پولیس والے! تیری ایسی کی تیسی!


پی ایس ایل پوری شان و شوکت سے ساتھ اپنے اختتام کو تو پہنچا ہی لیکن جاتے جاتے ملک میں کرکٹ کے لئے نئے دروازے بھی کھول گیا۔ کراچی میں نو برس کے بعد جب کرکٹ لوٹی تو اس کا استقبال کراچی کے شہریوں نے اس طرح کیا جیسے کوئی روٹھا پردیسی دوست سارے گلے شکوے بھلا کر واپس آئے اور کہے کہ چل یار جانے دے اب پرانی باتیں آج سے نیا آغاز کرتے ہیں۔ نیا آغاز یہ ہوا کہ کہ یکم اپریل سے کراچی میں ویسٹ انڈیز چوکوں چھکوں کی گرم موسم میں بھی برسات کرے گا اور ان میچز کو دیکھنے والے شائقین ابھی سے بے چین ہیں، کسی نے کراچی میں چالیس اور اکتالیس سینٹی گریڈ کی پرواہ نہیں کی اور ٹکٹس کے حصو ل کو اپنا مقصد بنالیا وہی پولیس والے جو ابھی پی ایس ایل کی سخت ڈیوٹی نبھا کر کمر سیدھی کر رہے تھے انھیں ویسٹ اینڈیز کے میچز کو کامیاب بنانے کے لئے سیکیورٹی پلان جاری ہوگیا۔

پی ایس ایل فائنل کے روز مجھے میرے جاننے والے کہنے لگے کہ بھئی ا ٓج تو پولیس کی موجیں لگی ہیں۔ ٹھنڈا ٹھار روح افزا کے گلاس تو چکن بریانی کے یہ بھرے بھرے ڈبے نفریوں کو پہنچادیے گئے ہیں آج ان کے کھاپے ہی کھاپے ہیں۔ مجھے ہنسی آگئی کیونکہ جب ائیر کنڈیشنر سولہ یا اٹھارہ پر چل رہا ہو اور باہر چالیس سینٹی گریڈ میں نکلنے کا اتفاق نہ ہو تو دماغی توازن ایسا ہی ہوجاتا ہے۔ ڈیوٹی بھی موج لگتی ہے اور بناءچینی کے گھلا لال شربت اور گھنٹوں پہلے سے بنی ٹھنڈی بریانی شاندار کھاپا لگنے لگتا ہے۔ اتوار کے روز بارہ بجے لائیو کے لئے مجھے پروڈیوسر نے پونے بارہ پر کیمرے کے سامنے کھڑا کر دیا ساتھ میں سیکورٹی کے حوالے سے بات چیت کے لئے میں نے ایک ایس ایچ او کو بات کرنے کی زحمت دیدی۔ جب بارہ بج کر دس منٹ ہوگئے تو میں نے پسینے سے شرابور اور قہر ڈھاتے سورج سے ہار مانتے ہوئے ایس ایچ او کو مودبانہ انداز میں کہا کہ محترم آپ چھاؤں میں جا بیٹھیں جب میری لائیو ہٹ کی باری آئے گی آپ آجائیے گا۔ گرمی بہت ہے اور آپ بہت دیر سے میرے ساتھ کھڑے ہیں۔

ایس ایچ او صاحب مسکرائے اور بولے نہیں بیٹا جب آپ دھوپ میں کھڑی ہیں تو میں کیسے چھاوں میں جا بیٹھوں ویسے بھی ہم پولیس والوں کے لئے کیا دھوپ کیا چھاوں، ان کی پرواہ ہوتی تو یہ وردی ہی کیوں پہنتے۔ میں نے ان کی تائید کی اور انتظار کرنے لگی خدا خدا کرکے ساڑھے بارہ کے قریب بیپر ہوگیا میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو انھوں نے کہا ہم پولیس والے اور آپ میڈیا والے تقریبا ایک جیسے ہی ہیں گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں کچھ غلط ہوجائے تو اپنے بڑوں سے سنتے بھی ہیں کوئی ہنگامہ ہو یا دھماکہ تو سامنے رہنے کی وجہ سے ہماری زندگیاں بھی داؤ پر لگی ہوتی ہیں اور پھر بھی لوگ منہ بھر کر ہمیں گالیاں دے کر گزر جاتے ہیں۔ میں نے مسکرا کر ان کی بات سنی اور اگلا سوال کیا کہ آپ سب کی شفٹ کب تبدیل ہوگی؟ تو انھوں نے کہا کہ ہمارے سپاہی اور جوان جب تک میچ ختم نہیں ہوجاتا یہی موجود رہیں گے خاص کر تب تک جب لوگ پارکنگ سے اپنی گاڑیاں نکال نہیں لیتے۔ میں نے گھڑی میں وقت دیکھا تو بارہ بج کر چالیس منٹ ہورہے تھے اور میچ شروع ہونے میں کئی گھنٹے باقی تھے۔

میرا رخ یونیورسٹی روڈ کی جانب تھا جب ایک منظر نے مجھے رکنے پر مجبور کیا ایک حضرت کنٹینر لگا کر گلی بند کرنے پر حکومت اور پولیس کو کوس رہے تھے اور پولیس کا جوان انھیں سمجھانے کی کوشش میں تھا کہ یہ صرف آج کی پریشانی ہے کل سے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے ان حضرت سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں ملیر کینٹ کی جانب جانا ہے تو گاڑی کہاں سے نکالیں اس پر جھگڑا ہے جبکہ پولیس والا ان کو سمجھا رہا تھا کہ ابھی سڑک بند نہیں کی یہ پانچ بجے بند کی جائے گی آپ اپنی گلی کی دودری سمت سے وفاقی یونیورسٹی کی جانب سے گاڑی نکال کر مرکزی شاہراہ پر آسکتے ہیں۔ لیکن وہ حضرت سمجھنے کو تیار نہ تھے و ہ مسلسل پولیس کو برا بھلا کہتے رہے کہ پولیس کو تو مزا آتا ہے عام عوام کو اذیت دینے میں۔ میں نے ایسے ہی سوال کردیا کہ آپ کو کوئی ایمرجنسی ہے جو ملیر کینٹ جانا ہے تو جواب ایسا آیا کہ میں دنگ رہ گئی۔ حضرت نے کہا کہ میری بہن کا گھر ہے اس کے بچوں کو پک کرنے جانا ہے پھر ہم سب اسٹیدیم میچ دیکھنے جائیں گے۔ میں نے بے ساختہ جواب دیا آپ اطمینان اور بناءکسی خوف کے میچ دیکھیں یہ انتظامات اسی لئے کیے گئے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو روز گھر سے نکلتے وقت یا دفتر سے لوٹتے وقت دن خراب ہونے کا غصہ پولیس والے پر نکالتے ہیں، اب اس کا حلیہ ہو یا وہ کہیں سستاتا ہوا دکھائی دے دے تو اس کی شامت ایسے میں ہمارا موبائیل فون فورا نکلتا ہے اور فوٹیج بنانا شروع کردیتا ہے۔ ہمیں وردی ویسے بہت پسند ہے لیکن وہ جو نیوی، آرمی یا ائیر فورس کے کسی جوان نے پہنی ہو۔ ان کو دیکھنا ان کے لئے اچھے خیالات رکھنا یہ ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جو سرحد پر لڑتا ہے یا اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس فرض کی دائیگی میں جان سے جائے وہ شہید کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی پولیس والا ڈیوٹی کرتے ہوئے جان کی بازی ہار جائے تو وہ جاں بحق کہلاتا ہے۔

ہم یہ سنتے ہوئے بڑے ہوگئے کہ پولیس والا بے ایمان ہوتا ہے، رشوت خور ہو تا ہے، یہ آرام طلب بھی ہے اور ہڈ حرام بھی۔ تب ہی ہم نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے کہ آتے جاتے اس کم قیمت وردی والے کو کوستے ہوئے نکل جائیں اور قلب کو وہ سکون بخشیں جو مدتوں سے بے سکون ہے۔ ہمارا زور ناکے پر ٹارچ پکڑے پولیس والے پر چلتا ہے۔ ہماری آواز میں گرج ٹریفک سارجنٹ کو دیکھتے ہی بڑھ جاتی ہے۔ جو گالی ہم گھر کی عورتوں کے سامنے دینے سے گریز کرتے ہیں وہ اچانک پولیس کی موبائل دیکھتے ہیں منہ سے ایسے نکلتی ہے جیسے پیار کے دو میٹھے بول۔

ہمیں یاد ہی نہیں ہوگا کہ پشاور میں پولیس کے کتنے جوانوں نے اپنی جان کی قربانی دیں۔ ہم نے وہ شہداءچوک بھی نہیں دیکھا ہوگا جہاں وکلاءتحریک کے دوران اسلام آباد میں خود کش حملے میں کئی پولیس والے شہید ہوگئے تھے۔ ہمیں کراچی میں پولیو ٹیم کو تحفظ دینے کے نتیجے میں گولیاں کھانے والے وہ سات پولیس والے کہاں یاد ہوں گے؟ ہمیں بڑے افسران کی شہادت یاد نہیں تو ایک چھوٹا سا سپاہی اگر دنیا چھوڑ جائے تو اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ تو چند مثالیں ہیں یہاں تو ان گنت داستانیں اور نام ہیں جو اگر لکھنے بیٹھوں تو کتنے صفحات بھرسکتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اتنا پتہ ہے کہ سرحد کی حفاظت کرنے والا ہی شہادت پاتا ہے لیکن جو گھر کے اندر کے دشمنوں سے لڑ تا ہے وہ اس اعزاز کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar