نقیب اللہ محسود کا اہل ِ وطن کے نام دوسرا خط


السلام علیکم و حمۃ اللہ و برکاتہ،
امید ہے آپ سب کا مزاج بخیر ہوگا۔ میں نے فردوسِ بریں سے اپنا پہلا والا نامہ دوماہ قبل بھیجا تھاجو مطلق سماجی میڈیا والوں کے نام تھا۔ اب کی بار یہ نیا والا نامہ ہر اُس پاکستانی کے نام ارسال کیاجارہاہے جو حساس دل کا مالک ہو۔ ارض ِوطن سے یہاں آئے ستر دن سے زائد کا عرصہ بیت گیاہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہاں مجھے وہ سب کچھ فراہم کیاگیاہے جس کا وعدہ اس غنی ذات نے ایک شہید کے ساتھ اپنی کتاب میں کررکھاہے۔

عزیزانِ مَن! ستائیس ویں پارے میں سورۃ رحمن آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا ورنہ کسی قاری صاحب کی زبانی سنا توضرور ہوگا۔ جس طرح اس رحمانی سورۃ میں ایک لائق مسلمان بندے کیساتھ حُورعین، نخل ورُمان اور بے شماردیگر لذائد سے نوازنے کاوعدہ کیاگیاہے، یقین کرلیجیے مجھے بھی یہی سب انعامات سے نوازاگیاہے۔ میری روح کو جو سکون اور راحت شہادت کی موت کے اُس پار ملی ہے، میرا نہیں خیال کہ زندگی کے مہ وسال میں کسی کونصیب ہو ئی ہو۔ البتہ ان سب کچھ کے باوجود جو بات مجھے وقتاً فوقتاً مضطرب کیے رکھتا ہے وہ میرے اور سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل راوانوارکے بارے میں یہاں پہنچی ہوئی ایک افسوس ناک خبر ہے۔ پہلے تو مجھے کچھ نہ کچھ یقین تھا کہ زرداری صاحب کے اس لاڈلے اور بہادر بچے کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن اب اس تازہ خبر نے میرے اس رتی بھریقین کی بھی خوب دھجیاں اڑادی ہے۔

خبریہ ہے کہ میرے اورسینکڑوں دوسرے شہداء کے سفاک قاتل راؤ انوار کو پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ میں بہت شاہانہ اور قابل رشک انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھیں اور نہ ہی پاوں میں بیڑیاں بلکہ حددرجے کی وی آئی پی سٹیٹس اس خوش نصیب درندے کودے دی گئی۔ ایک سینیئر صحافی کے اس بیان نے تہم شہداء کی روحوں پر مزید بجلیاں گرادیں جب انہوں نے آنکھوں دیکھا حال کچھ ان الفاظ ذرائع ابلاغ کو جاری کیاکہ ”راؤ انوار کو پارکنگ کے پیچھے والے دروازے سے لایا گیا جوکہ میں نے گزشتہ 9سالوں میں صرف سابق چیف جسٹس ناصرالملک کے لئے کھلتاہوا دیکھا ہے۔ اس صحافی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہم معمول کی طرح سپریم کورٹ میں موجود تھے کہ اچانک ہمارے ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی سیکورٹی کسی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے سخت کردی گئی ہے جس کے بعدہم باہر آئے اور محسوس ہوا کہ کوئی بڑی شخصیت آنے والی ہے۔ پھر ان کی گاڑی سپریم کورٹ کے اندر آئی اور حال یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے صرف تین گاڑیاں ہی آج تک سپریم کورٹ کے احاطے کے اندرآتی ہوئی دیکھی ہیں ‘‘۔

بے شک بعض اوقات خبر جھوٹی بھی ہوتی ہے یا تواتر کی بجائے خبر واحدکے درجے میں ہوتاہے لیکن مذکورہ خبر ایک حساب سے خبر متواتر سے بھی قوی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس سفاک قاتل کا حاضری کے بعد ویڈیو ٹیپ بھی سامنے آئی ہے جو سماجی میڈیا پر زیرگردش ہے۔ اس ویڈیو میں جس کروفر اور کبریانہ انداز میں ہم لوگوں کا یہ قاتل دکھایا گیا ہے، اس نے ہم شہداء کی روحوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلادیا ہے۔ یہ خبر بھی سننے کو ملی ہے کہ انہوں نے نہایت فخریہ انداز میں قاضی القضاۃکا سامناکیا اور انکوائری کمیٹی میں منہ مانگی مخفی مخلوق کو شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیاتھا۔

خدا نہ کرے کہ اس ملک کی اس اعلیٰ منصف ادارے کے منصفین سے سرزد ہونے والی غلطیاں دوبارہ دہرادیاجائے۔ خدا نہ کرے کہ اس ملک کی عدالتوں پر سے لوگوں کا اعتمادکیوں اٹھ جائے۔ میں اپنے بوڑھے والد صاحب کی ظرف کو بھی سلام پیش کرتاہوں جنہوں نے عدالت کے باہر دل برداشتہ ہونے کی بجائے نہ صرف انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیابلکہ یہ تک کہاکہ ’’ وہ عدالت کا شکریہ اداکرتے ہیں اور اس ادارے پر ان کا بھروسہ ہے کہ ان کو انصاف یہیں سے ملے گا اور ہم پرامن لوگ ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘‘۔

ابھی تو چند دن پہلے ملک کے ایک انگریزی جریدے نے اس سفاک قاتل کے بارے میں یہ انکشاف بھی کیاہے کہ ریاست کا یہ اثاثہ شہر قائد کی لینڈ مافیا کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ لوگوں کی زمینوں کو غصب کرنے والے اس مافیا کو معلوم تھا کہ جب تک ریاست کے اس اثاثے کی حمایت انہیں حاصل ہوگی، تب تک کوئی مائی کا لال بھی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ مجھے اب یہ بات بھی سمجھ آئی ہے کہ راؤ انوار جیسے قاتلوں کو جس طرح جعلی پولیس مقابلوں کے اجازت نامے دیے جاتے ہیں تو انہیں یہ باور بھی کرایا جاتاہے کہ
پہ شا چی نہ شے ہرسہ کوہ
چی موژ ژوندی وو، بریت تاؤ وہ
(مت ڈرنا، جوکچھ کرناہے، کرلیں۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے، تب تک مونچھوں کوخوب تاؤ دیاکرو)۔

فردوس ِ بریں میں کے عیش کدوں میں قیام کے باوجود میری روح کو ایک اور تکلیف یہ ہورہی ہے کہ میرے جانے کے بعد میرے دیگر ساتھی بھی چن چن کر مارے جارہے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ میرے پاک لہو بہانے والوں کو اس دیس میں رہنے کے لئے مزید رہنے کو جگہ نہیں ملے گی لیکن ڈی آئی خان میں میرے قریبی دوست آفتاب محسود کوشہیدکرنے کے بعد چند دن پہلے مانیال محسود کوبھی کراچی میں شہید کردیا گیاہے۔

میری ہجرت کے بعد میرے لہو سے پھوٹنے والی تحریک کے بارے میں بھی مختلف قبیح قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں جس سے بھی میری خوب روح گھائل ہوئی ہے۔ نوجوانوں کی یہ تحریک دراصل اُن سب مظلوموں کی وہ سچی آواز ہے جو ظالموں کے جعلی مقابلوں کے خلاف بلند ہورہی ہیں۔ ان آوازوں کو لسانیت اور علاقیت پر مت قیاس کیجیے کیونکہ یہ پشتونوں کے ساتھ ساتھ اُس ہزارہ برادری کی بھی زبان بن گئی ہے جو ایک ایک خودکش حملے کے دوران بیک وقت سو کے قریب اپنے پیارے کھوچکے ہیں۔

یہ آوازیں ان بلوچوں کی بھی نمائندگی کررہی جن کے جگرگوشے بھی ایسی ہی تاریک راہوں میں چل بسے تھے۔ کراچی کے صدر اور سہراب گوٹھ سے خیبر تک انسانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتاسمندر اُن اردو بولنے والوں کی بھی وکالت کررہی ہے جو دہشت گردی کی آڑ میں چوہدری اسلم اور راؤ انوار کے پولیس مقابلے کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ اے ارباب ِ حل وعقد! خدارا! ان آوازوں کو ہندوستانی ”را ‘‘ اور افغان ” این ڈی ایس‘‘ کی غمازی کرنے والی آوازیں مت تصور کیجیے۔

اے حکمرانو و منصفو! یہ آوازیں چیک چیخ کر پکار رہی ہے کہ انہیں کم ازکم وہ تسلیم شدہ حقوق دے دیں جن کی فراہمی کی سفارش اس ملک کے آئین نے کی ہے۔ یہی چند شکوے آپ لوگوں کا گوش گزارکرانے کے بعد میں آپ سب لوگوں سے اجازت چاہتا ہوں، لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ” جب تک یہ جعلی مقابلے جاری رہیں گے اور راؤ انوار گروپ شاہانہ انداز میں عدالتوں کا بغیر کسی خوف کے سامنا کرتا رہے گا، اس وقت تک ہم شہیداء کی روحوں کو مکمل سکون نہیں ملے سکتی۔ گرحقیقت میں ہمیں سکوں دلانا چاہتے ہو تو ڈٹے رہیے اورظلم کی لڑکڑاتی ہوئی اس بوسیدہ دیوار کوایک دھکا اور دو۔

والسلام،
آپ کا شہید بھائی نقیب اللہ محسود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).