ملامتی صوفی اور لاہور کا میلہ چراغاں


دونوں کا مدفن اک بنا تو پھر یک نامی کے تذذب کی زیادہ گنجائش نہ تھی۔ یوں معشوق کا نام پہلے اور عاشق کا بعد میں آیا اور وہ مادھو لال حسین بن کر زبان خلق پہ عام ہوئے۔

پچیس مارچ اس کے عرس کی تاریخ تھی۔ لاہور کے میلہ چراغاں کی۔ سرکار مادھو لال حسین کے میلہ چراغاں کے آغاز کی تاریخ مارچ کے آخر ہفتے سے شروع ہوتی۔  مگر اس کے مرقد سے باہر آنگن میں وہ آتشی الاؤ کیونکر ہر وقت جلتا رہتا ہے۔ جہاں آنے والے عقیدتمند اگربتیوں اور موم بتیوں کےپورے پورے ڈبے اس آتش کدے میں ڈالتے ہیں آگ کا الاؤ تیز ہوتا، اس الاو کی کوئی تاریخی نسبت شاید ان حاجت مندوں کو بھی نہیں معلوم جو اپنے اپنے دئیے لے آتے ہیں اور جلاتے ہیں

جلتا دیا صوفیوں کی مزار کی خاص نشانی مگر مادھو لال شاہ حسین کے مزار پہ تو اتنے دئیے جلتے ہیں کہ  وہ لاہور کا میلہ چراغاں کہلاتا.

قادریہ سلسلے کا صوفی شاہ حسین تصوف ہند کے چشتیہ سلسلے اور بھگتی تحریک کا رنگ لئیے ہوئے تھا۔ پر اس کا ملامتی صوفی کے منصب پہ پہنچنے والا رستہ رومی کی راہ سے میل کھاتا۔۔۔

دادا کی طرف سے آبائی پیشے میں کبیر کی طرح جولاہا۔۔ کپڑا بننے والا۔۔ شاید منصور بن حلاج کا دادا بھی جولاہا تھا۔ ریشم کاتنے والا۔۔۔

یہ عجب رنگ کا صوفی رومی کے منصب جیسا تو ممکن ہے نہ ہو، پر عرفان کی پرواز سے پہلے تعلیم و پرہیزگاری میں رومی کی طرح ایک خاص مرتبہ ضرور رکھتا تھا ۔۔

رومی کو شمس کے لمس نے بلندی بخشی تھی تو وہ عالم اور علمیت کے جہاں کو کہیں پیچھے چھوڑ کر آسمانوں کی بلندی تک جا پہنچا تھا۔۔  پر لاہور کے اس درویش کو علمیت سے ہی عرفان نصیب ہوا۔

“یہ دنیا کھیل کود اور تماشا ہے” اک دفعہ درس دیتی اس تفسیر تک پہنچا کہ وما الحیوۃ الدنیا الا لہو لعب۔ دنیا کھیل تماشا تھی تو پھر تفسیر کی ساری کتابیں ایک طرف رکھ کر ننگے پاؤں سے راستوں کی دھول اڑاتے عرفانی سفر سے رقصاں ستارہ بنے۔ اور ساری تعلیم بے کار ہوئی اسکی علمیت دھرے کی دھری رہ گئی۔ اس کے ماتھے میں دنیا کی بے ثباتی کچھہ یوں سمائی کہ دستار کو مٹی میں پھینک کر ملامتی جامہ پہن لیا۔ اس بگاڑ میں اس ملامتی درویش شیخ عبداللہ نے روایت سے بغاوت خود سری اور بے نیازی سے متاثر کر کے اپنا حصہ بھی ضرور ڈالا تھا۔ مگر اب دستار خاک ہو چکی تھی اور وہ خاک تن ہو کر کائنات کی ازلی گردش سے رشتہ جوڑ کر مکمل ملامتی رقصاں درویش بن چکے تھے۔

دنیا کی بے ثباتی پہ ناچتے پھرتے یہاں تک کہ اک برہمن زادے نے سارے غرور کی دھول اڑا کر اس کی تمام خود سری کو خاکساری میں تبدیل کردیا اور پھر وقت نے اسے مادھو لال سے یک جان کر دیا۔

اس راہ میں دنیا میں وہی رسوائی و ذلت جس نے مے خواری اور رقص بے خودی سے رومی کی راہ سنواری تھی وہ شاہ حسین کے حصے میں بھی آئی۔

عجب اتراتے بندے شاہ حسین بھی دین دنیا ، رقص و مئے  اور ساز و سرود کی محفلوں میں صحبت یاراں کرتے اور یوں مولویوں اورعالموں کی تضحیک کا خوب نشانہ بنتے۔ معاشرے میں لعن و ملامت خوب ہوئی۔

ملامتی درویش کے پاس ظاہر و باطن کے جامے کچھہ اور ہی تھے۔ اک جولاہا اور ایک برہمن زادہ یوں ایک مقام پہ آئے کہ دونوں کا مدفن ایک ہوا۔

اب مادھو لال سرکار مزار پہ جلتی چراغ اور سدا دھکتی آگ کا استعارا اور سیاہ رنگ می ملبوس ننگ دھڑنگ فقیر اور کچھہ مخصوص چہرےکے میک اپ کے ساتھہ جوڑے کی شکل میں رقص کرتےاور کچھہ چپ کا روزہ رکھے اپنے ملامتی مرشد مادھو لال حسین کے اک ہی مقبرے پہ ماتھا ٹیکتے نظر آتے ہیں

دو روز قبل اس کے عرس کا آخری دن تھا۔ مگر ان چراغوں کی تعداد بھی اب کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ رقص زمانے کی لپیٹ میں ہے اور میلہ چراغاں کو بھی خلق عام تقریباً بھولتی جا رہی ہے پر اب بھی اس ملامتی مرشد پہ ازلی آتش اور مراد کا دیا جلتا رہتا ہے اور میلے کے دن آتے ہیں تو ملامتی صوفیوں کا یہ مسکن دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).