18ویں آئینی ترمیم: مسئلہ کیا ہے؟


18ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بہت بڑی بحث شروع ہو چکی ہے اور عوام کو اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کیلئے بہت کم کوشش کی جا رہی ہے۔ جواب ڈھونڈنے کی بجائے سوالات پہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ترمیم تو مجموعی طور پر اچھی ہے لیکن مسئلہ اس دلیل میں ہے جو تشکیل دی جا رہی ہے۔ مسائل کیا ہیں یہ نہیں بتایا جا رہا اور اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں کہ یہ مسائل کیوں حل نہیں ہو سکتے۔ اس بات پر بحث سے پہلے کہ اس ترمیم سے جڑی کن باتوں کو ’’مسائل‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، اس میں موجود حل کی نشاندہی کرنا میرٹ کی بات ہے کیونکہ اس ترمیم کی وجہ سے ہمارے نظام کی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ اپریل 2010ء میں منظور کی جانے والی 18ویں ترمیم ایک ایسا قانون ہے جو اتفاق رائے سے منظور ہوا، کسی ایک رکن اسمبلی نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ وجہ صاف تھی: تمام پارلیمانی جماعتوں ( جن کی تعداد 17؍ ہے) کو سینیٹر رضا ربانی کی زیر قیادت قائم کی جانے والی آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں نمائندگی حاصل تھی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا پارلیمنٹ میں ایک رکن ہونے کے باوجود کمیٹی میں اس کا رکن موجود تھا۔

پارلیمنٹ سے آنے والا رد عمل (فیڈ بیک) وسیع عوامی رائے حاصل کرنے کے علاوہ تھا، سول سوسائٹی سے 986؍ تجاویز ملیں جن کا جائزہ لینے مین 9؍ ماہ لگ گئے۔ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے مکمل کی جانے والی ہر ترمیم کی منظوری کمیٹی مین موجود ہر پارٹی کے نمائندے سے حاصل کی گئی۔ اس طرح آئین میں 104؍ تبدیلیوں کیلئے اتفاق رائے حاصل کیا گیا اور یہ تبدیلیاں 18ویں ترمیم کی صورت میں سامنے آئیں۔ ان سب باتوں میں غور طلب بات کیا ہے؟ کئی کام ایسے تھے جو پہلی مرتبہ کیے گئے، بلکہ نہیں، تاریخ رقم کی گئی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پارلیمنٹ نے مارشل لاء کو قبولیت دینے سے انکار کر دیا۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں کی جانے والی تبدیلیوں کو منظور کیا اور 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آئین میں کی گئی چھیڑ چھاڑ کی منظوری دی۔ تاہم، پیپلز پارٹی کی زیر قیادت پارلیمنٹ نے اس کے بالکل الٹ کام کیا۔ مشرف کا عبوری آئینی حکم نامہ (لیگل فریم ورک آرڈر) 2002ء، اس کے ترمیمی ورژن اور آئین میں کی گئی 17ویں ترمیم کو 18ویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا۔ آرٹیکل 270-A کا کچھ حصہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں آئین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی آمر کا نام شامل کیا گیا تھا: ’’۔۔۔ جس کے تحت، 19؍ دسمبر 1984ء کو کرائے جانے والے ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں جنرل محمد ضیا الحق پاکستان کے صدر بن گئے ۔۔۔۔‘‘ آئین سے یہ حصہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

ایک اور کام جو پہلی مرتبہ ہوا وہ یہ تھا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے مستقبل میں کسی بھی مارشل لاء کے امکانات کو ختم کر دیا گیا۔ اگرچہ جنرل ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن 1973ء کے آئین کے ساتھ ایسا کسی فوجی آمر نے نہیں کیا۔ اس کی بجائے، اسے معطل کیا گیا یا اس پر عمل روک دیا گیا تاکہ اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے، جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان مہم جوئیوں کی منظوری دی۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 6؍ میں ترمیم کرکے غداری کی تشریح کو وسیع کیا اور جرنیلوں کے ساتھ ایسے ججوں کو بھی دائرے میں شامل کیا جو اس کی منظوری دیتے ہیں، لہٰذا نظریۂ ضرورت کا دور ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔ آرٹیکل 6(2A) میں لکھا ہے کہ ’ذیلی شق نمبر ایک یا شق نمبر دو میں وضع کردہ سنگین غداری کا اقدام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کوئی عدالت منظور نہیں کرے گی۔‘‘ اس ترمیم کے ذریعے صدر پاکستان کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور گورنر صاحبان کا تقرر کرنے کے اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، یہ اقدام ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کیلئے کیا گیا ہے جو مارشل لا کا سوچتے ہیں کیونکہ ماضی میں ایسا بہت آسان تھا کیونکہ اس کیلئے مرکز میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب 18ویں ترمیم کے بعد، صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر پارلیمنٹ تحلیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی گورنر صاحبان متعلقہ وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کے بغیر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کی وجہ سے دھونس دھمکی کی بجائے اتفاق رائے کے ذریعے طرز حکمرانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اب نہ صرف مارشل لاء آنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ وفاقی حکومت کسی صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار بھی کھو چکی ہے جیسا کہ پہلے خیبر پختونخوا میں نیپ اور بلوچستان کی حکومتوں کی خلاف پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں، سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی دوسری حکومت میں اور وفاقی سطح پر پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے کیا گیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 173ء میں ترمیم کی گئی ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام کیلئے 60؍ روز کے اندر متعلقہ صوبائی اسمبلی کی توثیق کی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ ایسی کئی قابل غور ترامیم ہیں جن میں صدارتی اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کو با اختیار بنایا گیا ہے، صوبائی خود مختاری کا معاملہ نہ صرف توجہ کا باعث بنا ہے بلکہ ایک تنازع بھی پیدا ہوا ہے۔ قانوناً، یہ خودمختاری آگے بڑھنے کیلئے ایک بہت بڑا قدم ہے کیونکہ وسائل کا اختیار انہیں دیا گیا ہے جو ان کے مالک ہیں، تاہم تیل اور گیس کے وسائل پر وفاقی حکومت کا دعویٰ 50؍ فیصد تک ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی وجہ سے قوم پرست قوتیں بھی خاموش ہوگئی ہیں جو پہلے اسلام آباد کو قصور وار قرار دیتی تھیں اور اسے ’’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے وسائل پر قابض قرار دیتی تھیں۔ قوم پرست جماعت اے این پی کے ایک سابق سینیٹر افراسیا ب خٹک مذکورہ آئینی کمیٹی کے رکن تھے اور ان کے مطابق، اب کسی بھی شکایت کی صورت میں قوم پرست اپنی صوبائی حکومتوں کے سوا کسی اور کو قصور وار قرار نہیں دے سکتے۔

تاہم، اس عطائے اختیارات کو سنبھالنے کے معاملے میں صوبوں کی عدم صلاحیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کسی کو نصاب پر اعتراضات ہیں کیونکہ صحت کی طرح تعلیم بھی صوبائی معاملہ ہے۔ بین الاقوامی امدادی اداروں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے؛ ان میں سے زیادہ تر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے معاملات طے کرنے کے متعلق ہیں۔ حد یہ ہے کہ یہ معاملہ ایجنڈا میں اس وقت سرفہرست تھا جب 2011ء میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون دورۂ پاکستان پر آئے تھے۔ برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈی ایف آئی ڈی) سرکردہ بین الاقوامی ایجنسی ہے جو پاکستان میں تعلیم پر سرمایہ لگا ر ہی ہے۔ اس کے بعد 18ویں ترمیم بنانے والوں نے تحفظات کو زیر بحث لانے کیلئے وفاقی سطح پر لائژن آفس (معلوماتی دفتر) قائم کرنے کی پیشکش کی، یہ ایک ایسی کوشش تھی جس کیخلاف بیوروکریسی نے مزاحمت کی کیونکہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی وجہ سے بیوروکریسی کے اختیارات اور مراعات بھی کم ہوئیں۔ ساتھ ہی، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈی ایف آئی ڈی پہہلے ہی سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ساتھ براہِ راست روابط میں تھا۔ دوسروں سے بات چیت بھی ممکن ہے۔ اتفاقاً، یہ برطانوی پارلیمنٹ تھی جس نے آئینی کمیٹی کو لندن دورے کی دعوت دی اور 18ویں ترمیم کی منظوری کیلئے اہم نکات کے تبادلے کی درخواست کی تاکہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم پر اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے قوم پرستوں کی جانب سے علیحدگی کے مطالبات کے بعد صوبائی خودمختاری کا منقولہ ماڈل تشکیل دیا جا سکے۔ کمیٹی ارکان کو صوبائی دارالحکومتوں، بلفاسٹ، ایڈن برگ اور کارڈِف، کا دورہ کرایا گیا تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حوالے سے قوم پرستوں سے مذاکرات کیے جا سکیں۔

جہاں تک نصاب کا تعلق ہے، 18ویں ترمیم میں جھگڑے یا باعث بننے والے معاملات پر بحث و مباحثے کیلئے فورم کی تشکیل کا وعدہ کیا گیا ہے جسے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ذیلی کمیٹی ہے جس میں تمام صوبوں کے وزیر تعلیم اور ان کے وفاقی ہم منصب شامل ہیں، ماضی میں بھی ایسے معاملات کیلئے یہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ایسے مسائل حل کرنا ایسی بات نہیں کہ جس کا حل ناممکن ہو شرط یہ ہے کہ ’’قائل کرنے یا قائل ہونے‘‘ کا جذبہ موجود ہو۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صوبوں نے 18ویں ترمیم کے بعد رضاکارانہ طورپر اختیارات سے دستبردار ہو کر یہ وفاقی حکومت کے سپرد کیے۔ افراسیاب خٹک نے نشاندہی کی کہ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے معاملے پر اتفاق رائے حاصل کیا گیا تاکہ ایسی متفقہ اور یکساں پالیسی تشکیل دی جا سکے جو دوائوں کی درآمد اور معیار کی جانچ کے کام کیلئے ہو۔ اسی طرح، نصاب، ثقافتی پالیسیوں اور فوجداری قوانین کے معاملے پر بھی اتفاق رائے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، مشترکہ مفادات کونسل (کونسل آف کامن انٹریسٹس) کے نام سے بھی ایک فورم ہے جہاں وفاقی لیجسلیٹو لسٹ حصہ دوم سے جڑے تقسیم کے معاملات پر بات کی جاتی ہے اور یہ ایسے موضوعات پر مباحثے کا فورم ہے جو وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ ملکیت سمجھتے جاتے ہیں۔ 1973ء سے 2010ء تک صرف 11؍ اجلاس ہوئے تھے جس سے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی بری عکاسی ہوتی ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد، آئینی طور پر یہ مشترکہ مفادات کونسل کا ہر 90؍ دن بعد اجلاس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے جس کی صدارتی وزیراعظم کریں گے اور اس اجلاس میں تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور دیگر ارکان شرکت کریں گے۔ یہ لازمی قرار دیے گئے امر کی خلاف ورزی جاری ہے۔

ایک اور سوال صوبوں کی جانب سے اختیارات اور وسائل کے استعمال کے حوالے سے عدم صلاحیت پر اٹھایا جا رہا ہے، صلاحیت کا معاملہ صرف صوبائی سطح پر نہیں ہے۔ وفاقی سطح پر بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے کا دورہ کرکے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس کس قسم کی بیوروکریسی پائی جاتی ہے۔ کسی بھی طرح کے استثنیٰ کے بغیر، ہر جگہ انحطاط جاری ہے۔ صرف صوبائی حکومتوں کو قصور وار قرار دینا سوال کا جواب نہیں، آگے بڑھنے کیلئے ان کی تربیت اور ایسا نظام (میریٹو کریسی) لانے کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کو ان کی اہلیت کے مطابق اختیارات اور مقام دیا جائے۔ سینیٹر رضا ربانی نے اس سوال کا جواب 18ویں ترمیم اور آئین پسندی کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’بایوگرافی آف پاکستانی فیڈرل ازم‘‘ کے آخری صفحے پر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فرض کریں کہ میں تکرار کے ساتھ اس پر بات پر اتفاق کرتا ہوں کہ صوبوں میں صلاحیت نہیں ہے لیکن صحت اور تعلیم کا شعبہ 1947ء سے 2010ء تک وفاقی حکومت کے پاس رہا ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ نے اس میں کیاحصہ ادا کیا ہے؟ کیا شرحِ خواندگی 100؍ فیصد ہو چکی ہے؟ کیا سب کو صحت کی سہولتیں 100؍ فیصد مل رہی ہیں؟‘‘ ان کا کہنا ہےکہ دونوں جانب صلاحیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اگر سوال صرف صلاحیت کا ہے تو صوبوں کیلئے تربیتی سیشنز کا انعقاد کرایا جا سکتا ہے۔ کئی شعبے صوبوں کو منتقل کیے جا چکے ہیں، ان معاملات کی وزارتیں پہلے ہی صوبائی سطح پر موجود تھیں۔ مالی وسائل کی تقسیم بھی اہم معاملہ ہے کیونکہ 7واں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ 2009ء میں جاری کیا گیا تھا جس میں طے شدہ فارمولے کے تحت 57؍ فیصد وسائل صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات کی گئی تھی جبکہ باقی 43؍ فیصد وسائل وفاق کیلئے مختص کیے گئے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو 2006ء میں چھٹے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کرتے وقت جو کچھ جنرل مشرف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا، ساتویں ایوارڈ کے وقت اس کے بالکل برعکس اقدام کیا گیا۔ جنرل مشرف نے 57؍ فیصد وفاق کیلئے اور باقی 43؍ فیصد صوبوں میں تقسیم کیا تھا۔

ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا جس میں کم از کم حد میں 57-43 کا فارمولا طے کیا گیا کیونکہ آئندہ ایوارڈ میں اس تناسب میں اضافہ تو ہو سکتا تھا لیکن کمی نہیں۔ نیا ایوارڈ اس ڈر کی وجہ سے جاری نہیں کیا جا رہا کہ 18ویں ترمیم کی وجہ سے جو قدرتی وسائل صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں ان میں سے صوبے کہیں زیادہ حصہ نہ مانگ لیں، کیونکہ 18ویں ترمیم میں طے شدہ فارمولے کے تحت حصہ ادا نہیں کیا جا رہا۔ اس کی بجائے، وفاقی حکومت مطالبہ کر رہی ہے کہ اس کے حصے میں تین فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ دفاعی اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ اگرچہ پنجاب ایسا صوبہ ہے جو اپنے طے شدہ حصے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں لیکن اس نے علیحدہ سے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کیلئے رقم ادا کی ہے اور اس کی تصدیق ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی بدھ کی پریس کانفرنس کے دوران کی۔ اسی دوران، بلوچستان اور سندھ نے اب تک قدرتی وسائل کی رائلٹی پر اصرار نہیں کیا جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد سے انہیں واجب الادا تھی۔ یہ تمام چیلنجز، جنہیں حل کرنا ناممکن قرار دیا جا رہا ہے، سے نمٹا جا سکتا ہے۔ 18ویں ترمیم کے مطابق اپنی سوچ میں تبدیلی لانے اور صوبوں کا موقف سننے کیلئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جو بھی اتفاق رائے ہوگا وہ مذاکرات سے ہوگا۔ وہ دن گئے جب اتفاق رائے دھونس دھمکی سے حاصل کیا جاتا تھا۔

بشکریہ: جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).