گیا تھا۔ سرکار کیا اب ہاتھ دکھانے بھی نہ جائیں ہسپتال کہ ہمارا طبی معائنہ ہونہ ہو۔ ہماری حیثیت اور شکل و صورت کا معائنہ تو ضرور ہو گا۔ یہ بلکل معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک بیمار عورت میں کیا کشش محسوس ہوئی۔ جواب آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔ رہی بات میری تو میں چھانٹ چھانٹ کر جعلی خواتین کو فیس بک پر سے رخصت کر رہی ہوں۔ کیونکہ میں بیک وقت ہزار لوگوں کو دل نہیں دے سکتی۔ میرے جیسوں کے پاس ایک ہی دل ہوتا ہے، خانہ برباد نے مدت ہوئی، گھر چھوڑ دیا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).