زندگی کے ہزار رنگ


تو بات بس اتنی سی تھی کہ دنیا کے نقشے پر کسی نازنین کے رُخسار پر گرے خوبصورت آنسو کی صورت دکھائی دینے والے ملک سری لنکا کے مرکزی شہر کولمبو کی بجائے ہم نگمبو کی طرف آخر کیوں چل پڑے تھے۔ دراصل ساری کارستانی اُس لڑکے کی تھی جو ہماری بکنگ کے معاملات دیکھتا تھا۔ اس نے سری لنکا کے مغربی ساحل کے ایک حددرجہ خوبصورت شہر نگمبو ٹاؤن بارے وہ گڈے باندھے تھے کہ ہماری پٹڑی کا کانٹا ہی بدل گیا تھا۔

نگمبو کا سی سٹریٹ کا علاقہ Lewis palace کہلاتا ہے۔ اس کیتنگ سی سڑک پر تین میل تک چلتے رہے۔ عالیشان ہوٹل، کیتھولک چرچ، ریسٹورنٹ، گھریلو دستکاریوں کی دُکانیں سرخ ڈھلوانی چھتوں والے پینٹ ہوئے گھر وں کے مناظر نظروں میں یوں نمایاں ہوئے تھے جیسے املتاس کے پھولوں کا رنگ ایکدم آنکھوں میں کھُب ساجاتا ہے۔ کہیں کسی کسی دوکان پر ہم نے تانکا جھانکی بھی کی۔
” فشنگ ولیج چلا جائے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

اب بس میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ بس کیا تھی جیسے کینکا رڈ طیارہ ہو۔ تنگ سی سڑک پر گولی کی طرح بھاگی جاتی تھی۔ سٹیرنگ تو ظالم کے ہاتھوں میں جیسے کھلونا سا بنا ہوا تھا۔

پہلے میں نے سوچا کہ ایسے سر پھرے اور من چلے تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔ یہ سانولا سلونا سا تحفہ بھی انہی میں سے ایک ہوگا۔ پر نہیں جی بعد میں جب سری لنکا کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر بس پیمائی کی تو عقدہ کھلا کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ کوئی آدھ انچ بھی دوسرے سے کم نہیں ہاں زیادہ ہی ہوگا۔ ایسے ویسے من موجی اور آپ پُھدرے سے پاکستانیوں کو بھی پیچھے چھوڑ بیٹھے تھے۔ کمبختوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ بسوں کو بگٹٹ بھگاتے بھگاتے سمندر میں ہی جا کر دم لیں۔

جہاں اُترے۔ وہیں سے کئی راستے مچھیروں کی بستیوں کیطرف نکلتے تھے۔ سرکیوں اور پلاسٹک کی چادروں سے بنے شیڈوں کے نیچے آبنوسی رنگتو ں والے مرد اور عورتوں کا ایک ٹولہ بات بات پر ٹھٹھے لگاتالمبے چوڑے جال کی ڈوریوں کو گانٹھنے میں لگا ہوا تھا۔ موٹی موٹی عورتوں کے گالوں کی اُبھری ہڈیوں پر اندرونی صحت مندی کی چمک کا ایک لشکارہ سا تھاجو فی الفور آنکھوں پر گرتا تھا۔ گداز ننگی پنڈلیاں اور سڈول ننگے بازو سامانِ وحشت نظر تھے۔

جب پاس بیٹھے تو پتہ چلا کہ مرد کیا یہ بظاہربھدّی بھدّی سی ناک والی عورتیں بھی ٹوٹوں میں انگریزی بول کر اپنا آپ ظاہر کر سکتی ہیں۔ بڑا کھلا ڈلا ماحول تھا۔ قہقہے اور چہلیں تھیں۔ قریب رکھا ٹرانسنٹر زور شورسے بج رہا تھا۔

شاید کوئی نیا گانا شروع ہوا تھا۔ جیسے وہاں طوفان سا آگیا۔ عورتیں چٹکیاں بجاتے ہوئے بولوں کو دہرانے لگیں۔ بڑے مزے کا منظر تھا۔ کچھ دیر بعد جب میں نے گیت کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ محبت کرنے والا اپنی محبوبہ سے معافی مانگ رہا ہے۔ اُسے آنسو پونچھنے کے لئے کہہ رہا ہے۔ اُسے ترغیب دے رہا ہے کہ وہ اُسے اپنے ساتھ کہیں لے جائے۔ میں ہنس پڑی۔
”یہ تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ تمہارے ہاں کیا ایسا ہوتا ہے؟ ‘‘

عورتیں کھلکھلا کر ہنسیں۔ بڑے ٹھسّے سے گالی نکالی اور مردوں کی ماں بہن ایک کردی کہ یہ ہوتے ہی کمینے ہیں۔ یہ سب گانوں میں ہے۔ عملی زندگی میں ایسا کہاں؟ کیسی دھڑلے والی عورتیں تھیں۔
” کتنا کما لیتے ہیں روزانہ؟ ‘‘

سوال پر ایک بڑا قہقہہ اور ہاتھ کا بڑا سا پھیلاؤ اُن جھونپڑیوں کی طرف ہوا جو ساحل کے ساتھ ساتھ تاحد نظر تک پھیلی تھیں۔ موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں پر ہنسی کے ساتھ ساتھ آنکھوں نے کہا۔ ”دیکھ لیجیے کتنی کمائی ہے۔ ‘‘

ذرا فاصلے پر مچھلی بیچتی اور عورتیں بھی دوکانداری چھوڑ کر شیڈ تلے آ گئیں۔ تھوڑی سی گپ شپ اُنکے ساتھ رہی۔ رنڈی رونے تو ایک جیسے ہی تھے مہنگائی کے، عورتوں کا وہی پرانا پسندیدہ گلہ شکوہ۔

بچوں کی تعداد پوچھنے پر پتہ چلا کہ حکومت کی خاصی سختی کے باوجود بھی نمبر اکثر بڑھ ہی جاتا ہے۔ بڑی کمبختیں تھیں۔ سیاہ مسوڑوں سے جھانکتے موتی جیسے دانتوں اور چمکدار آنکھوں سے چھلکتی معنی خیز مسکراہٹیں بہت سے ا فسانے سُناتی تھیں۔

تعلیم، یونیفارم اور کتابوں کی فراہمی سب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو ہر صورت سکول جانا ہے۔ حکومت کا حکم ہے۔

اس حکم کی پاسداری کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے؟ جاننا چاہا اور جواب تھا۔ فائدے اور بھلے کی بات کیوں نہ مانیں۔ ملک سو فیصد لٹریسی سطح کو ایسے ہی تو نہیں چھورہا ہے۔

کہیں سینے میں ”کاش“ کی ہوک اُٹھی تھی۔ ہمارے ہاں تو تعلیم کہیں کسی ترجیحی کھاتے میں ہی نہیں۔ اگر کہیں حکومت یہ نیک کام کرنے پر تُل جائے تو مقامی آبادیاں مزاحمت کھڑی کردیتی ہیں۔ مجھے یاد آیا تھا ضلعی حکومت نے ضلع چلاس اور اس کی تحصیلوں میں بچوں کے لیے ضروری سکول جانے اور وظائف کے اجرا ء کا اعلان کیا اور اس کی تکمیل کے لیے زور زبردستی بھی ہونے لگی۔ ایک دن ایک مقامی نوجوان لڑکا ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔

” تم کو سکول لگانا ہے تو لگاؤ۔ پر شام کو لگاؤ نا بابا۔ یہ سویرے سویرے کا سلسلہ تو ہم کو مافق نہیں۔ ‘‘
ہیڈ ماسٹر نے رسان سے کہا۔ ” سکول تو صبح ہی ہوتا ہے نا بیٹے۔ ‘‘
بیٹے کا بچہ لڑکا تلملا کر بولا۔
”ہم سویرے کو ادھر سکول آئے گا تو اُدھر بکریاں تمہارا باپ چرائے گا۔ ‘‘

دیسی پیاز کی بیرونی پرت جیسے رنگ والی ریت پر کھڑی یہ بستی خوشحالی اور غریبی دونوں طبقوں کی عکاس تھی۔ غریب جھونپڑیوں میں کیا کھانے پکانے کی جگہ اور کیا سونے کی یہ دیڑ دیڑ ریت ہی ہر جا پردان تھی۔ ہاں البتہ پھولوں سے سجے آنگن اور پلاسٹک کی شیٹوں سے ڈھنپے فرش اور کمروں میں میز کرسیوں اور کھانے پینے کے برتن بھانڈوں اور جام چٹنیوں کے جار بتاتے تھے کہ یہاں مکین کھاتے پیتے بھی ہیں۔

پر یہ کیسے لوگ تھے۔ پھولوں، پودوں سے محبت کرنے والے موسیقی سے پیار کرنے والے کہ ہر جھونپڑی اور ہر گھر میں ٹرانسنٹر بجتا تھا اور گیت فضاؤں میں بکھرتے تھے۔ پوری بستی میں ایک بھی جھونپڑی ایسی نہ تھی جہاں بوگن ویلیا کی بیلیں نہ ہوں۔ شیشوں کی بوتلوں اور جاروں میں منی پلانٹ کی بیلیں نہ سجی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).