آپ ملالہ سے اختلاف کیوں رکھتے ہیں ؟


سوات میں طالبان کا نشانہ بننے والی ایک معمولی سی سترہ سالہ لڑکی ملالہ یوسفزئی دنیا کے نوبل پرائز یافتہ لوگوں میں شامل ہوگئی یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ جس پر یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہونے لگتا ہے جسکی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیتے ہیں اور مختلف انداز سے دیکھنے والے لوگوں کی مختلف رائے سامنے آنے لگی کوئی ملالہ کو ہیرو سمجھنے لگا تو کوئی ایجنٹ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں مگر ہماری عوام اور اس ملک کے پاشندوں کا یہ بہت بڑا المیہ یہی ہے کہ اکثریت حقائق نہیں جانتی اور خود غور و فکر بھی نہیں کرتی بس دیکھا دیکھی میں کسی بھی مسئلے کے حق یا اسکی مخالفت میں رائے قائم کرلیتی ہے

ایسا تب ہوتا ہے جب معاشرہ مختلف سوچ کے حامل لوگوں کا مجموعہ ہو جہاں مذہبی سوچ بھی عروج پر ہو سیکولر و لبرل سوچ بھی عروج پر ہو جہاں حب الوطنی حدود سے گزر چکی ہو اور غداری کے عناصر بھی واضح ہوں جب کسی ملک میں ایسا معاشرہ پایا جائے تو معاشرے میں بسنے والے ہر طبقہ کے لوگ مسائل کو اپنی اپنی نظر سے دیکھتے ہیں ایسی صورتحال میں اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے صرف تعلقات ، جذبات اور عطاکردہ سوچ کو مقدم رکھا جاتا ہے جو کہ ہمارے ہاں دیکھنے میں آتا ہے تمہیدی گفتگو کے بعد اپنے عنوان کی طرف آتے ہیں کہ آپ ملالہ سے اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟

 جب تک آپ معاشرے میں پلنے والی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتے تب تک آپ اختلافات کو بھی نہیں سمجھ سکتے سب سے پہلے ان اختلافات کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے جسکی وجہ سے ملالہ کے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے اگر اس طرح کا سوال کیا جائے تو وہ اختلافات کچھ اس طرح بنتے ہیں وہ تین طرح کی سوچ پر مبنی ہوسکتے ہیں

1 – میں ملالہ سے اس لیے اختلاف رکھتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے خلاف بات کرتی ہے

2- ملالہ ایک سوچا سمجھا ڈرامہ ہے جس سے ملک کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ملالہ ایجنٹ ہے اس لیے مجھے ملالہ سے نفرت ہے

3- مجھے ملالہ سے اس لیے نفرت ہے کیونکہ وہ عورت ہوکر مردوں میں سرعام کھومتی ہے جو مذہبی روایات اور میرے کلچر کے خلاف ہے

یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جنکے سب اختلافات جنم لیتے ہیں تیسرا اختلاف کہ وہ ایک لڑکی ہے بظاہر کوئی اختلاف نہیں لگتا کیونکہ عورت اب ہر میدان میں آچکی ہے اور آنا بھی چاہیے تھا مگر کس طرح آنا چاہیے تھا یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بات ہوسکتی ہے یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ آخری اور تیسرا اختلافات دراصل اختلاف نہیں۔ ہاں پہلے دو اختلافات قابلِ غور ہیں جن پر بحث ہوسکتی ہے سب سے پہلا اختلاف کہ ملالہ مذہب کے خلاف بولتی ہے ذرا اس پر سوال و جواب کی صورت میں کچھ روشنی ڈالتے ہیں

مبصر : ملالہ کیسے مذہب کے خلاف بولتی ہے؟

معترض : اس نے کہا تھا کہ یہ داڑھی والے مجھے شیطان لگتے ہیں

مبصر : ملالہ نے کن کے بارے میں کہا کہ ایسے داڑھی والے مجھے شیطان لگتے ہیں؟

معترض : ظاہر سی بات ہے ان کو کہہ رہی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں

مبصر : ایسے لوگ جو اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں آپ انہیں اچھا انسان یا مذہب کا نمائندہ سمجھتے ہیں؟

معترض : بالکل بھی نہیں ایسے لوگ مذہب کے نمائندگان ہرگز بنہیں ہوسکتے ایسے لوگ تو مذہب کو بدنام کر رہے ہیں دہشتگرد ہیں مجھے ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے

مبصر : اگر آپ ایسے لوگوں کو کوئی نام دینا چاہو تو کیا نام دوگے؟

معترض : انسانیت کی شکل میں درندے اور اسلام کے نام پر دھبہ

مبصر : اچھا تو یہ بتائیں ملالہ کن کو برا کہتی ہے؟

معترض : انہی لوگوں کو جنہیں میں برا کہتا ہوں

اس سے واضح ہورہا ہے کہ آپکا اعتراض تقریباً ختم ہوچکا ہوگا اب دوسرے بھائی کی طرف آتے ہیں جو اپنے وطن سے بہت محبت کرتا ہے اور ملالہ کو ڈرامہ سمجھ کر ایجنٹ کہتا ہے

مبصر :کیا ملالہ کو گولی نہیں لگی؟

معترض : بالکل بھی نہیں

مبصر : آپکے پاس کوئی ثبوت ہے؟

معترض : ثبوت تو آپکے پاس بھی نہیں کہ اسے گولی لگی ہے

مبصر : چلیں مان لیتے ہیں اسے گولی نہیں لگی مگر وہ ایجنٹ کیسے ہوئی؟

معترض : ظاہر سی بات ہے جب گولی نہیں لگی تو پھر اتنی شہرت کیسے ملی، اسے باہر کون لے گیا کیوں لے گیا اور اب پاکستان میں آکر وہ کیا کرنا چاہتی ہے یہ سارے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں

مبصر : ویسے یار آپکی باتیں واقعی کمال ہیں اتنے سارے سوالات اور جواب کوئی بھی نہیں اچھا یہ بتائیں اگر وہ ایجنٹ ہے تو اسکا ایجنڈہ کیا ہوسکتا ہے؟

معترض : اسے تیار کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں وہ پاکستان کی وزیراعظم بن کر یہودیوں کے نظریات کیلئے کام کرے پاکستان سے مذہبی روایات و نظریات کو ختم کردے یہی اسکا ایجنڈہ ہے

مبصر : اگر وہ وزیراعظم نہ بن سکی تو مطلب وہ اپنے ایجنڈے میں ناکام ہوجائے گی؟

معترض : بالکل وہ اپنے ایجنڈے میں ناکام ہوجائے گی وہ پاکستانی پالیسیاں تبدیل نہیں کرسکے گی اس طرح ملک نقصان سے بچ جائے گا

مبصر : ایک بات تو بتائیں اگر آپ کو اتنا کچھ پتا ہے کہ وہ کسی ایجنڈے کے تحت آئی ہے اور ملک کو ناکام بنانا چاہتی ہے پھر پاکستان کی نمبر ون ایجنسی اسے اپنے ایجنڈے میں کامیاب کیسے ہونے دے گی یا آپ ایجنسی سے زیادہ جانتے ہیں؟

معترض : ہاں ایجنسی تو اسے ملک کو نقصان پہنچانے نہیں دے گی اسے کامیاب بھی نہیں ہونے دے گی مگر ملک میں ایسی فضاء قائم کی جارہی ہے تاکہ بہت سے لوگ ملالہ کے حق میں بولیں جس سے یہی لگتا ہے کہ شاید وہ آگے آجائے گی مگر ہماری ایجنسیاں اسے ایسا نہیں ہونے دیں گیں

مبصر : مطلب آپکو اپنے اداروں پہ یقین ہے اگر اسکے باوجود وہ حکومت میں آجائے تو یہی سمجھ لیا جائے گا کہ وہ ملک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی

معترض : کیا کہا جاسکتا ہے

بات یہ ہے اکثریت دیکھا دیکھی میں اتفاق یا اختلاف کرنے لگتی ہے اکثریت جانتی بھی نہیں کہ اگر ہم اختلاف کر رہے ہیں تو کیوں کر رہے ہیں یا کسی کے حق میں بول رہے ہیں تو کیوں بول رہے بس کسی نے کہہ دیا کہ فلاں شخص اسلام مخالف ہے ملک کے خلاف بولتا ہے پھر سب شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ملک کے خلاف جو بھی بول اسے ہم برداشت نہیں کرسکتے مگر اتنی زحمت نہیں کرتے کہ کچھ پتا بھی چلے کہ اس نے اسلام کی تعریف کی ہے ملک کی بہتری کی بات کی ہے یا کچھ اور بولا ہے بس شروع ہوجاتے اور ہاں یہ ضروری بھی نہیں کہ جو شخص ایک شعبے کا بادشاہ ہو تو دوسرے شعبے میں بھی بادشاہ ہی بن جائے گا ایسا ہرگز نہیں

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ملک کا ہیرو اور محسن ہے مگر سیاست میں وہ ایک سیٹ بھی نہ جیت سکا اسی طرح یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ ملالہ کو نوبل انعام ملا ہے تو وہ سیاست میں بھی آکر چھا جائے گی بالکل بھی نہیں شاید سیاست میں آکر وہ یہ مقام بھی کھودے جو آج لوگوں کے دلوں میں ہے اور جہاں تک اسلام مخالفت کی بات ہے تو اسے بھی اچھی طرح سمجھا جائے دیکھا جائے اگر مثال کے طور پر کل یہی ملالہ مولانا طارق جمیل سے ملاقات کرلے مولانا فضل الرحمان سے تبادلہ خیال کرے سراج الحق سے ملاقات کرے طاہر القادری سے جاملے اور جتنے بھی بڑے بڑے نام ہیں تو کیا آپ کی یہی رائے ہوگی کہ وہ اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے یا پھر آپ اپنی ان مذہبی شخصیات سے بھی نالاں ہوکر برات کا اعلان کریں گے چونکہ ان شخصیات سی ایسی لڑکی سے ملاقات کی ہے جو مذہب مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے

خدارا کچھ سوچیں نہ ملالہ کی وجہ سے ملک کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے اور نہ اسلام کو کوئی خطرہ ہے ملک کو نقصان کرپشن اور دہشتگردی سے تو پہنچ سکتا ہے ملالہ کی سوچ سے نہیں۔ تمہارے انہی رویوں کی وجہ سے لوگ اسلام پر انگلیاں تو اٹھا سکتے ہیں۔ ملالہ کی وجہ سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).