ڈسٹ بِن سے موت جھانکتی ہے!
تمہارے لیے میں خوشی بھی تلاشوں گا
ڈھونڈوں گا غم کو
انہی ٹین ڈبوں میں، کچرے کے ڈھیروں میں
ٹوٹی ہوئی بوتلوں، شاپروں میں
کئی میلے کچلے زمانوں کے آدرش ہوں گے
یہیں پر کہیں زندگی کی دھنک رنگ ساعت بھی ہو گی
یہیں پر کہیں ہم کو گڑیا کی آنکھیں مِلیں گی
پھٹے سرخ ملبوس، سلمہ ستارے مِلیں گے
تمہارے زمیں بوس ماتھوں پہ بچو!
یقیناْ کسی دن کبودی فلک کے کنارے ملیں گے
یہیں شاعری کی پرانی کتابوں کے اوراق ہوں گے
محبت کے جذبات، نفرت کے چقماق ہوں گے
گلے پھل، سڑی باسی روٹی کے ٹکڑے
سبھی کچھ ملے گا
اسی ڈسٹ بِن میں
کئی کائناتوں کے پھینکے ہوئے خشک و نم دار فضلے
یہیں پر اداسی کا ملبہ پڑا ہے
یہیں چھوٹی موٹی سی بےکار چیزوں کے نیچے چھپی دیکھتی ہے
الم ناک راتوں کی تنہائی ہم کو
یہیں پر دنوں کا اجالا بھی ہو گا
یہیں خواہشوں کے غبارے اڑائیں گے
کاریں، ٹرینیں بھگائیں گے
سورج کو فٹ بال، تاروں کو گیندیں بنائیں گے
کھیلیں گے مل کر ۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر تم نہ چھیڑو، خدا کے لیے مت اٹھاؤ!
غلاظت کے انبار میں گپت ہوتے کھلونا نما ایک خودکار بم کو!!
نصیر احمد ناصر کی صورت میں اردو ادب کی روایت کو مجید امجد کے بعد ایک شفیق بوڑھا میسر آیا ہے جو بے پایاں محبت کی آنکھ سے اپنے ملک کے بچوں کو دیکھتا ہے، اپنے گہرے تجربے کی مدد سے زمانوں کے امکانات کو نظر میں لاتا ہے، غبارے اور کتاب سے محبت اور تخلیق تک کی وسعتوں کو سوچ کر مسکراتا ہے مگر اچانک کسی اندیشے کی چبھن سے لرز اٹھتا ہے اور نظم لکھتا ہے اور بچوں کو ان خطروں سے خبردار کرتا ہے جو ہم نے اس زمیں میں بوئے ہیں۔ نصیر احمد ناصر ہمارے حمق، خوف اور زیاں کو دستاویز کرتا ہے۔
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).